نام : نور محمّد نور کپور تھلوی
ولدیت : چوہدری محمد بخش راجپوت
پیدائش؛ 5/ اگست 1917ء
وفات ؛ 19/ ستمبر 1997ء
جائے پیدائش ؛ ریاست کپورتھلہ، ضلع جالندھر ہندوستان
جائے وفات ؛ فیصل آباد ، پاکستان
آخری آرام گاہ ؛ چک 87 گ ب براہ ڈجکوٹ ضلع فیصل آباد
پیشہ ؛ سابق موٹر وہیکل ایگزامینر
شادی اور آل اولاد
نور محمّد نور کپور تھلوی کی شادی ۲۳ برس کی عمر میں ۱۹۴۰ء کو اپنی پھوپھی زاد نذیراں بی بی سے ہوئی۔ آپ کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ بڑا بیٹا محمد اکرم پاکستان بحریہ میں کیپٹن کے عہدہ پر فائز رہا ہے۔ ، منجھلا بیٹا محمد اسلم پاکستان آرمی میں میجر ڈاکٹر رہا ہے، چھوٹا بیٹا افتخار احمد چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ایک ٹیکسٹائل گروپ میں جنرل مینجر فنانس کے عہدہ پر فائز ہے، ایک بیٹی طاہرہ ارشد نے بی۔اے ، دوسری بیٹی عابدہ اقرار سرکاری معلمہ ہیں۔
شاعری میں اُستاد؛
سید تنویر بخاری آف کڑیال کلاں، نزد جنڈیالہ شیر خان
تصانیف/شعری مجموعے/ بیاد گار کام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ ’’زنبیلِ سُخن‘‘ شعری مجموعہ، مطبع ۱۹۸۳ء، پنجابی کلچرل سنٹر، شیخوپورہ
۲۔ ’’جہانِ رنگ و نور‘‘ شعری مجموعہ ،مطبfفی ع ۱۹۸۵ء، احمد پبلی کیشنر، اُردو بازار، لاہور
۳۔ ’’تھوہر کے پھُول‘‘ شعری مجموعہ، مطبع ۱۹۸۹ء، شاہین پبلی کیشنز، اُردو بازار، لاہور
۴۔ ’’کُلیاتِ نور‘‘ مطبع ۲۰۰۲ء، گلزار پبلی کیشنز، فیصل آباد، پاکستان
بیادِ نور محمد نور کپور تھلوی
٭ ’’جامع مسجد نورِ مدینہ‘‘ بمقام چک نمبر 87گ ب (بابے دی بیر) براہ ڈجکوٹ ، ضلع فیصل آباد، پاکستان
٭ نور محمد نور کپور تھلوی نمبر (خصوصی اشاعت)
ماہنامہ ’’لکھاری‘‘ لاہور، دسمبر2011صفحات 176
٭ نور محمد نور کپور تھلوی ۔۔۔۔آثار و احوال
مقالہ ایم فل اردو، رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی، اسلام آباد2016ء
٭ نور محمد نور کپور تھلوی تھنکرز فورم (علمی و ادبی تنظیم)
٭ النور فاؤنڈیشن (سماجی و رفاہی تنظیم)
٭ نور اینڈ نور لاء ایسوسی ایٹس
ڈسٹرکٹ کورٹس، فیصل آباد، پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر ؛ ڈاکٹر اظہار احمد گلزار
پاکستان کے ممتاز شاعر، ادیب ، ماہر لسانیات ، مؤرخ ، ماہرِ علم بشریات و فنونِ لطیفہ اور دانشور جناب نور محمد نور کپور تھلوی نے ۱۹ ستمبر ۱۹۹۷ء جمعہ کے روز دوپہر ڈیڑھ بجے فیصل آباد (لائل پور) پاکستان میں اس دھوپ بھری دنیا کو چھوڑ کر عدم کی بے پناہ وادیوں کی طرف رختِ سفر باندھ لیا۔ علم و ادب کا خورشید جہانِ تاب جو ۵/اگست ۱۹۱۷ء کو ہندوستان کے ضلع جالندھر کی ریاست کپور تھلہ کے ایک گاؤں نور پور راجپوتاں میں طلوع ہوا اور ۱۹ ستمبر ۱۹۹۷ء کو فیصل آباد پاکستان میں ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ فیصل آباد کے نواح میں واقع ایک گاؤں چک نمبر ۸۷ گ ب بابے دی بیر (براہ ڈجکوٹ) کی بے آباد زمین نے عالمی ادبیات کے اس آسمان کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چھپا لیا۔ خرابات آرزو پر اس کی دائمی مفارقت کا غم اس طرح برسا کہ میرے وجود کی تمام توانائیاں کمزور پڑ گئیں۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور کچھ بھی تو سجھائی نہیں دیتا۔ آنکھوں سے جوئے خوں رواں ہے اور دل کی ویرانی کا اب کیا مذکور؟ الفاظ میرے ہونٹوں پر پتھرا گئے ہیں اور میں اپنے جذباتِ حزیں کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کرتے ہوئے دشواری اور دُکھ محسوس کر رہا ہوں۔ فرشتۂ اجل نے اس فطین، فعال، مستعد اور زِیرک تخلیق کار سے قلم چھین لیا جو گزشتہ سات عشروں سے تخلیق ادب میں ہمہ وقت مصروف تھا۔ ہماری محفل کے وہ آفتاب و ماہتاب جن کے دم سے ہمارے دل کی انجمن میں اُجالا ہوتا ہے۔ جب زینۂ ہستی سے اُتر کر عدم کی بے پناہ وادیوں میں غروب ہو جاتے ہیں تو سفاک ظلمتیں اور جان لیوا سناٹے ہمارا مقدر بن جاتے ہیں۔ نور محمد نور کپور تھلوی کی وفات ایک بہت بڑا سانحہ ہے جس پر شہر کا شہر سوگوار اور ہر آنکھ اشک بار ہے۔ اُس کی یاد میں بزم ادب ایک عرصے تک سوگوار رہے گی۔
انسانی ہمدردی ، پیار، ایثار، رواداری ، بے لوث محبت ، بے باک صداقت کو تمام عمر حِرز جاں بنانے والے جری تخلیق کار نور محمد نور کپور تھلوی کے دامن میں ہمیشہ محبت کے لازوال پھول ہوتے۔ اُن کا ظاہر اور باطن شفاف آئینے کی مانند ہوتا تھا اور بعد ازاں الفاظ کے روپ میں قلم و قرطاس کی زینت بنتا چلا جاتا ۔ اُن سے مل کر خود اپنی ہی ذات سے عشق ہو جاتا تھا۔ شاید انھی کے لیے سرور بارہ بنکوی نے کہا تھا۔
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے دیکھے نہ ہوں شاید ، مگر ایسے بھی ہیں
۵/اگست ۱۹۱۷ء کو راجپوت قبیلے میں چودھری محمد بخش کے گھر ریاست کپور تھلہ مشرقی پنجاب (ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کپور تھلہ کی منڈی میں آڑھت کا کاروبار کرتے تھے۔ ابتدائی تعلیم ریاست کپور تھلہ سے حاصل کی۔ قیام پاکستان کے بعد اپنی خُدا داد صلاحیتوں اور کچھ حاصل کرنے کے جذبے سے گریجوایشن تک علمی مدارج طے کیے۔ اس کے علاوہ آپ نے فارسی، عربی، اور اردو فاضل جیسے علمی کورسز بھی کیے۔ آپ ایک سیلف میڈ انسان تھے۔ ۱۹۳۹ء میں آپ دوسری جنگ عظیم کے وقت فوج میں ڈرائیور انسٹرکٹر کے طور پر کام کرتے رہے ہیں۔۴۷۔۱۹۴۶ء میں آپ اپنے چچا چودھری نبی بخش کے پاس ایران کی آئل کمپنی میں فیلڈ انچارج کے طور پر کام کرتے تھے۔ برصغیر کی تقسیم کے اوائل میں آپ کچھ عرصہ لائل پور کاٹن ملز میں کلرک کے عہدہ پر کام کرتے رہے۔ بعد ازاں اس ملازمت کو چھوڑ کر گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس (جی ٹی ایس) میں موٹر مکینک بھرتی ہو گئے۔ موٹر مکینک کے عہدہ سے ترقی کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کے ذریعیبتدریج ورکس مینجر اور بعد ازاں پولیس ڈیپارٹمنٹ کے ٹرانسپورٹ ونگ میں موٹر وہیکل ایگزامینر(Motor Vehicle Examiner)کے عہدے پر ترقی کر گئے۔۱۹۵۷ء میں آپ کراچی پورٹ ٹرسٹ میں اسسٹنٹ انجینئر تھے۔
