برٹش قبضے کے وقت مولوی محمد باقر کے بیٹے اور شاعر محمد حسین آزاد اپنی فیملی کے ساتھ گھر میں تھے۔
“فوجی گھر میں اچانک گھسے، بندوق لہرائی اور چیخے، نکل جاوٗ۔ میری دنیا اندھیر ہو گئی۔ بھرا پرا گھر تھا اور میں ساکت کھڑا تھا۔ کیا ساتھ لے جاوٗں۔ جواہرات اور زیورات کو ہم نے ڈبے میں بند کر کے کنویں میں پھینک دیا تھا۔ میری نظر اپنے استاد ذوق کی غزلوں کے مجموعے پر پڑی جو ان کے پاس تھا (ذوق فوت ہو چکے تھے اور آزاد کا اس مجموعے کو ابھی شائع کرنے کا ارادہ تھا)۔ میں نے سوچا، “حسین، اگر خدا نے مدد کی اور بچ گئے تو باقی مال و دولت تو واپس مل جائے گا لیکن ایسا استاد پھر کب آئے گا۔ یہ غزلیں ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیں گی۔ ان کے ذریعے ذوق مرنے کے بعد بھی زندہ رہیں گے۔ اگر یہ نہ بچیں تو میرے استاد بھی ختم ہو جائیں گے”۔ میں نے اس پیکٹ کو بغل تلے دبایا۔ اس گھر کو بائیس نیم مردہ ارواح کے ساتھ چھوڑ کر میں نکل لیا۔ آدم خلد سے نکلے تھے اور دہلی بھی خلد تھا۔ یہ ابنِ آدم کا خلد سے نکلنا تھا”۔
وہ رات آزاد کی فیملی نے بھی برف خانے گزاری۔ ان کے پاس کچھ آٹا تھا۔ ٹوٹے ہوئے کسی مرتبان میں آٹا گوندھ لیا تھا۔ پتوں اور ٹہنیوں کے ساتھ آگ جلائی تھی اور دوسرے پناہ گزینوں سے اس رات ادرک، نمک اور مرچ مانگ کر چٹنی بنا کر بھوک مٹائی تھی۔ آزاد کہتے ہیں کہ اس رات کی آدھ پکی ہوئی روٹی اور ادرک کی چٹنی زندگی میں کھائی بہترین بریانی، قورمے اور پلاوٗ سے زیادہ اچھی لگی تھی۔
اگلے روز اپنی فیملی کو آگے روانہ کر کے اور ایک بڑا خطرہ مول لے کر آزاد واپس دہلی آ گئے۔ انہیں اپنے والد مولوی محمد باقر کی تلاش تھی۔ ان کی کسی سکھ افسر سے ملاقات ہوئی جس نے مدد کا وعدہ کیا۔ بھیس بدلوا کر وہ افسر انہیں وہاں لے گیا جہاں قیدی رکھے گئے پھانسی دئے جانے کا انتظار کر رہے تھے۔ جب باقر کو لے جایا رہا تھا تو باپ بیٹے کی نظریں آخری بار ایک دوسرے سے ملیں۔
مولوی محمد باقر کی پھانسی کے بعد آزاد نے دہلی چھوڑ دیا۔ ان کی اگلی زندگی ایک شہر سے دوسرے شہر اکیلے گھومتے اور شدید غربت میں گزری۔ مدراس، نلگری ہل، لکھنو اور پھر لاہور۔ چار سال تک انہوں نے اپنے استاد کی غزلوں کا مجموعہ نہیں چھوڑا۔
انہیں لاہور میں ڈاکئے کے طور پر ملازمت 1861 میں ملی اور پھر انہوں نے زندگی واپس بنانا شروع کی اور جیسا انہوں نے عہد کیا تھا۔ انہوں نے اپنے استاد کا مجموعہ شائع کروا لیا جو دہلی شہر کے ایک عہد کی یادگار ہے۔ دہلی کی انٹلکچوئل اور آرٹ کی تخلیقی روایات کی یادگار، جنہیں چار سال پہلے تباہ کر دیا گیا تھا۔ آزاد کی اس لگن کی وجہ سے ابراہیم ذوق کا نام اور کام زندہ رہ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دہلی سے نکلنے والے پناہ گزینوں کے ساتھ اچھا نہیں ہوا۔ انہیں گجر اور میواتی قبائلیوں نے لوٹ مار کا نشانہ بنایا۔ خواجہ حسن نظامی نے ان واقعات پر کتاب “بیگمات کے آنسو” لکھی ہے۔
