مرزا نوشہ اللہ جانے کلکتہ میں کیا دیکھ آئے تھے کہ کلکتے کا نام سن کر دل پکڑ کر بیٹھ جاتے۔ وہاں کے سبزہ زار ہائے مطرا ان کے دل کو بھاگئے یا نازنیں بتان خود آرا نے چچا کو گھائل کردیا، یا پھر میوہ ہائے تازہ شیریں انہیں اپنی جانب بلاتے تھے۔ البتہ وہ بادہ ہائے ناب گوارا کی یاد انہیں یقیناً بے چین کرتی ہوگی کہ دلّی میں قرض کی پیتے تھے مےلیکن سمجھتے تھے کہ ہاں ایک دن ان کی فاقہ مستی ضرور رنگ لائے گی۔
مجھے نہیں علم کہ مرزا غالب کس چکر میں کلکتہ گئے تھے۔ گمان یہی ہے کہ اردو کا ہی کوئی معاملہ ہوگا، کوئی وظیفہ وغیرہ کہیں اٹک گیا ہوگا کہ فورٹ ولیم کالج اور کلکتے کے نوا بین زبان وادب کے سرپرست ہوا کرتے تھے۔ یہ بات دل کو بھی لگتی ہے کیوں کہ فورٹ ولیم کالج ہی تھا جس نے اردو کو زبان زدِ عام بنانے میں سب سے بڑا کردار ادا کیا اور آج جو اردو ہم بولتے ہیں وہ فورٹ ولیم کے پروفیسر جان گلکرسٹ ، سید حیدر بخش حیدری، میر امّن دہلوی اور میر شیر علی افسوس جیسے مصنفین کی دین ہے ورنہ تو اردوۓ معلیٰ تو قلعے والوں کی زبان تھی اور الف لیلی ، مثنوی زہر عشق، مثنوی گلزار نسیم اور قصہ چہار درویش جیسی داستانیں صرف اعلیٰ طبقہ کے لوگ ہی سمجھ سکتے تھے۔
نہ صرف اردو اور اردو ادب بلکہ یہ کلکتہ علم وادب اور فنون لطیفہ، فن موسیقی اور نجانے کتنے فنون کا مرکز تھا جہاں آج بھی غالب اسٹریٹ اور شیکسپئیر سرائے اہل کلکتہ کی علم پرستی اور ہنر دوستی کی نشانیوں کے طور پر موجود ہیں۔ وہ کلکتہ جس نے ہندوستان کو رابندر ناتھ ٹیگور، ، مدَر ٹریسا، امریتہ سین سمیت پانچ نوبل انعام دئے۔ کلکتہ جس پر مسلم تہذیب کی بھی چھاپ ہے گو کہ نواب سراج الدولہ کی حکومت بہت مختصر عرصہ کے لیے رہی۔ یہ شہر برصغیر کی تحریک آزادی کا متحرک ترین شہر تھا جو نیتا جی سبھاش چندر بوس اور شمع آزادی کے پروانوں کا مرکز تھا۔
کلکتہ سوچنے والوں کا شہر ہے، جدوجہد کرنے والوں کا، حریت پسندوں کا، باغیوں کا، محنت کشوں کا، صنعتی مزدوروں اور ہنرمندوں کا اور کسانوں کا شہر ہے۔ کہتے ہیں مفلسی حسنِ لطافت کو مٹا دیتی ہے لیکن اس شہر نے ایسے ایسے نامور ہر میدان میں پیدا کئے کہ شاید ہی کوئی شہر اس کا ثانی ہو۔ بمبئی، دلی اور لاہور زیادہ تر ان اہل فن کی آماجگاہ تھے جو زیادہ تر دوسرے شہروں سے بہتر مواقع کی تلاش میں آئے لیکن کلکتہ کے اپنے باسی ہی اتنے ہیں کے باہر سے آئے ہوؤں کا ذکر ہی کیا۔ ٹیگور، قاضی نذر السلام جیسے شاعر ، ادیب اور فلسفی، سوامی ویویکآنند جیسا اصلاح کار، مدَر ٹریسا، راجہ رام موہن رائے جیسے سماجی کارکن،سبھاش چندر بوس اور بدھان چند رائے جیسے حریت پسند یہ سب علم وادب ، سماج سدھار اور تحریک آزادی کے بڑے نام ہیں۔
