یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ ناولوں میں سب کچھ سچ جاتا ہے، سوائے نام اور تاریخ کے۔۔ لیکن کیا یہ سچ اتنا طاقت ور ہوتا ہے کہ عدالت کے فیصلے پر اثر انداز ہو جائے اور اس نا انصافی کو ختم کر دے جو تاریخ نے روا رکھی تھی، وہی تاریخ جس میں سب کچھ جھوٹ ہوتا ہے، سوائے نام اور سنین کے۔۔۔
معاملہ چلا ہے گابرئیل گارسیا مارکیز کے ایک ناول سے، لوگ اس پر یہی کہیں گئے کہ ایسی باتیں صرف ناولوں میں ہوتی ہے، اور ناول بھی مارکیز کے جن کی تخیلاتی اور رنگ برنگی دنیا، حقیقت اور جادو کا امتزاج ہے۔۔ مگر ناول سے نکل کر یہ معاملہ عدالت میں پیش ہے۔۔
مارکیز کے وطن کولمبیا میں عدالت اس مقدمے کی سماعت کر رہی ہے کہ ناول نگار کے نانا کے انتقال کے لگ بھگ ساٹھ برس بعد ان کا فوجی اعزاز و اکرام بحال کیا جائے اور انہیں پس مرگ ترقی دے کر جنرل کے عہدے پر فائز کیا جائے۔۔
آں جہانی نکولس مارکیز میچیالا، لاطینی امریکہ کے مقبول ترین مصنف گابرئیل گارسیا مارکیز کے نانا تھے اور ان کے اس لائق نواسے نے ان کے کردار کو سامنے رکھ کر ایک مختصر ناول لکھا، جو " کرنل صاحب کو کوئی خط نہیں لکھتا " کے نام سے مشہور ہوا۔۔
اس ناول میں 75 سالا کرنل صاحب اور انکی بیوی برسوں سے اس خط کا انتظار کر رہے تھے جس میں ان کو یہ اطلاع ملے گئی کہ ملک کی خانہ جنگی میں اپنی خدمات کے صلے میں وہ فوجی پینشن کے حق دار ہو جائیں گئے۔۔ اس انتظار کے عالم میں انکی مالی حالت خراب ہوتی چلی جا رہی ہے۔۔ ایک بد حال قصبے میں کرنل صاحب اس خط کا انتظار کئے جا رہے ہیں جو کسی نے ان کو نہیں لکھا۔۔
جرنل صاحب انتظار کرتے کرتے خود تو اس دنیا سے گزر گئے اور ان کا انتظار جدید افسانوی ادب کا ایک انتہائی معنی خیز استعارہ بن گیا۔۔
مگر اب مارکیز کے بعض مداحوں نے اس معاملے کو دوبارہ اٹھایا۔۔ کرنل صاحب کے لیے کوئی ایسا شخص تو ہو جو ان کو خط لکھے، حالانکہ اب اکیسویں صدی آگئی ہے۔۔
حوزے رافائیل کانون نے کہا : جنہوں نے یہ مقدمہ عدالت میں دوبارہ دائر کیا ہے۔۔ ہم چاہتے ہیں کہ مملکت، کرنل صاحب کی حثیت کو تسلیم کرے۔۔ پھر ہم چاہتے ہیں کہ ان کا عہدہ جمہوریہ کے جنرل کے برابر کیا جائے۔۔ اب تک ان کو تیسری درجے کے شہری کے طور پر دیکھا گیا ہے۔۔۔
اخباری نمائندوں سے ٹیلی فون پر انٹرویو کے دوران کانوں نے بتایا کہ ان کے تین ساتھیوں نے کرنل صاحب کے فوجی کیرئیر پر 18 ماہ کی تحقیق کے بعد کافی شواہد جمع کئے۔۔ 1899 میں برپا ہونے والی " ایک ہزار دنوں کی جنگ " میں کرنل صاحب نے فوجی خدمات انجام دی تھیں، اور اس بارے میں اس وقت کے فوجی اہلکاروں کے بیانات موجود ہے۔۔
" یہ ناانصافی پچھلی صدی کی گئی تھی مگر ایک غلط کام کو درست کرنے کے لئے ابھی بھی دیر نہیں ہوئی۔۔ " کانون نے کہا۔۔