شاہی خاندان کے مرزا شاہ زور اپنی حاملہ بیوی، چھوٹی بہن اور والدہ کے ساتھ نکل کر مہروالی پر قطب صاحب کی درگاہ پر گئے اور ایک رات گزاری۔ اگلی صبح چھترپور سے کچھ میل دور گجروں نے لوٹ لیا۔ قبائلیوں نے سب کچھ چھین لیا لیکن جان بخشی کر دی۔ “خواتین رو رہی تھیں۔ میں نے دلاسہ دینے کی کوشش کی۔ قریب ہی گاوٗں تھا۔ میری والدہ قدم قدم پر گر پڑتیں اور کہتیں کہ قسمت نے اس عمر میں انہیں کیا دن دکھائے ہیں۔ یہ گاوٗں مسلمان میواتیوں کا تھا جنہوں نے ہمیں چوپال میں ٹھہرنے دیا۔ گاوٗں والوں نے کھلایا پلایا لیکن کچھ دن بعد کہنے لگے کہ کام کاج میں حصہ ڈالیں۔ میں نے کہا کہ میں خوشی خوشی کام کو تیار ہوں۔ میں فوجی خاندان سے ہوں۔ بندوق چلانا جانتا ہوں۔ تلوار بازی کر سکتا ہوں۔ گاوٗں والے ہنسنے لگے اور کہا کہ یہاں پر گولی چلانے کی ضرورت نہیں۔ ہل چلانے اور زمین کھودنے کی ہے۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ گاوٗں والوں نے ترس کھایا اور کہا کہ کھیتوں کی حفاظت کرو اور خواتین سلائی کر دیا کریں اور ہم فصل میں سے حصہ دے دیں گے اور یوں ہماری زندگی سیٹ ہوئی۔ میں سارا دن کھیتوں میں گزارتا۔ پرندے اڑاتا اور خواتین گھر میں کپڑے سیتیں”۔
دو سال دیہات میں رہے اور اس دوران اصل بھوک برداشت کی۔ سیلاب انہیں تقریباً بہا لے گئے۔ ڈاکٹر نہ ہونے کی وجہ سے ان کی بیوی بچے کی پیدائش کے دوران انتقال کر گئیں۔ اس کے بعد انہیں دہلی آنے دیا گیا کہ وہ نئی زندگی گزار سکیں۔ جب برٹش نے شاہی خاندان کے بچ جانے والوں کے لئے پانچ روپے ماہانہ پنشن مقرر کی تھی۔
اسی طرح ظفر سلطان جو بہادر شاہ ظفر کے بھتیجے تھے، انیس ستمبر کو اپنی والدہ کے ساتھ بیل گاڑی پر نکلے۔ پہلی رات ایک گاوٗں پر رکے اور سو گئے۔ اگلے روز اٹھے تو پتا لگا کہ بنجارا بیل اور گاڑی لے کر بھاگ گیا ہے۔ انہیں ایک جاٹ گاوٗں میں پناہ ملی جہاں انہیں کھانا دیا گیا لیکن جلد ہی جاٹ ان پر ٹوٹ پڑے۔ جاٹوں کو شک تھا (اور صحیح تھا) کہ ان کے پاس قیمتی زیور ہیں۔ ظفر سلطان نے جب سب کچھ دے دیا تو جاٹ انہیں والدہ سمیت جنگل میں پھینک آئے۔ اس دوران والدہ کے سر پر لاٹھی لگی اور وہ شدید زخمی ہو گئیں۔ “میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کیسی ہیں تو انہوں نے کہا کہ میں ہندوستان کے بادشاہ کی بھابھی ہوں اور میری قسمت دیکھو۔ میں جنگل میں مر رہی ہوں اور دفن کے لئے کفن تک نہیں۔ وہ فوت ہو گئیں۔ میں نے ہمت جمع کر کے اپنی طرف سے جیسی قبر کھود سکتا تھا، کھود کر دفنا دیا”۔
