کون ہے، جو کسی دہشت گرد کے اندر جھانک سکے
دَورِ حاضر کے ممتاز جرمن ناول نگار بیرنہارڈ شلنک نے اپنے مشہور ناول ’’دا وِیک اَینڈ‘‘ میں سابق جرمن دہشت پسند تنظیم RAF کے جیل سے رہا ہونے والے ایک رکن کی داستان بیان کی ہے۔
جرمن ادب کا یہ شاہکار ناول، Das Wochenende ہے یعنی دا وِیک اَینڈ یا اختتامِ ہفتہ۔ اِس میں جرمن تاریخ کے ایک اور نازُک دَور یعنی ستر کے عشرے کی دہشت گردی کو موضوع بنایا گیا ہے۔
یہ ناول ایک طرح سے بہت بَرے وقت آیا۔ جب جرمنی میں اِس موضوع پر بہت بحث مباحثہ ہوا تھا کہ دہشت گرد تنظیم RAF یعنی رَیڈ آرمی فیکشن کے رکن کرِسٹیان کلار کو معافی دی جائے یا نہیں۔ کچھ لوگ اِس کے حق میں تھے اور کچھ اِس کے خلاف۔
بنیادی طور پر ناول نگار بیرنہارڈ شلنک خود قانون کے پروفیسر اور آئینی عدالت کے جج ہیں۔ لیکن جرم و سزا کی کہانیوں کے لئے انہوں نے بڑا جرمن اعزاز بھی حاصل کیا ہے۔
بَیرن ہارڈ شلِنک کے ناول میں بھی مرکزی کردار ایک ایسے ہی شخص کا ہے۔ کرِسٹیان کلار کے برعکس ناول کے فرضی کردار کو، جس کا نام Jörg ہے، وفاقی جرمن صدر سے معافی مل جاتی ہے۔
اِس کہانی کا آغاز جیل سے رہائی کی صبح ہوتا ہے، جب Jörg کی بہن اُسے لینے کے لئے آتی ہے۔ وہاں سے وہ دونوں ایک دیہی رہائش گاہ پر جاتے ہیں تاکہ وِیک اَینڈ پر دوست احباب کے ساتھ اِس رہائی کا جشن منا سکیں۔ بیرنہارڈ شلِنک کے مطابق اُن کے ذہن میں اِس ناول کا تصور بہت پہلے سے موجود تھا۔
”ایک روز مَیں اپنے والدین سے ملنے گیا اور میری ماں نے کہا کہ بیرنہارڈ، ہم نے ایک بات سوچی ہے کہ اگر تم دہشت گرد ہوتے اور پولیس سے بھاگتے بھاگتے ایک شام یہاں گھر پر آجاتے تو ہم تمہیں یہ کہتے کہ ہاں! ایک رات کے لئے تم یہاں ٹھہر سکتے ہو لیکن اگلی صبح تمہیں گھر سے جانا ہو گا۔ تب مَیں نے سوچا کہ اگر اُس روز میرا کوئی بھائی بہن بھی وہاں ہو، میرا کوئی پرانا دوست بھی وہاں آ جائے تو اُس ایک رات کو ہم سب کے درمیان کس طرح کی باتیں ہوں گی۔ تب سے جرمن خزاں کا موضوع ہمیشہ میرے ذہن میں رہا ہے۔“
جرمن خزاں سے مراد ہے، جرمن دہشت گرد تنظیم ریڈ آرمی فیکشن یا RAF کی دہشت گردی، جو آجرین کی تنظیم کے صدر ہنس مارٹِن شلائر کے قتل، جرمن فضائی کمپنی لفتھانزا کے جَیٹ کے اغوا اور RAF کے تین اراکین کی خود کُشی کے ساتھ 1977ء میں اپنے نقطہ عروج کو پہنچ گئی تھی۔
اِس موضوع پر قلم اُٹھانا کافی جرأت کا کام ہے۔ ناول کا زیادہ تر حصہ کرداوں کی باہمی گفتگو پر مشتمل ہونے کے باعث گراں بھی گذرنے لگتا ہے۔ تاہم بَیرن ہارڈ شلِنک کے نزدیک یہ گفتگو بھی بے حد اہم ہے۔
”مَیں اپنی نسل کے متوسط بورژوا طبقے کے خیالات دکھانا چاہتا تھا، جو کم و بیش تبدیلی کا خواہاں تھا اور اِس مقصد کے لئے کم یا زیادہ غیر قانونی کام کرنے پر بھی تیار تھا۔ تب ہمارا موضوع تھا، انسانوں اور اَشیاء کے خلاف تشدد کا استعمال۔ اِسی طبقے کی تصویر کشی میرا موضوع ہے، جو کسی حد تک ہمدردی تو رکھتا تھا، ساتھ بھی دیتا تھا لیکن جس نے اب جیل سے رہا ہونے والے Jörg کے برعکس دہشت گردی میں عملی طور پر قدم نہیں رکھا۔‘‘
بیرنہارڈ شلنک اپنے اِس ناول کے ذریعے دکھانا چاہتے ہیں کہ ایک وِیک اَینڈ پر مل بیھٹنے والے یہ دوست احباب، جو اُس دَور میں بائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے اور سماج کو بدلنا چاہتے تھے، آج کے زمانے میں کس طرح سے سوچتے ہیں اور جرمن خزاں کے تیس برس بعد وہ کس انداز میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔
اِس ناول میں بیرن ہارڈ شلنک دکھاتے ہیں کہ باقی دوست احباب اپنے اُس ساتھی کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، جو ایک بہتر دُنیا تشکیل دینے کی کوشش میں دہشت گرد اور قاتل بن گیا۔
ایک دہشت گرد تو کہے گا کہ اُس کی کارروائیاں ایک اچھے مقصد کے لئے ہیں جبکہ دراصل وہ بے گناہ انسانوں کو ظلم کا نشانہ بنا رہا ہوتا ہوتا ہے۔ وہ کیوں آخر اِس چیز کو نہیں سمجھ پاتا؟ اِس سوال کے جواب میں معروف بھارتی مصنف کِرن نگار کہتے ہیں کہ کوئی بھی ادیب پوری طرح سے کسی دہشت گرد کے اندر کی دُنیا میں جھانکنے کا دعویٰ نہیں کر سکتا کیونکہ کسی انسان کے دہشت گرد یا انتہا پسند بن جانے کے پیچھے بے شمار اور مختلف وجوہات کارفرما ہوتی ہیں۔
انگریزی زبان کے مشہور ناول ’’گاڈز لٹل سولجر‘‘ کے مصنف کرن نگار نے کہا کہ زیادہ تر لوگ مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ قوم پرستانہ جذبات کی بناء پر انتہا پسندی کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ ’’گاڈز لٹل سولجر‘‘ میں دو بھائیوں کی داستان بیان کی گئی ہے، جن میں سے ایک دہشت گرد بن جاتا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“