بریڈ کیلی فورنیا میں پیدا ہوا۔ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ وہیں وکالت کرتا رہا۔ امریکہ سے باہر کا بریڈ کا سارا تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ وہ چند سال کمبوڈیا میں انسانی حقوق کی تنظیم میں کام کرتا رہا۔ ایشیائی ملکوں کی بدقسمتی ہے کہ سفید چمڑی والے ’’ماہرین‘‘ ان کی چمڑی سے چمٹے رہتے ہیں۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران مطالعاتی دورے پر سلہٹ جانا ہوا تو ایک امریکی سے ملاقات ہوئی جو وہاں کھاد کی فیکٹریاں لگانے کے عمل میں بطور ’’ماہر‘‘ کام کر رہا تھا۔ یہ کھاد کی صنعت کا ملک میں آغاز تھا۔ ہم ڈھاکہ یونیورسٹی کے تین طلبہ نے سب سے پہلے اس سے پوچھا کہ وہ معاوضہ کتنا لے رہا ہے۔ چالاک گورا مسکرایا۔ سلیم احمد نے کہا تھا ؎
کھال چکنی ہو تو دھندے ہیں ہزار
گیدڑی نے کب کوئی دوہا سنا
مقدار بتانے سے گریز کرتے ہوئے اس نے صرف اتنا کہا کہ ڈالروں میں ملنے والا معاوضہ اتنا ہے کہ بطور ’’مشیر‘‘ تین سالہ قیام کے بعد اسے ایک طویل عرصہ کسی کام کی ضرورت نہیں پڑے گی!
بریڈ بھی‘ جس کا پورا نام بریڈ ایڈیمز ہے‘ ایشیائی ملکوں کے امور کا ’’ماہر‘‘ ہے۔ گزشتہ سال کے آخری مہینے میں پاکستان میں سزائے موت پر‘ جو کچھ سالوں سے معطل تھی‘ دوبارہ عمل درآمد شروع ہوا تو مغربی ملکوں سے صدائے احتجاج بلند ہوئی۔ انسانی حقوق کی تنظیم (ہیومن رائٹس واچ) کے ایشیائی ڈائریکٹر کی حیثیت سے بریڈ نے ایک بیان جاری کیا۔ ’’حکومت پاکستان کو چاہیے کہ سرکاری سطح پر فوراً سزائے موت کے خاتمے کا اعلان کرے۔ اور یوں اُس بین الاقوامی رجحان کا حصہ بن جائے جو سزائے موت کے خلاف دنیا میں پیدا ہو رہا ہے‘‘۔
اگر بریڈ سے پوچھا جائے کہ بھائی جان! آپ کو پاکستان کے حالات کا کس قدر علم ہے‘ یہاں کے مسائل‘ جرائم اور جرائم کی بیخ کنی کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں تو وہ بغلیں جھانکنے کے سوا کچھ بھی نہیں کر سکے گا۔ بس یہی تھا سنگاپور کے آنجہانی رہنما لی کوآن ییو کا نقطۂ نظر… کہ مغرب کے ماہرین مغرب کے ماہرین ہیں‘ ایشیائی ملکوں کے مسائل سے وہ ناواقف ہیں۔ ان کے نظریات‘ ان کی تھیوریاں‘ ان کے اپنے لیے مفید ہوں گی۔ نقل بغیر عقل ایشیائی ملکوں کے لیے خودکشی کا راستہ ہے۔ سنگاپور میں قتل کی سزا تو سزائے موت ہے ہی‘ دوسرے جرائم کی بیخ کنی بھی سزائے موت سے کی گئی ہے۔ جھوٹی گواہی کا‘ جس کے نتیجے میں ایک بے گناہ آدمی پھانسی پر چڑھا دیا گیا ہو‘ جب بھی علم ہوگا‘ اس کی سزا پھانسی ہے۔ منشیات کی نقل و حمل‘ اغوا برائے قتل‘ آبرو ریزی اور اسلحہ سے فائر کرنا‘ خواہ اس سے کوئی زخمی بھی نہ ہو‘ ان سب جرائم کی سزا موت ہے۔ آج برطانیہ پر زور دیا جا رہا ہے کہ پاکستان سزائے موت معطل نہ کرے تو اس کی امداد بند کردی جائے۔ سوال یہ ہے کہ ان ممالک نے سنگاپور کا بائی کاٹ کیوں نہ کیا؟ ہو سکتا ہے کچھ لوگ اس سوال کا جواب یہ دیں کہ سنگاپور مسلمان ملک نہ تھا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ لی نے سنگاپور کو اقتصادی ترقی کے اُس مقام پر پہنچا دیا تھا جہاں بائیکاٹ کرنے والے کا اپنا نقصان زیادہ ہوتا۔ تمام بڑی بین الاقوامی (ملٹی نیشنل) کمپنیوں کے ہیڈ آفس سنگاپور میں تھے۔ ان کمپنیوں کا اپنا مفاد اس میں تھا کہ وہ سنگاپور کی اہمیت اور محل وقوع کو اپنی ترویج و ترقی کے لیے استعمال کریں۔