ظفر سلطان فقیر بن گئے۔ ایک شہر سے دوسرے میں پھرا کرتے۔ ممبئی گئے اور پھر مکہ جہاں دس سال تک زائرین کی خیرات سے گزارا کرتے رہے۔ وہاں سے واپس کراچی اور پھر دہلی آ گئے۔ یہاں پر ٹھیلے والے کے طور پر کام کرتے رہے۔ ٹھیلے میں اینٹیں ڈھوتے جو ریلوے سٹیشن کی تعمیر کے لئے استعمال ہو رہی تھیں۔ مزدوری سے اتنے پیسے بچا لئے کہ اپنا ٹھیلہ خرید لیا۔ انہیں سرکاری پنشن کی آفر ہوئی لیکن اس سے انکار کر دیا کہ “محنت کی روزی مانگے کی روزی سے بہتر ہے”۔
جب خواجہ حسن نظامی کی 1917 میں مرزا ظفر سلطان سے ملاقات ہوئی تو وہ بوڑھے تھے اور اونچا سنتے تھے۔ ان کا پتا اس وقت لگا تھا جب انہیں ایک تاجر سے لڑائی کے بعد عدالت لے جایا گیا تھا جس کے ٹانگے کی ان کے ٹھیلے سے ہونے والی ٹکر ہونے کے بعد امیر تاجر نے اپنا چابک نکال کر انہیں مارنا شروع کر دیا۔ ابتدائی ضربوں کے بعد وہ خاموش رہے لیکن پھر ہمت جمع کر کے ایک زوردار گھونسا مار کر تاجر کی ناک توڑ دی تھی۔ عدالت میں انہوں نے بتایا کہ “امیر شخص غریب کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ ساٹھ سال پہلے اس کے آباء ہمارے خادم ہوں گے۔ اور صرف اس کے نہیں، پورا ہندوستان میرے حکم کی تعمیل کرتا تھا۔ میں اپنے خاندان کو نہیں بھولا۔ ایسی ہتک کیسے برداشت کر سکتا تھا۔ دیکھیں کہ ایک ہاتھ کھانے کے بعد کیسے بھاگ گیا تھا۔ تیموریوں کا ایک تھپڑ برداشت کرنا آسان نہیں ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور جو لوگ دلی سے نہیں نکلے، محل پر قبضہ ہو جانے کے بعد ان کے ساتھ زیادہ برا ہوا۔ شہر کے گھروں میں وہ لوگ جو زخمی تھے یا بیمار کہ وہ چل نہیں سکتے تھے۔ ان کی مشکل تلوار سے آسان کی گئی۔ گھروں سے اسلحہ، کپڑے، بستر، ڈھول اور موسیقی کا سامان ۔۔۔ سب کچھ لوٹ لیا گیا۔
علاقے کو ہر قسم کے فسادیوں سے صاف کرنے کا حکم فوج کو ملا۔ وبارٹ جو فوج کا حصہ تھے، لکھتے ہیں، “وہ میری زندگی کا بدترین دن تھا۔ ہم دہلی اور ترکمان گیٹ کے قریب کے گھروں کو کلئیر کر رہے تھے۔ ایک گھر میں میرے سامنے تیس سے چالیس لوگوں کو مارا گیا۔ یہ قتل کے سوا کچھ اور نہیں تھا۔ خواتین کو چھوڑ دیا گیا لیکن اپنے شوہروں اور بیٹوں کو اپنے سامنے ذبح ہوتے دیکھ کر ان کی چیخیں سننا ناقابلِ برداشت تھا۔ آپ شہر کی سڑکوں پر گلتی سڑتی لاشیں اور بازاروں میں شراب کے نشے میں دھت فوجی دیکھ سکتے تھے۔
میں رحمدل شخص نہیں لیکن جب آپ کے سامنے ادھیڑ عمر شخص لایا جاتا ہے جو گر کر زندگی کی بھیک مانگ رہا ہو تو اسے مارتے وقت ہاتھ رک جاتا ہے۔ لیکن پھر آپ کو اپنے آپ کو یاد کروانا پڑتا ہے کہ یہ سب نیک مقصد کے لئے ہے۔ اس کا خون وہ داغ دھوئے گا جو اس کے لوگوں نے ہمارے ساتھ کئے۔ میرے والد اور والدہ کو مارا گیا تھا، بھائی اور بہن کو بھی۔ وہ انصاف کے لئے پکار رہے تھے۔ خدا نے طاقت اور ہمت دی اور ہم نے فرض پورا کر دیا لیکن خدا ایسا دن پھر کبھی نہ دکھائے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب سے برا قتلِ عام کوچہ چیلاں میں ہوا جہاں کے 1400 دہلی والوں کو مارا گیا۔ یہاں پر نواب محمد علی خان نے لوٹ مار کے خلاف مزاحمت کی تھی اور تین برٹش فوجیوں کو مار دیا تھا جو ان کی حویلی میں گھس آئے تھے اور زنانے میں چلے گئے تھے۔ ان برٹش فوجیوں کے ساتھی ایک عدد توپ یہاں لے آئے اور اس پوری حویلی کو اڑا دیا گیا۔
