*کوئی روشنی، کوئی روشنی: بلراج مین را کی یاد میں*
* نئے سال کے پہلے مہینے ہی میں کئی بری خبریں ملی ہیں۔ سلمان حیدر اور کچھ
دوسرے بلاگر کو ’غائب ‘ کردیا گیا۔ اس بری خبر کا برا پہلو یہ ہے کہ ان کی گم
شدگی کو متنازع بنا دیا گیا ہے، اس طرح جن لوگوں نے انھیں’ غائب ‘کیا ہے،
انھیں باقاعدہ جواز مل گیا ہے۔ لوگ قانون توڑ سکتے ہیں، مگر وہ کسی عمل کو
تادیر جاری نہیں رکھ سکتے، جب تک انھیں سماج کے ایک بڑے طبقے کی رضامندی کی
صورت میں جواز نہیں مل جاتا۔ دوسری بری خبر کل شام ملی کہ جدید اردو افسانے کے
ممتاز نمائندے بلراج مین را دہلی میں انتقال کر گئے۔ دونوں خبروں میں ایک تعلق
ہے۔ مین را کے افسانے ’آخری کمپوزیشن‘ (تیسری دنیا کے ادیبوں کے نام ) میں
مرکزی کردار سلمان حیدر کی مانند غائب ہوجاتا ہے۔ افسانے کا آغاز اس سطرسے
ہوتا ہے ” اس کے لفظ چھین لو، اور اسے چھوڑ دو“۔لفظ چھیننے کا مطلب موت کے سوا
کیا ہوسکتا ہے، اور چھوڑنے کا مطلب مردہ بدن کو پھینک دینے کے سوا کیا ہے؟ مین
را کے انتقال کی خبر دہلی سے سرورالہدیٰ نے دی، اور مجھ سے تعزیت آصف فرخی نے
کی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی کے شعبہ ءاردو سے وابستہ سرور الہدیٰ نے نہ صرف
مین را کے افسانوں کا کلیات ”سرخ و سیاہ“ کے عنوان سے مرتب کیا، بلکہ ”مین را
ایک ناتمام سفر“ کے عنوان سے پوری ایک کتاب بھی ان پر لکھی ہے۔ رات ان سے فون
پر تفصیلی بات ہوئی تو بے حد دکھی اور دل گرفتہ تھے؛ دکھی، مین را کے انتقال
پر، اور دل گرفتہ دہلی کے ادبا کی سفاکانہ بے حسی پر۔ کل شام جب مین را کی
آخری رسومات ادا کی جارہی تھیں تو دوکروڑ کی آبادی کے شہر اور اردو ادب کے
عظیم مرکز دہلی سے پندرہ بیس لوگ وہاں موجود تھے۔ان میں سرورالہدیٰ واحد ادیب
تھے، اور ایک ان کا شاگرد تھا۔ مین را کے انتقال پر اناللہ پڑھنے سے شاید کچھ
پارساؤںکی شان میں گستاخی ہوتی، مگر اس صورت ِ حال پر تو بے ساختہ اناللہ
وانا الیہ راجعون پڑھا۔*
* 1935ء میں ہوشیار پورپنجاب میں پیدا ہونے والے بلراج مین را کی زندگی دہلی
میں گزری۔ وہ 1956ء میں میونسپل کارپوریشن دہلی کے محکمہ صحت میں لیبارٹری
ٹیکنیشن بھرتی ہوئے، اور یہیں سے ریٹائر ہوئے۔ وہ ان لوگوں میں شامل تھے جنھیں
یہ شعور حاصل ہوتا ہے کہ آدمی کی ذات میں ’بہترین‘ کیا ہوتا ہے، اسے کیسے
دریافت کیا جاتا ہے، اور اسے کیوں کر سینے سے لگا کر رکھا جاتا ہے، اور پھر
اپنے تصورِ حیات میں اس ’بہترین ‘ کو کیوں کر مرکزی حیثیت دی جاتی ہے۔ انھوں
نے اعلیٰ ملازمت، بڑے عہدے، یہاں تک کہ شہرت کو ’بہترین ‘ میں شامل نہیں کیا۔