لی کا اعتراض مغربی جمہوریت پر یہ تھا کہ اس میں مادرپدر آزادی ہے۔ اس کا فلسفہ تھا کہ اچھی حکومت یعنی گڈگورننس‘ خاندانی بندھن کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔ فرد پر جو پابندیاں اس کے ماں باپ‘ بیوی بچے اور خاندان عائد کرتے ہیں‘ وہ ڈسپلن کے لیے ضروری ہیں۔ سولہ سال کا بچہ ماں باپ سے بے نیاز اور ’’آزاد‘‘ ہو جاتا ہے‘ اس کا نتیجہ وہ خاندانی انتشار ہے جس کے نتائج مغرب بھگت رہا ہے مگر ایشیائی ملک اس سے بچے ہوئے ہیں۔ لی کا دوسرا اعتراض مغربی… بالخصوص امریکی جمہوریت پر یہ تھا کہ گولی (گن کلچر) اور منشیات کا استعمال وہاں عام ہے۔ وہ ہنستا تھا کہ امریکہ اپنے ہاں منشیات استعمال کرنے اور بیچنے والے کو سزا دینے کے لیے تیار نہیں لیکن ساری دنیا میں منشیات تیار کرنے والوں کے پیچھے پڑا ہے۔ اس کا آسان علاج سنگاپور نے یہ کیا کہ ایک اونس یا اونس سے زیادہ منشّی شے جس سے بھی برآمد ہوئی‘ اُسے موت کی سزا دی گئی۔ ساری دنیا کو درست کرنے کے بجائے سنگاپور نے اپنے آپ کو درست کیا۔ یہی علاج گَن کلچر ختم کرنے کے لیے آزمایا گیا۔
لی نے پریس پر پابندیاں لگائیں۔ اس لیے کہ اس کے نزدیک ملک کی حفاظت‘ میڈیا کی آزادی سے زیادہ ضروری تھی۔ مغربی سرمایہ دارانہ نظام پر لی کا اعتراض یہ تھا کہ حکومت فرد کو کاروبار کی اتنی زیادہ آزادی دے دیتی ہے کہ فرد اور خاندان کو نقصان پہنچتا ہے اور معاشرہ نفع کمانے والوں کے ہاتھوں میں یرغمال بن کر رہ جاتا ہے۔ اس کا علاج لی نے یہ کیا کہ سنگاپور کے حالات کے مطابق جمہوریت اور سرمایہ د ارانہ نظام دونوں کو تبدیل کردیا۔ آزاد منڈی میں حکومت کا عمل دخل بڑھایا‘ جیسے ہائوسنگ سیکٹر کو حکومت نے خود چلایا۔ جب تک ہر شہری اپنی رہائش گاہ کا مالک نہ ہو جائے‘ کسی کو ایک سے زیادہ مکان کی اجازت نہ دی گئی۔ ماں باپ کے گھر کے قریب رہنے کے لیے خصوصی مراعات دی گئیں تاکہ خاندانی نظام بچا رہے۔
حکومت کا عمل دخل زیادہ ہو تو سرکاری اہلکار کرپشن میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ سب سے پہلے لی نے اس کا تدارک کیا۔ حکومتی سیکٹر میں تنخواہوں کی سطح اتنی بلند کردی کہ وہ پرائیویٹ سیکٹر کے برابر آ گئیں۔ ہارورڈ سے جو ایم بی اے کر کے آتا‘ اُسے جتنی تنخواہ کوئی بین الاقوامی کمپنی پیش کرتی‘ اتنی ہی تنخواہ سنگاپور کی حکومت بھی پیش کرتی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بہترین افرادی قوت حکومت کے شعبوں کو میسر آ گئی۔ تنخواہیں بڑھانے کے بعد لی نے عدلیہ سے صاف صاف کہا کہ اب ہم کرپشن کرنے والوں کو پکڑ کر آپ کے حوالے کریں گے‘ آپ ان کو سزا اس طرح دیجیے کہ وہ عبرت کا نشان بن جائیں۔ ایک انٹرویو میں لی نے کہا کہ مغربی جمہوریت بنیادی طور پر ہم نے اپنائی ہے لیکن اپنے حالات کے مطابق ہم اس میں تبدیلیاں لا سکتے ہیں مثلاً ون مین ون ووٹ (ایک فرد‘ ایک ووٹ) کا فارمولا حرفِ آخر نہیں۔ چالیس اور ساٹھ سال کی عمر کے دوران ایک شخص کو دو ووٹ کا حق بھی دیا جا سکتا ہے کیونکہ اس عمر میں وہ اپنے بچوں کا مستقبل مستحکم کر رہا ہوتا ہے اور ایک ووٹ اُن کا بھی استعمال کر سکتا ہے!!