اس کے بعد محلے میں رہنے والے ہر شخص کا قتل ہوا۔ یہ سنگینیں گھونپ کر کیا گیا۔ چالیس افراد کو جمنا لایا گیا۔ قلعے کی دیوار کے ساتھ کھڑا کر کے گولیاں مار دی گئیں۔ کوچہ چیلاں دہلی کے دانشوروں کا محلہ تھا۔ سب سے قابل شاعر اور فنکار یہاں رہتے تھے۔ ظہیر دہلوی لکھتے ہیں، “ یہ کوچہ دہلی کا فخر تھا۔ اس جیسا دنیا میں کہیں اور نہ ہو گا اور نہ کبھی آئے گا۔ اس میں میاں امیر پنجہ کش تھے جن کے مقابلے کا خطاط دنیا بھر میں نہ ہو گا۔ ہمارے بہترین شاعر مولوی امام بخش صہبائی اور ان کے دو بیٹے۔ میر نیاز علی جو دہلی کے مشہور قصہ گو تھے۔ ان چودہ سو لوگوں میں تھے۔ اسکے بعد ان سب کی لاشوں کو دریا میں پھینک دیا گیا۔ گھر کے مردوں کے قتل ہو جانے کے بعد کئی خواتین نے بچوں سمیت کنویں میں کود کر خودکشی کر لی۔ کئی مہینوں تک محلے کے کنویں لاشوں سے بھرے رہے۔ اور میرا قلم اس سے آگے لکھنے سے انکاری ہے”۔
قادر علی نے دہلی کے مورخ راشد الخیری کو بتایا،
“دہلی میں قیامت کا سماں تھا۔ ہمیں دریا کنارے لے جایا گیا۔ فوجیوں بندوقیں تان رہے تھے۔ اس وقت برٹش فوج کا ایک مسلمان افسر ہمارے پاس آیا اور کہا کہ موت تو تمہارے سامنے ہے۔ بندوق آگے، دریا پیچھے۔ جو تیرنا جانتے ہیں چھلانگ لگا دیں اور فرار ہو جائیں۔ میں اچھا تیراک تھا لیکن ماموں صاحب (صہبائی) اور ان کے بیٹے مولانا سوز نے یہ فن نہیں سیکھا تھا۔ میں انہیں چھوڑنا نہیں چاہتا تھا لیکن ماموں صاحب نے اصرار کیا۔ میں نے چھلانگ لگا دی۔ پچاس ساٹھ گز ہی گیا ہوں گا کہ گولیوں کی آواز آئی اور میں نے گرتے ہوئے لوگوں کی قطار دیکھی”۔
ظہیر دہلوی کے سسر جنہوں نے بغاوت کے دنوں میں تین انگریز خواتین کو پناہ دی تھی اور زندگی بچا کر بھاگنے میں مدد کی تھی، انہیں بھی اسی روز اپنے بیٹے اور دو خادموں سمیت مار دیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیوانِ خاص میں ضیافت جاری تھی، اس میں شریک میجر ولیم آئیرلینڈ لکھتے ہیں کہ “سکھ فوجی لوٹ مار میں سب سے ماہر نکلے۔ وہ گھروں میں چھپی جگہوں سے خزانہ ڈھونڈ نکال میں اچھے تھے۔ جنرل ولسن نے کہا تھا کہ مالِ غنیمت کی تقسیم منصفانہ ہو گی لیکن بہت سے سکھ فوجی اتنا لوٹ چکے تھے کہ وہ ان کے تمام خاندان کو امیر کر سکتا تھا۔ وہ اس کو لے کر نکلنے کے چکر میں تھے۔ شہر کے دروازوں پر گارڈ تعینات تھے لیکن وہ شہر کی دیوار سے خزانہ نیچے کھڑے دوستوں کو پھینک کر باہر لے جا رہے تھے”۔