حالاں کہ ان کی ذہانت، محنت اور محنت میں باقاعدگی و تسلسل جیسی خصوصیات انھیں
کسی بڑی یونیورسٹی میں اہم عہدے تک لے جا سکتی تھیں۔ انھوں نے اپنی ذات کی
’بہترین ‘ صلاحیت کا رخ ادب کی طرف کیا۔ انھیں زیادہ تر لوگ جدید افسانے کے ان
چار معماورں میں شمار کرتے ہیں، جن میں پاکستان سے انتظار حسین اور انورسجاد
جب کہ ہندوستان سے سریندر پرکاش شامل ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جدید افسانے کی
شعریات کے حوالے سے ان کی نسبت اگر کسی سے بنتی ہے تو وہ انور سجاد ہیں، جن سے
ان کا گہرا قلبی وذہنی تعلق بھی تھا۔ انورسجاد اور بلراج مین را دونوں کے یہاں
جدیدیت کا مطلب عصری زندگی کی ایک ایسی نمائندگی ہے، جس میں جمالیاتی سطح پر
کمال حاصل کی باقاعدہ تگ ودو شامل ہو، اور عصری زندگی میں سیاسی جبر اور نئی
نوآبادیاتی طاقت کی چیرہ دستیوں کے خلاف عملی جدوجہد شامل ہے۔ مین را نے
ٹیکنیشن کی ملازمت کرتے ہوئے ٹریڈ یونین کی عملی سیاست میں حصہ لیا۔ جب ویت
نام میں امریکا کی بربریت جاری تھی تو اس کے خلاف لکھا، اور ان کے کئی افسانوں
میں ویت نام ایشیائی مسئلے کے طور پر ابھرتا ہے۔ جب ویت نام میں امریکی فوج نے
ہتھیار ڈالے تھے تو مین را نے اپنے گھر چراغاں کیا تھا۔ ان کی جوانی ویت نام
کے دکھ میں کٹی، اور بڑھاپا ویت نام کے بعد کی صورتِ حال کی پیدا کردہ مایوسی
میں گزرا۔ مین را کی جدیدیت کا ایک اور سبق یہ ہے کہ ادیب کسی سیاسی جماعت یا
ادبی تحریک کا رکن ہوئے بغیر سیاسی نظریے کا حامل اور اس پر عمل کرنے والا
ہوسکتاہے، اور بہ طورادیب اپنی تخلیقی انفرادیت کی حفاظت کرسکتاہے۔*
*مین را نے بہت کم لکھا۔ ان کے افسانوں کی تعداد محض سینتیس(37) ہے۔ اس کی بہ
ظاہر وجہ یہ ہے کہ وہ تکمیلیت پسند (پرفیکشنسٹ ) تھے۔ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی
ہے کہ وہ جدیدیت کی اورجنلٹی میں یقین رکھتے تھے، اور اورجنلٹی کو خود اپنے
شخصی تجربے میں دیکھتے تھے۔ تکملیت پسند فنکار بالآخر مایوسی کا شکار ہوتے
ہیں۔ مین را بھی ہوئے۔ انھوں نے خود کو دہرایا نہیں۔ وہی لکھا جسے خود اپنی
روح میں ایک شدید اضطراب کی صورت محسوس کیا۔ اب ظاہر ہے ایک آدمی اپنی روح
میں کتنے اضطراب محسوس کر سکتا ہے، اور کتنے عرصے تک، خاص طور پر اگر وہ خود
سے مخلص بھی ہو؟ اس لیے اپنے شخصی اضطراب کے تحت لکھنے والوں کی تخلیقی زندگی
کادورانیہ محدود ہوتا ہے۔*
* مین را نے ابتدا میں منٹو کے انداز میں لکھا۔” بھاگوتی“ (1957ءمیں لکھا گیا
مین را کا پہلا افسانہ ) اور ”دھن پتی “ دونوں افسانے منٹو کے اثر کے غماز
ہیں۔ دونوں افسانوں میں انسانی فطرت کی بوالعجبی کو جنس کے پیرائے میں پیش کیا