اور یہ کلکتہ شہر ہے ستیہ جیت رائے اور بمل دا جیسے ہدایتکاروں کا، میرا پسندیدہ ترین فلمساز اور ہدایتکار رشی کیش مکھرجی بھی اسی کلکتہ کی ہی پیداوار ہے۔ روی شنکر جیسا بے مثال موسیقار بھی اسی شہر میں پروان چڑھا۔ ہندوستان کی فلم انڈسٹری پر مدتوں راج کرنے والے دادامنی، اشوک کمار اور ان کے بھائی کشور کمار، لاجواب فنکار اتپل دت، دلیپ کمار کی دیوداس کی پارو ، سچترا سین اور میرا ایک پسندیدہ اداکار اُتم کمار جو مجھے مشرقی پاکستانی اداکار رحمن کی یاد دلاتا ہے۔ پھر شرمیلا ٹیگور اور راکھی جیسی فنکارائیں،ایس ڈی برمن، آرڈی برمن، انل بسو اس ، بپی لہری جیسے موسیقار، منّاڈے ، پنکج ملک جیسے سریلے اور ماہر گلوکار تو آج کے دور کی خوبصورت آوازیں کمار سانو، شریا گھوشال، ابھیجیت الکا یاگنک اور کرکٹ کے میدان میں نام کمانے والا سارو گنگولی ، یہ سب کلکتے کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ بیگم اختر اور طلعت محمود جیسے فنکاروں کو بھی اوّل اوّل کلکتہ ہی نے پناہ دی۔
کلکتہ اب بھی فنون لطیفہ ، موسیقی، ڈرامے اور کھیلوں کا مرکز ہے۔ میرے دو بہت پیارے اور متحرک دوست اظہر عالم اور خورشید اکرم مّنا سے مجھے وہاں کی تھیئٹر کی سرگرمیوں کی خبریں ملتی رہتی ہیں۔ ایڈن گارڈن دنیا کے کرکٹ کے چند سب سے بڑے میدانوں میں شمار ہوتا ہے جہاں ایک لاکھ تماشائیوں کی گنجائش ہے۔ کبھی فٹبال کلکتہ اور بنگال والوں کا پسندیدہ ترین کھیل ہوتا تھا اور اب بھی ہے۔ وہاں کی موہن بگان، ایسٹ بنگال اور محمڈن اسپورٹنگ فٹبال ٹیموں کے متوالے اپنی ٹیموں کے لئے لڑنے مرنے پر بھی آمادہ ہوسکتے ہیں۔ ٹورنامنٹ شروع ہونے سے پہلے میدانوں میں پوجا اور دیگر عبادات کی جاتی ہیں اور جس قدر سنجیدہ اہل کلکتہ فٹبال کے بارے میں ہیں شاید لیورپول، مانچسٹر یونائٹڈ، بارسلونا، روما، ریئل میڈرڈ اور برازیل کی ٹیموں کے حامی بھی نہ ہوں۔
کلکتہ انگریزوں کا پسندیدہ شہر تھا۔ وہ اسے لندن کی طرح بنانا چاہتے تھے۔ آج بھی انگریزوں کی بنائی ہوئی گو تھک اور رومن طرز کی عمارتیں ہی کلکتہ کا اصل حسن ہیں ۔ وکٹوریہ میموریل ہال، فورٹ ولیم کالج، دنیا کا ایک سب سے پرانا عجائب گھر انڈین میوزیم،ماربل پیلس، وہائٹ ٹاؤن، سینٹ پال کیتھیڈرل ، آرمینین چرچ، پرتگیزی چرچ اور بے شمار سرکاری، تعلیمی، مذہبی اور تفریحی عمارتیں اور علاقے انگریز راج کی دین ہیں۔ کلکتہ 1910 تک برٹش راج کا دارلحکومت جو تھا۔ آج بھی کئی جگہیں ایسی ہیں کہ لندن کا گمان ہوتا ہے۔
جس قدر برطانوی دور کی عمارات اور چرچ ہیں اتنے ہی یہاں مندر بھی ہیں، کالی مندر، برلا مندر ،جین مندر، آدی چیتشوری مندر، باموداس مکھرجی مندر اور نہ جانے کتنے مندر شہر میں ہر جگہ نظر آئیں گے۔ “ درگا پوجا” شاید کلکتے اور بنگال کا سب سے بڑا تہوار ہے جس کی تیاری مہینوں پہلے شروع کی جاتی ہے اور سارا شہر تہوار اور میلے کی سی کیفیت میں ہوتا ہے۔
لیکن یہ صرف مندر اور گرجا گھروں کا ہی شہر نہیں بلکہ یہاں ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت مساجد بھی ہیں جن میں ناخدا مسجد، ٹیپو سلطان مسجد، زہرہ مسجد، دھرمتلا اور نیمتولا مسجد ( جو میرے خیال میں نعمت اللہ مسجد ہوگی) شہر کے مختلف علاقوں میں موجود ہیں۔