فی الحال ان کا مقصد کرنل صاحب کے فوجی ریکارڈ کی درستگی ہے، اور وہ کرنل صاحب کی پینشن کا قصہ نہیں چھیڑ رہے۔۔ اس کے بارے میں مارکیز خاندان سے بعد میں مشورہ کیا جائے گا۔۔ مارکیز خود اس مقدمے اور کرنل صاحب کے رتبے کی بحالی کی مہم کا حصہ نہیں بنے ہیں۔۔ مگر لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ اس مقدمے کی کاروائی کا بڑی دلچسپی کے ساتھ مشاہدہ کر رہے ہیں۔۔
مارکیز کی نانی، یعنی کرنل صاحب کی بیوہ نے 1939 میں کرنل صاحب کے انتقال کے بعد عدالت میں یہ مقدمہ دائر کرنے کی کوشش کی تھی، مگر ناکام ہوگئی اور 50 کی دہائی میں مارکیز کے ماموں کی طرف سے بھی ایسی کوشش بے سود ثابت ہوئی۔۔ مارکیز نے اپنا بچپن کرنل صاحب کے گھر میں گزارا اور اس نے یہ ناول 1957 میں قلم بند کیا۔۔
اس ناول کے طفیل یہ مقدمہ از سر نو زندہ ہوگیا، اگر اس کا فیصلہ کرنل صاحب کے حق میں ہوگیا تو یہ اس کہانی کے لئے نیا موڑ ہوگا کہ :
جس میں غربت سے تنگ آکر اپنا اخری سامان بیچنے پر تلے ہوئے کرنل صاحب سے اس کی بیوی پوچھتی کہ اگر سامان نہ بکا تو وہ کیا کھائیں گئے، اور کرنل صاحب ایک پہ لفظ میں جواب دیتے ہیں جو اس ناول کا نقطئہ انتہا بھی ہے۔۔
" گوبر " ۔۔۔!!
••••
ناول سے ایک اقتباس احباب کی نظر :
کافی کے ڈبے کا ڈھکن اٹھانے پر کرنل کو پتہ چلا کہ ڈبے میں صرف چمچ بھر کافی باقی ہے۔۔۔ اس نے کیتلی کو چولھے سے اتارا اور اس میں سے آدھا پانی مٹی کی فرش پر گرا دیا۔۔۔ پھر وہ چاقو لیکر ڈبے کی دیواروں پر لگی ہوئی کافی کھرچنے لگا ، کافی کے ساتھ زنگ بھی اتر اتر کر کیتلی میں گرنے لگا۔۔۔ جب کرنل ، کافی ابلنے کے انتظار میں ، پتھر کے آتشدان کی سامنے مطمیئن مگر معصوم توقع کی ساتھ بیٹھا تھا ، اسے اپنی انتڑیوں میں کھمبوں اور سوسن کے زہریلے پھولوں کے اگنے کا احساس ہوا۔۔۔
اکتوبر کا مہینہ آن پہنچا ، یہ ایک دشوار صبح تھی ، اس جیسے شخص کے لیے بھی جو ایسی بے شمار صحبتیں گزار چکا تھا۔۔
تقریباً ساٹھ برس سے ، یعنی خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد سے ، کرنل نے سوائے انتظار کے کچھ نہ کیا تھا۔۔۔ اکتوبر کا مہینہ اس کے آس پاس آنے والی گنی چنی چیزوں میں سے ایک تھا۔۔۔ کرنل کی بیوی نے اسے کافی کا پیالہ اٹھائے خواب گاہ میں داخل ہوتے دیکھا تو مچھر دانی کا کونا اٹھا دیا۔۔۔
پچھلی رات اسے دمے کا دورہ پڑا تھا اور ابھی تک غنودگی کی حالت میں تھی۔۔۔ لیکن کافی کا پیالہ لینے کے لیے اٹھ بیٹھی۔۔۔
" اور تمہاری کافی کہاں ہے ؟؟ " اس نے پوچھا۔۔
" میں پی چکا ہوں " کرنل نے جھوٹ بولا۔۔ اس کے بعد بھی چمچ بھر کافی بچ رہی تھی۔۔!!
" برے حالات کی بدترین بات یہ ہے کہ انسان جھوٹ بولنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔۔۔!!! "
••••
حوالہ : دنیا زاد، کتاب 13
ناول : کرنل کو کوئی خط نہیں لکھتا
انتخاب و ٹائپنگ : احمد بلال
“