گیا ہے، اور دونوں افسانوں کا خاتمہ ایک قطعی غیر متوقع صورت حال کے انکشاف
یعنیEpiphany پر ہوتا ہے۔ اس کے بعد انھوں نے ایک الگ اپنی افسانوی راہ دریافت
کی۔ انھوں نے سماجی حقیقت نگاری کے بجائے سرئیلی حقیقت نگاری کا اسلوب اختیار
کیا، جس میں حقیقت و فنتاسی کا فرق مٹ جاتاہے ۔ Uncanny سے بھی انھوں نے کافی
کام لیا، جس میں انسانی فطرت وسماج کے انہونے، انوکھے، پیراڈاکسیائی منطقوں کو
علامتی زبان میں پیش کیا جاتا ہے ۔ انھوں نے افسانے میں فلم کی تیکنیک سے بہ
طور خاص کام لیا۔ ان کے تمام بہترین افسانے اسی تیکنیک میں ہیں۔ کمپوزیشن کے
عنوان سے انھوں نے چند افسانے لکھے، جن میں کمپوزیشن دو ان کا بہترین افسانہ
سمجھا جاسکتا ہے، اس میں موت کا فرشتہ انسانی زبان میں موت کے موضوع پر گفتگو
کرتا دکھایا گیا ہے۔ اسی طرح ماچس، آتما رام، وہ، کوئی روشنی، کوئی روشنی
جیسے ان کے افسانوں میں مذکورہ اسلوب اور تیکنیک ملتی ہے۔ مین را، انور سجاد
سے بھی بڑھ کر کفایت لفظی میں یقین رکھتے تھے۔ ان کے افسانوں میں لفظ تو
درکنار، رموزاوقاف میں سے بھی کوئی رمز غیرضروری ہوتی ہے، نہ بے محل۔*
* مین را سفاکی کی حد تک بے باک نقاد تھے۔ ان کی یہ خصوصیت ایک طرف ان کے
رسالے شعور میں نظر آتی ہے، دوسری طرف اردو فکشن کے سلسلے میں، اور تیسری طرف
اپنے دوستوں کے انتخاب میں۔ اس میں قطعاً کلام نہیں کہ” شعور“ اردو ادب کا
بہترین رسالہ تھا، جس میں ہر لفظ انتخاب تھا۔ اردو فکشن کے وہ کچھ زیادہ قائل
نہیں تھے ۔وہ خود اپنے افسانوں کو بہترین میں شمار نہیں کرتے تھے۔ انھیں اچھا
کہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ منٹو کی آدھی کے قریب کہانیاں کباڑ ہیں، کرشن
چند ر کی اسی (80) فیصد بے کار ہیں۔ سریندر پرکاش کو نہیں مانتے تھے، یہاں تک
کہ انور سجاد کے ساتھ ان کا ذکر کرنا بھی نامناسب خیال کرتے تھے۔ منٹو نے بعد
وہ فقط انتظار حسین کے قائل تھے۔ 2016ء میں دریاگنج دہلی کے براڈ وے ہوٹل میں
ان سے میری پہلی اور آخری ملاقات ہوئی، جس میں مرزاحامد بیگ، سرورالہدیٰ اور
عبد السمیع بھی موجود تھے۔انھوں نے کہا کہ اردوفکشن میں منٹو کے بعد صرف
انتظار حسین۔ تنقید میں وہ خلیل الرحمان اعظمی اور شمیم حنفی کے بے حد قائل
تھے۔ شمیم حنفی صاحب سے انھیں وہی قلبی تعلق تھا جو انھیں انورسجاد سے تھا،
اور کچھ محمد سلیم الرحمان سے تھا۔ شاعری سے انھیں کچھ زیادہ لگاؤ غالباً
نہیں تھا، مگر خلیل الرحمان اعظمی کے اس شعر کو اپنے افسانوں کا عنوان بنایا:*
*میں شہیدِ ظلمت شب سہی مری خاک کو یہی آرزو*
*کوئی روشنی، وئی روشنی، کوئی روشنی، کوئی روشنی*