نہ صرف ہندوستانی، انگریزی اور مسلم طرز کی عمارتیں کلکتہ کی رونق بنائے ہوئے ہیں بلکہ یہاں چینی آبادکاروں کا “ چائنا ٹاؤن “ یہودیوں کی “ عذرااسٹریٹ” اس کے علاوہ بدھسٹوں کے مندر بھی اس شہر کو ایک رنگ برنگا شہر بناتے ہیں جہاں مختلف عقیدوں اور زبانوں کے لوگ “ اب” شیرو شکر رہ رہے ہیں۔
انگریزی دور کے علاوہ کلکتہ میں نو تعمیر جدید عمارتیں بھی اپنی مثال آپ ہیں اور کلکتہ کو دوسرے ماڈرن شہروں کے مقابل لاکھڑا کرتی ہے۔ یہاں شاید ہندوستان کی پہلی میٹرو شروع ہوئی۔ ٹرام بھی سنا ہے اب تک چل رہی ہے اور یہ شاید برصغیر کا واحد شہر ہے جہاں اب تک ٹرام موجود ہے۔ سرخ رنگ کی بسیں ، پیلے رنگ کی ٹیکسیاں اور ہرے پیلے رنگ کے آٹو رکشہ۔ لیکن سب سے مقبول و منحوس سواریاں بھی اب تک موجود ہیں جنہیں میں انسانیت کے لیے باعث شرم سمجھتا ہوں۔ دلی سمیت ہندوستان کے کئی شہروں میں سائیکل رکشہ اب بھی چل رہے ہیں اور کلکتہ میں اس سے بھی بدتر ہاتھ سے کھینچے جانے والے رکشہ چل رہے ہیں۔
کلکتہ کی بندرگاہ بھارت کی واحد دریائی بندرگاہ ہے جو دریائے ہگلی پر واقع ہے۔ اس پر بنا “ ہاؤڑا برج” کلکتہ کی بڑی نشانیوں میں سے ایک ہے جس پر کئی فلمیں بھی بن چکی ہیں۔ دریائے ہگلی دراصل گنگا کی ہی ایک شاخ ہے۔ اس کے علاوہ “ و دیا ساگر” بھی کلکتہ کے مضافات کو سیراب کرتا ہے۔
جدید طرز کی تعلیمی عمارتیں، ہسپتال، مالز، پارک ، کھیلوں کے میدان، تفریح گاہیں اور سڑکیں شاید آپ کی آنکھوں کو خیرہ کردیں، کلکتہ جسے خوشیوں کا شہر ( City of Joy) اور روشنیوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ لیکن اس شہر نے بہت مشکلیں بھی دیکھی ہیں۔ 1943 کا قحط، دوسری جنگ عظیم میں جاپانیوں کی بمباری، 1946 میں تقسیم بنگال کے نتیجے میں ہونے والے فسادات جن میں چار ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ یہ شہر مشکلات سے لڑتا رہا۔ یہ باغیوں کا شہر ہے ۔ پاک و ہند میں اگر کوئی شہر صحیح معنون میں “ سرخ “ ہے تو وہ یہی کلکتہ ہے جہاں ایک مدت تک کمیونسٹ پارٹی کی حکومت رہی۔ مغربی بنگال کے مرحوم وزیراعلی جیوتی باسو بھارت کے کسی بھی صوبے کے سب سے طویل عرصہ برقرار رہنے والے وزیراعلی تھے۔ ان کا تعلق کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا سے تھا۔
جہاں یہ شہر اپنی جدید تعمیرات اور تاریخی عمارات سے آپ کو مرعوب کرتا ہے وہیں اس کا اندرون شہر کچھ زیادہ متاثر کن نہیں ہے۔ یہ سب ویسا ہی ہے جیسا ہندوستان کے دوسرے شہروں میں ہے۔ بے شک بازاروں میں کھانے پینے کی دکانوں کے پاس روش گلا ( رس گلا) ٹکی چھولے اور سنگھاڑا ( سموسہ) اور روئی ( رہو) مچھلی کھانے والوں کے ہجوم نظر آئیں گے۔ پتلون قمیض میں ملبوس دفتری بابو ملیں گے( ارے ہاں کلکتہ کو بابوؤں کا شہر بھی کہا جاتا تھا کہ یہاں انگریز راج میں سارے مرکزی سرکاری دفاتر ہوا کرتے تھے) ۔ نیکریں پہنے محنت کش نظر آئیں گے۔ ایک ہاتھ میں دھوتی کا پلو سنبھالے، کرتے پہنے معمر حضرات تیز تیز چلتے ملیں گے، سوتی اور ریشمی ساڑھیوں میں ملبوس بنگالی ناریاں جن کے “ حسن بنگال” کا سحر آپ کے دل ودماغ میں ہلچل مچا دیتا ہے۔ رکشہ گھسیٹتے ، بنیان دھوتی پہنے مدقوق ومنحنی سے بوڑھے یہ سب اس شہر کے منظر کا حصہ ہیں۔
