بظاہر یہ ایک اشتہار ہے جو آج سے باسٹھ سال پہلے دسمبر 1958 میں کراچی کے انگریزی روزنامہ ڈان میں "شهاہنواز لمیٹڈ" آٹو موبائل کا بزنس کرنے والی ایک کمپنی کی جانب سے شائع كروایا گیا تھا۔ یہ اشتہار اپنے دامن میں ایک سے زائد تاریخی حقائق سمیٹے ہوئے ہے۔
یہ ایک جغرافیائی حقیقت ہے کہ ہندوستان سے لے کر فرانس تک کا علاقہ زمینی راستے کے زریعے ایک دوسرے سے ملا ہوا ہے۔ پچھلی صدی کی پچاسویں دہائی میں انگریز نے ہندوستان کو تازہ تازہ الوداع کہا تھا اور انگریز کے ذہن سے "سرزمین ہندوستان" پر اپنی طویل حکمرانی کا خمار ابھی اُترا نہیں تھا۔ برطانیہ میں کچھ ٹریول کمپنیوں نے لندن سے کلکتہ کے لیے "بس سروس" شروع کرنے کا پروگرام بنایا اور تقریباً بتیس کمپنیوں نے عملی طور پر لندن سے کلکتہ تک بس سروس شروع کی۔
اس سلسلے کی پہلی سروس "دی انڈیا مین" کے نام سے پندرہ اپریل 1957 میں شروع کی گئی اور یہ سروس "گیرو فشر ٹورز" نے شروع کی تھی۔ یہ پورا ٹِرپ 32000 کلو میٹر پر محیط تھا۔ اس اشتہار کو پورا غور سے پڑھیں تو اس میں لکھا ہوا ہے کہ؛
حال ہی میں "انڈیا مین" کی بس کراچی آئی تھی.
درحقیقت کراچی شہر کا وِزٹ بس کے روٹ میں شامل نہیں تھا۔ بس کو لاہور سے کوئٹہ براستہ سکھر اور کوئٹہ براستہ چمن، زاہدان ایران جانا تھا۔ لیکن ابھی یہ بس لاہور-کوئٹہ کے درمیانی راستے میں ہی تھی کہ اطلاعات ملیں کہ ایران میں فلو کی وباء پھیل چکی ہے اور بس کے مسافروں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے، اس لیے فوری طور پر فیصلہ کیا گیا کہ بس کو بجائے کوئٹہ کے کراچی لے جایا جائے اور آگے کا سفر سمندر کے ذریعے کیا جائے۔
جی ہاں 1957 تا 1958 میں چین کے شہر ووہان سے ہی اس فلو کی بیماری شروع ہوئی تھی۔ اس وبا کو اُس وقت ایشیائی فلو کا نام دیا گیا تھا اور اس وباء نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔
ماہرین کے مطابق یہ جراثیم بطخوں سے انسان میں منتقل ہوا تھا۔ اس وباء سے دنیا میں اُس وقت تقریباً بیس لاکھ افراد جاں بحق ہو گئے تھے، ایک ریکارڈ کے مطابق صرف 70 ہزار اموات امریکہ میں واقع ہوئی تھیں۔
چنانچہ وبا کے خوف سے "بس" کا رخ کراچی کی جانب موڑ دیا گیا. ابھی یہ "بس" کراچی پہنچی ہی تھی کہ معلوم ہوا کہ ایران میں اس بیماری پر قابو پا لیا گیا ہے اور اب کوئی خطرے والی بات نہیں ہے تو پھر یہ بس کراچی سے واپس کوئٹہ کی جانب روانہ ہو گئی!
“