*یہ شعر انھیں اس لیے پسند تھا کہ اس میں ظلمت میں گھری خاک کو خود اپنی روشنی
کی طلب ظاہر ہوئی ہے!*
* مین را کے ذہن پر کچھ کتابوں کا نقش بہت گہراتھا۔ وہ روسی آئن رینڈ کے ناول
The Fountainheadکے بے حد قائل تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اردو میں کوئی ایک ناول
اس مرتبے کا نہیں لکھا گیا۔ اس ناول کے مرکزی کردار Howard Roarkکا بہت ذکر
کرتے تھے، جو ایک آرکی ٹیکٹ ہے، اور یوں لگتا ہے کہ مین را نے اس کردار کی
صورت میں فنکار کے ایک مثالی تصور سے آشنا ہوئے۔ اس ناول میں ایک جگہ لکھا ہے
کہ ”راست بازی وہ صلاحیت ہے جس سے آدمی اپنے خیال پر قائم رہتا ہے“۔ شاید یہی
وجہ ہے کہ مین را نے اپنے افسانوں میں فنکار ہی کو ہیرو بنایا، اوردنیا کو ایک
راست باز فنکار کی صورت دیکھا۔ مین را نے گزشتہ چالیس برسوں سے کچھ نہیں لکھا
تھا، اور اس کی وجہ انھوں نے سرورالہدیٰ کو یہ بتائی کہ انھوں نے اردو دنیا
میں ادیب کے جس کردار کو دیکھا ہے، اس کے بعد انھوں نے لکھنے کو بے معنی
سمجھنا شروع کر دیا۔ ادیب کا یہ کردار مصلحت پسند، سطحیت پسند، مفاد پرست ہے،
اور ادب کی بنیادی روح یعنی اپنے عصر کو فن کے کمال کی آرزو کے ساتھ پیش کرنے
سے بھٹک گیا ہے۔ ایسا تو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے، ادیبوں کا ایک طبقہ مفاد پرست
رہا ہے تو ایک اقلیتی طبقہ ادب کی حقیقی روح سے وابستہ رہا ہے، مگر تکملیت
پسند مین را کی مایوسی نے ان کی ادب لکھنے کی حس کو مردہ کر دیا، مگر وہ اپنی
پسند کی کتابیں باقاعدگی سے ہر اتوار کو دہلی کی پرانی کتابوں کے بازار سے
خریدتے اور پڑھتے رہے۔*
* وہ ادیبوں سے مایوس تھے، مگر ان کی مایوسی اور ان کے بڑھاپے اور گرتی صحت نے
انھیں نہ تو سنکی بنایا نہ بچپن کےدھارمک عقائد کی طرف مراجعت پر مجبور کیا۔
وہ آخر دم تک ایک روشن خیال عقلیت پسند رہے۔ زندگی کے خاتمے کو مکمل خاتمے سے
تعبیر کرتے تھے، اس کے باوجود زندگی سے وابستہ رہے، دوستوں کے انتہائی محدود
حلقے اور اپنے بیٹے اور خاندان کے دکھ سکھ میں شریک رہے، اور سب سے بڑھ کر ان
کی زندہ دلی برقرار رہی۔ مین را نے اپنے افسانے ’کمپوزیشن دو‘ میں لکھا ہے کہ:*
* ”آپ لوگوں کا المیہ یہ ہے کہ پیدا ہوتے ہی آپ کی زبان پر درازی عمر کا
کلمہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ کا کوئی دوست، عزیز یا رشتہ دار اٹھ جاتا
ہے، آپ لوگ رونے پیٹنے، غم منانے کا اتنا بڑا آڈمبر رچاتے ہیں کہ تعجب ہوتا
ہےکسی بھی آدمی کی پہچان، اس کا مرنا نہیں، اس کا جینا ہوتا ہےاور یہ کہ آپ
لوگوں کو جینے کی کوئی خواہش نہیں ہوتی، مرنے کا غم ہوتا ہے“۔*
*مین را کی پہچان بھی ان کا جینا تھا!*
* ٭ ٭*