برٹش فوج نے مارتے وقت کسی میں تمیز نہیں کی کہ کون ان کے حق میں تھا اور کون خلاف لیکن مخبر ان کے کام کے تھے۔ کسی شخص کو پکڑوانے پر دو روپیے انعام مقرر تھا۔ کسی قیمتی سامان کا پتا دینے کی مخبری اچھا معاوضہ دیتی تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیس ستمبر کی رات کو جنرل بخت خان ہمایوں کے مقبرے پر رکے اور بہادر شاہ ظفر کو قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ وہ ان کے ساتھ لکھنوٗ چلیں جہاں سے جدوجہد جاری رکھی جائے۔ لیکن ایک بار پھر حکیم احسن اللہ خان نے مخالفت کی، “آپ بادشاہ ہیں۔ بغاوت کرنے والے انگریز فوج کے سپاہی تھے جنہوں نے اپنے افسروں سے بغاوت کی تھی، وہ ان سے لڑے اور ہار گئے اور بھاگ گئے۔ عالی جاہ کا ان سے کیا تعلق؟ بہادر بنیں۔ انگریز آپ کو قصور وار نہیں ٹھہرائیں گے”۔
مرزا مغل کو ان کے سسر مرزا الہی بخش نے ٹھہرنے کے لئے قائل کر لیا۔
اس رات مرزا الہی بخش دہلی آئے اور ہوڈسن کو بتایا کہ بہادر شاہ ظفر اور مرزا مغل کہاں چھپے ہوئے ہیں۔ یہ انفارمیشن بھی دی کہ ان کے پاس خاندان کے جواہرات ہیں اور جائیداد کی فہرست۔ ہوڈسن نے ولسن سے اجازت مانگی کہ وہ ان کو پکڑنے کے لئے جانا چاہتے ہیں۔ شاہی خاندان کو پکڑے بغیر فتح مکمل نہیں ہو گی۔
اکیس ستمبر کی صبح دہلی میں ہونے والا برطانوی شاہی سلیوٹ اس کا اعلان تھا کہ دہلی اب ایک بار پھر تاجِ برطانیہ تلے ہے۔ لیکن ہندوستان کا ہیرا شہر اب مردہ لاشوں اور نشے میں دھت برٹش فوجیوں کا ویرانہ تھا۔ میجر ولیم آئیرلینڈ جنہوں نے انگریز فوج کے طرزِ عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا، لکھتے ہیں۔
“نہ بازار میں کوئی دکاندار تھا، نہ اونٹوں اور بیلوں کی گاڑیاں کھینچ کر لے جانے والا، نہ کوئی راہگیر تھا، نہ لوگ کھڑے خوش گپیاں لگا رہے تھے، نہ بچے مٹی میں کھیل رہے تھے، نہ خواتین کی آوازیں تھیں۔ گھروں کا سامان گلیوں میں الٹا پڑا تھا۔ پالتو جانور اپنے مالکوں کی تلاش میں گلیوں میں پھر رہے تھے۔ توپوں کے گولوں سے گری دیواروں کے منظر تھے۔ سڑتی انسانی لاشوں کو کوے اور گیدڑ کھا رہے تھے۔ کوئی خوشی سے شہر چھوڑ کر نہیں گیا تھا۔ اور کہتے ہیں کہ ہم نے دہلی آزاد کروا لیا تھا”۔
لیفٹیننٹ ایڈورڈ اومانی، جو فارسی اور اردو کے سکالر تھے اور شہر کی تاریخ سے واقف تھے، اس منظر کو دیکھ کر سراسیمہ تھے۔
“اس شہر میں ڈیڑھ لاکھ لوگ بستے تھے۔ اب یہ تقریباً خالی تھا۔ جب نادر شاہ نے اسے تاراج کیا تھا، تب بھی ایسا نہیں ہوا تھا”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوڈسن مرزا الہی بخش اور برٹش کے دہلی میں جاسوسی نیٹورک کے سربراہ مولوی رجب علی اور پچاس پنجابی سواروں کے دستے کے ساتھ ہمایوں کے مقبرے کی طرف نکلے۔ وہ اپنا نام تاریخ کے کتابوں میں لکھوانا چاہتے تھے۔ سب کچھ طے تھا۔ اب گرفتاری کا وقت تھا۔ وہ اس کو پکڑنے نکلے تھے جس کے بارے میں برٹش کہتے تھے کہ وہ اس بغاوت کے جال کے مرکز میں بیٹھا مکڑا ہے۔