ہمارے ہاں یہ بحث عام ہے کہ مغربی جمہوریت کفر ہے! کفر ہے یا نہیں‘ سوال یہ ہے کہ آپ کو کس نے مجبور کیا ہے کہ اُس جمہوریت کو بغیر سوچے سمجھے اندھا دھند استعمال کریں! آپ اپنے حالات کے مطابق اس کی جہات کا تعین ازسرِ نو کر سکتے ہیں۔ جمہوریت کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ حاکم کو تہہ تیغ نہیں کرنا پڑتا۔ وہ ایک معینہ مدت کے بعد خود ہی دست بردار ہو جاتا ہے۔ بھائیوں کو قتل نہیں کرنا پڑتا‘ نہ ہی اسّی اسّی سال کے شہزادوں کو ان کا ’’حق‘‘ دینا پڑتا ہے نہ کوئی قذافی یا کوئی حافظ الاسد چار چار عشروں کے لیے گردنوں پر بیٹھ سکتا ہے۔ یہ بنیادی فائدہ اٹھانے کے بعد جمہوریت کو ہر ملک اپنے معروضی حالات کے مطابق تبدیل کر سکتا ہے۔ مثلاً پاکستان میں ان سوالوں کے جواب دینے ضروری ہیں کہ کیا ایک ہاری یا مزارع کو ووٹ کا حق دیا جائے؟ جب تک زرعی اصلاحات کے ذریعے فیوڈلزم کے دانت نکال نہیں دیے جاتے‘ ہاری اگر حویلی سے اپنی بیوی یا بیٹی کو نہیں آزاد کرا سکتا تو ووٹ اپنی مرضی سے کیسے دے سکتا ہے؟ اور کیا ایک خاندان سے تین تین افراد کو سینیٹ کا رکن بنایا جائے؟ خاندانی اور پشتینی اجارہ داریاں ختم کرنے کے لیے پاکستان اپنے معاشرتی مسائل کے پیش نظر جمہوریت میں تبدیلیاں لا سکتا ہے۔
اسی طرح پریس کی آزادی کو معروضی حالات کے مطابق دیکھنا ہوگا نہ کہ قطعی
(Absolute)
انداز میں۔ کسی بیان یا دھمکی کو نشر کرنا ملکی سالمیت کے لیے نقصان دہ ہے تو میڈیا پر قدغن لگانا ہوگی۔ اس کی صرف ایک مثال دیکھیے۔ حال ہی میں جب دہشت گردوں کو پھانسیاں دینے کا عمل شروع کیا گیا تو اس سال کے آغاز میں آٹھ جنوری کو ایک سیاسی مذہبی پارٹی کے لیڈر نے حکومت پر الزام لگایا کہ مغرب کو خوش کرنے کے لیے اسلام پسندوں کو پھانسیاں دی جا رہی ہیں۔ اس پر ایک معروف معاصر نے اداریہ لکھا اور پوچھا کہ ’’اگر یہ اسلام پسند ہیں تو بتائیں پھر اسلام‘ پاکستان اور انسان دشمن کون ہیں؟‘‘ سوشل میڈیا پر اس بیان کا جو ردعمل ہوا وہ سخت اور جارحانہ تھا۔ گریبان پکڑ کر پوچھنے کی باتیں عام ہوئیں۔ کیا ایسے بیانات میڈیا پر نشر ہونے چاہئیں یا کسی نہ کسی جگہ ایک کٹ آف لائن لگانا ہوگی؟
امریکی‘ برطانوی‘ شامی یا ترکی‘ کوئی بھی ماڈل پاکستان پر من و عن نہیں تھونپا جا سکتا۔ خود لی نے تیس سال کی شبانہ روز محنت کے بعد جو ماڈل سنگاپور کے لیے وضع کیا‘ اس کا اطلاق بھی آنکھیں بند کر کے نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کے لیے جمہوریت اور گورننس کی جو بھی شکل ہوگی‘ پاکستان کے تقاضوں کے مطابق ہوگی‘ لیکن یہ ماڈل بنانے کے لیے صرف اُس لیڈرشپ کو اجازت دی جائے گی جو بے لوث ہو اور مکمل بے غرض ہو۔ وہ مہاتیر یا لی تو ہو سکتے ہیں‘ پاکستان کے شاہی خانوادوں کے افراد نہیں ہو سکتے۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“