لیکن یہ ہی کلکتہ ہے جو غریب پرور ہے، محنت کش ہے، باغی ہے، حریت پسند ہے تو اسی شہر میں غربت اور افلاس اپنی کریہہ ترین صورت میں نظر آتے ہیں۔ ہندوستان پاکستان کی تو بات ہی کیا ہے امریکہ میں بھی ایسے لوگ ہیں جو “ خطِ غربت” سے نیچے زندگی گذار رہے ہیں ۔ لیکن اس کلکتے میں تو وہ خطِ انسانیت سے بھی نیچے کی زندگی گذارتے ملیں گے۔ جھونپڑ پٹی، کچی آبادیاں ، غلیظ اور متعفن “ سلمز” بھی ہندو پاک کے شہروں میں بے تحاشا ملیں گے لیکن کلکتہ کے سلمز دیکھ کر انسانیت چیخ اٹھتی ہے۔ ایسی غلیظ ترین جگہیں جہاں جانور بھی نہ رہ سکیں وہاں خاندانوں کے خاندان پل رہے ہیں۔ ہڈیوں کا پنجر، بیمار بوڑھے، اوپری بدن پر کسی ستر سے محروم بوڑھی، معمر اور جوان اور تپ دق اور دوسری بیماریوں کی ماری عورتیں۔ پھولے اور ننگے پیٹ لئے گلیوں ، سڑکوں پر رُلتے بچے ، نشے کے عادی، بے روزگار نوجوان جو سارا دن گلیوں بازاروں میں یہاں وہاں بغیر کسی مصروفیت کے بیٹھے نظر آئیں گے۔
یہاں سینکڑوں نہیں، ہزاروں نہیں ، لاکھوں لوگ ریلوے پلیٹ فارم اور ریلوے لائنوں پر زندگی بسر کرتے نظر آئیں گے، کیچڑ جیسے پانی سے غسل کرتے مرد وزن، ، انہی کال کوٹھریوں میں بچے جنم دیتی عورتیں ، ریلوے لائنوں پر دوڑے پھرتے ننگ دھڑنگ بچے جہاں صرف دو فٹ کے فاصلے سے ریل گذرتی ہے اور اس کے قریب بچھونےببچھائے یہ افتاد گان خاک۔ شاید یہ مناظر آپ دیکھ بھی نہیں پائیں کہ انہیں دیکھنے کے لیے بھی پتھر جیسے دل چاہئیں اور وہ نہ جانے دل بھی رکھتے ہیں یا نہیں جو یہ زندگی جیتے ہیں۔ وہ جو کسی گانے کے بول تھے” یہ جینا کیا جینا” شاید انہی خاک نشینوں کو دیکھ کر کہے گئے تھے۔
ہندوستان بڑی تیزی سے ترقی کررہا ہے اور دنیا کے بڑے ترقی پذیر ممالک میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ یہاں امبانی ، برلا، ٹاٹا جیسے گھرانے بھی ہیں جو شاید کل آبادی کا آدھا فی صد بھی نہ ہوں۔ نئی معاشی اصلاحات کی بدولت اب پہلے سے بہتر اور بڑا درمیانہ طبقہ وجود میں آگیا ہے جس کے لئے ہر حکومت تگ و دو کرتی رہتی ہے۔
لیکن یہ آبادی کا سب سے بڑا حصہ جو خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہا ہے۔۔جن کی وجہ سے دنیا میں کسی ایک ملک میں غریبوں کی سب بڑی تعداد (Largest number of poor in a single country) کا ،اعزاز، بھی ہندوستان کے پاس ہے۔ اب اتنے لوگوں کی دادرسی کی جائے تو ملک کی ترقی متاثر ہوتی ہے چنانچہ انہیں ان کے حال پر ہی چھوڑ دیا جائے ۔
یہ جا بجا بکھرے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم، خاک میں لتھڑے ہوئے، خون میں نہلائے ہوئے جسم، نہ پہلے کبھی کسی کی ترجیحات تھے نہ اب ہیں۔جن کے پیٹ بھرے ہوئے ہیں ، جن کے جسموں پر اطلس وکمخواب کے لبادے ہیں وہ اپنے اپنے city of joy میں مست ہیں۔ یہ دنیا ایسے ہی چلتی رہی ہے اور ایسے ہی چلتی رہے گی۔۔۔۔رہے نام اللہ کا۔
****
تحریر: شکور پٹھان
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...