وہ شہر ممبئ میں پچھلے بیس سالوں سے ایک فرم میں اکاؤنٹینٹ کے عہدے پر کام کررہا تھا۔ اچھی خاصی تنخواہ تھی جسمیں سے اپنے اخراجات کے بعد ایک معقول رقم ہر ماہ اپنے گاؤں میں بیوی بچوں کو بھیج دیتا۔ خاندان میں بیوی کے علاوہ دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی جن سے ملنے ہر سال ایک ماہ کی رخصت لے کر گاؤں آجاتا جہاں بیوی اور بچوں کے ساتھ خوبصورت دن گذرتے اور پھر ان ہی یادوں کو لے کردوبارہ ممبئ آجاتا۔
گاؤں سے ممبئ لوٹے اسے ابھی ایک ہفتہ گذرا تھا کہ اطلاعات موصول ہوئیں کہ ہندوستان میں مہلک بیماری کرونا وائرس نے اپنے پر پھیلانے شروع کر دئے ہیں۔ تین روز مزید گذرے کہ اچانک وزیر اعظم نے رات 8 بجے عوام سے خطاب کرتے ہوئے پورے ملک میں رات 12 بجے سے 21 دنوں کے لاک ڈاؤن کا نفاذ کر دیا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی جیسے اسکی سٹی بٹی گم ہوگئ ۔ دماغ ماؤف ہوگیا کہ اسے وطن میں موجود بیوی و بچوں کی فکر ستانے لگی۔ وہ سوچنے لگا کہ بچے ابھی چھوٹے ہیں۔ بیوی کس طرح گھر کی ذمہ داری اثھا سکے گی۔ بچوں اور اپنے لئے روز کھانے کا انتظام وہ اکیلے کس طرح کر سکے گی۔ اس مشکل گھڑی میں اسے تو بچوں کے ساتھ ہونا تھا لیکن وہ اب کیا کرے۔ تمام سواریاں حکومت نے بند کر دی تھیں۔ 300 کیلو میٹر کا وطن کا ممبئ سے فاصلہ بھلا کس طرح طے ہو سکے گا ؟دفتر سے بھی رخصت تھی دن بھر اس سوچ کیساتھ اکیلے گھر میں پڑا رہنا اسے ذہنی ٹینشن دے رہا تھا۔ تمام ہوٹلیں بند تھیں لہٰذا اپنے لئے کھانے کا انتظام بھی خود کرنا تھا۔ صبح 6 بجے سے 11 بجے تک لاک ڈاؤن میں گھر سے باہر نکلنے کی چھوٹ کے دوران وہ اپنے لئے کھانے کا سامان لے آتا اور دن بھر گھر میں گذارتا۔ شروع کے کچھ دنوں میں اس نے گھر میں موجود چند کتابوں کے مطالعہ میں گذارے۔ درمیان میں موبائیل کا استعمال۔ بچوں سے فون پر باتیں اور ٹی وی دیکھنا ہی روزکا معمول رہا۔ وقت گذارے نہیں گذر رہا تھا۔ ابھی ایک ہفتہ ہی گذرا تھا کہ بیوی نے اس سے اپنی پریشانیوں کا ذکر شروع کر دیا۔ گاؤں میں سامان کی قلت ۔لمبی قطاریں اور بچوں کی بیماری یہ سب ایسے معاملات تھے کہ اسکی دسترس سے باہر ہو رہے تھے ۔اس نے روتے ہوئے اس خواہش کا اظہار بھی کر ڈالا کہ جس طرح ممکن ہو۔وہ گاؤں لوٹ آئے پر وہ کیا کرتا ؟ اس کے بس میں کچھ نہ تھا کوئ ذریعہ بھی نہیں تھا کہ وہ گاؤں پہنچ سکے ۔
مزید ایک ہفتہ اور گذرا اور اسے علم ہوا کہ اس کی طرح اور بھی لوگ لاک ڈاؤن کی پرواہ کئے بغیر ممبئ سے اپنے گاؤں پیدل جانے کیلئے تیار ہیں۔ اس بات نے اسے تقویت دی اور اس نے بھی فیصلہ کر لیا کہ وہ بھی ان کیساتھ ہی گاؤں کیلئے روانہ ہو جائیگا۔
دوسرے روز علی الصبح وہ شہر کی شاہراہ پر نظر آ رہا تھا۔ ایک بیگ میں کھانے پینے کا خشک سامان و پانی کی چار بوتلیں اسکی ہمسفر تھیں۔ دن کے 11 بجے تک تو اسے کوئ مسئلہ در پیش نہ تھا لیکن اب وہ جیسے جیسے آگے بڑھ رہا تھا شاہراہ پر پولس دستہ کی موجودگی کا خوف اسے گھیرے ہوئے تھا۔ چھپتا چھپاتا بچتا بچاتا وہ آگے بڑھتا ہی رہا۔ بھوک لگتی تو فوڈ پیکیٹ سے تھوڑا سا کھانا و پانی پیٹ میں جھونک کر نئے حوصلہ کبساتھ سفر پر رواں دواں ہو جاتا۔ روزانہ 30 کیلو میٹر کا پیدل سفر اسکا نشانہ تھا۔
آج 11 دن مکمل ہونے کو تھے۔ وہ سفر کی تکان سے چور ہانپتا کانپتا گندے کپڑوں میں ملبوس رات اپنے گھر کی دہلیز پر پہنچ ہی گیا۔ طمانیت کے ایک بھر پور احساس نے اس کے بدن میں ایک نیا جوش پیدا کر دیا اور بڑے ہی جذباتی انداز میں اس نے شریک حیات عدیمہ کو آواز لگائ۔ٌ عدیمہ میں آگبا ہوں ً ۔ دروازہ کھولو۔ اس کے ساتھ ہی اس نے دروازہ پر لگی کنڈی زور سے کھڑ کھڑائ۔ جلد ہی ایک نسائ آواز ابھری ً کونً ً
ً عدیمہ میں ہوں اقبال۔ تمہارا شوہر ً
دروازہ کھلا اور عدیمہ نے اپنے شوہر کی بگزی حالت دیکھ کر پوچھا ً ً تمہیں یہ کیا ہوا۔ تم کانپ رہے ہو۔ بڑے کمزور نظر آرہے ہو؟ ً ً ارے اللہ کی بندی مجھے گھر میں تو آنے دے۔ سب بتاتا ہوں ً اقبال نے جواب دیا۔
عدیمہ کی لڑکھڑاتی آواز ابھری ً نہیں نم گھر میں داخل نہیں ہو سکتے ٍ تمہیں تو کرونا ہو گیا ہے۔ میری اور بچوں کی زندگی کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ تم پہلے ضلع کے اسپتال جاؤ اور صحتیاب ہو کر لوٹو تو ہی تم کو گھر میں داخل کروں گی ً یہ کہہ کر عدیمہ نے فورا ً گھر کے کواز بند کردئے۔ اقبال چلاتا ہی رہ گیا کہ اسے کرونا کی بیماری نے نہیں جکڑا بلکہ سفر کی تکان اس پر حاوی ہے اور یہ نقاہت اسی کا نتیجہ ہے۔ لیکن اسکی صفائ سننے کبلئے عدیمہ دروازہ پر موجود نہیں تھی۔ چارو ناچار وہ گھر کی دہلیز پر بیٹھ گیا۔ پڑوس میں اس کے چچا کا گھر تھا۔ اس نے نظر اٹھائ تو دیکھا کہ اس کے چچا دروازہ پر موجود تھے۔ وہ اٹھ کر انکی طرف بڑھنا ہی چاہتا تھا کہ چچا کی آواز آئ۔ ً بیٹا عدیمہ صحیح کہہ رہی ہے۔ تم جلد از جلد اسپتال چلے جاؤ۔ یہاں ماحول خراب ہے۔ اگر لوگ جمع ہوگئے اور انہیں تمہاری بیماری کا احساس ہو گیا تو تمہاری جان کو خطرہ ہو سکتا ہے ً یہ کہہ کر انہوں نے بھی دروازہ بند کر لیا۔
اب اس کا یہاں کوئ پرسان حال نہ تھا۔ رشتے شک و شبہ کا شکار ہو چکے تھے اسلئے وہ پر سکون ہو کر اپنا اگلا قدم طے کرنا چاہتا تھا۔ ابھی اسی سوچ میں غلطاں تھا کہ گشتی پولس کا دستہ اس کے قریب سے گذرا۔ سپاہیوں نے سنسان گلی کے ایک گھر کے دروازہ پر ایک تنہا شخص کو دیکھا تو اسی کی طرف تیزی سے
بڑھے۔ انہوں نے ایک طائرانہ نظر اس پر دوزائ۔ ابھی وہ ان سے کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ پولس انسپکٹر کی آواز ابھری ً ارے یہ تو کرونا کا مریض معلوم ہو رہا ہے اسے قرنطینہ میں داخل کرنا ہوگا۔ لے چلوً اسے ً ماسک اور حفاظتی لباس میں ملبوس دو سپاہی آگے آئے اور اسے پکڑ کر جیپ میں بثھا دیا۔ وہ راستہ بھر صفائ دیتا رہا کہ وہ اپنے بیوی بچوں کیلئے ممبئ سے پبدل سفر کر کے یہاں تک پہنچا ہے اسلئے اسکی یہ حالت ہے۔ وہ بیمار نہیں ہے لیکن سپاہیوں نے ایک نہ سنی اور اسے 14 دنوں کیلئے قرنطینہ میں ڈال دیا۔
آج 14 دن مکمل ہو چکے تھے وہ تندرست و توانا تھا ۔قرنطینہ میں بھر پور کھانا اور دن بھر کا آرام اسے راس آگیا تھا۔ ہاں بچوں کی یاد اکثر اسے رلایا کرتی تھی۔ بیوی اور چچا کا سلوک پہاز جیسا غم تھا جس نے اسکی روح تک کو جھنجھوز ڈالا تھا۔ تمام رشتوں سے اعتبار اٹھ چکا تھا ۔ اسے لگا اسکا کوئ اپنا نہیں تھا۔
قرنطینہ سے نکل کر اس کے قدم ایک انجان منزل کی جانب بڑھ گئے۔ وہ منزل جس کا اسے خود بھی پتہ نہ تھا۔
ختم شد
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...