وہ ہمیشہ دیانتداری سے اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ وہ اپنے افسرانِ بالا کے ناجائز مطالبات، دباؤاور سفارش کو بالکل پسند نہیں کرتے تھے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وقت کے حکمران کے اشارے پر غلط کام نہ کرنے پر اُن کا تبادلہ ان کو تنگ کرنے کے لیے دوسرے صوبے کے شہر پشاور کر دیا گیا۔وہاں اپنے فرائض منصبی سرانجام دیتے ہوئے انھوں نے دیکھا کہ یہاں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ سفارش، اقربا پروری اور رشوت زوروں پر تھی جو اُن کے اُصولوں کے خلاف تھے۔ انھوں نے ہمیشہ معیار اور سچائی کو ملحوظ خاطر رکھا اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں روشن مثالیں قائم کیں۔ کبھی اصولوں پر سودے بازی نہ کرنے کی خوبی تمام زندگی اُن کے ساتھ ساتھ رہی۔ صوبہ سرحد میں تمام کام وہاں کے جرگوں کی مرضی سے ہوتے تھے۔ ایسے کام اور فیصلے دیکھ کر آپ زیادہ عرصہ وہاں اپنی خدمات سرانجام نہ دے سکے۔ اور اپنا استعفیٰ اپنے سے بڑے آفیسر کی میز پر رکھ کر سیدھے اپنے گھر لائل پور(فیصل آباد) آ گئے۔ پھر لائل پور آ کر اپنے کام کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت میں سرگرم عمل ہو گئے۔ 1966ء میں آپ کچھ عرصہ پاکستان برما شیل میں مینجر تعینات ہو گئے اور جلد ہی اس ملازمت کو خیر باد کہہ کر گھر گرہستی کے مسائل میں مصروف ہو گئے۔ نور محمدنور کپور تھلوی نے تادمِ مرگ حق و صداقت کا علم بلند رکھا۔ خودداری، غیرت، شرافت، ایمان داری، ملنساری، حیا اور انکساری ان کی زندگی کے نمایاں وصف تھے۔وہ اکثر کہا کرتے تھے:
"Your livings should always be simple but your ideas should always be high."
تصانیف/شعری مجموعے
۱۔ ’’زنبیلِ سُخن‘‘ شعری مجموعہ، مطبع ۱۹۸۳ء، پنجابی کلچرل سنٹر، شیخوپورہ
۲۔ ’’جہانِ رنگ و نور‘‘ شعری مجموعہ ،مطبع ۱۹۸۵ء، احمد پبلی کیشنر، اُردو بازار، لاہور
۳۔ ’’تھوہر کے پھُول‘‘ شعری مجموعہ، مطبع ۱۹۸۹ء، شاہین پبلی کیشنز، اُردو بازار، لاہور
۴۔ ’’کُلیاتِ نور‘‘ مطبع ۲۰۰۲ء، گلزار پبلی کیشنز، فیصل آباد، پاکستان
بیادِ نور محمد نور کپور تھلوی
٭ ’’جامع مسجد نورِ مدینہ‘‘ بمقام چک نمبر 87گ ب (بابے دی بیر) براہ ڈجکوٹ ، ضلع فیصل آباد، پاکستان
٭ نور محمد نور کپور تھلوی نمبر (خصوصی اشاعت)
ماہنامہ ’’لکھاری‘‘ لاہور، دسمبر2011صفحات 176
٭ نور محمد نور کپور تھلوی ۔۔۔۔آثار و احوال
مقالہ ایم فل اردو، رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی، اسلام آباد2016ء
٭ نور محمد نور کپور تھلوی تھنکرز فورم (علمی و ادبی تنظیم)
٭ النور فاؤنڈیشن (سماجی و رفاہی تنظیم)
٭ نور اینڈ نور لاء ایسوسی ایٹس
ڈسٹرکٹ کورٹس، فیصل آباد، پاکستان
فیصل آباد کی محافلِ شعر و سُخن
نور محمد نور کپور تھلوی ، فیصل آباد کی ادبی محافل کی جان تھے۔ آپ بڑے شوق سے شہر میں ہونے والے ہر محفلِ مشاعرہ میں بطور خاص شرکت کرتے۔ جب کبھی پنجابی ادبی محاذ کے مشاعروں میں یہ نوجوان بزرگ قلمکار بابا شوق عرفانی ، نور محمد نور کپور تھلوی ، بابا عبیر ابو ذری، ڈاکٹر حبیب العیشی، سید زیارت حسین جمیل، بیکس بٹالوی، اسیر سوہلوی اور بسمل شمسی اکٹھے ہو جاتے تو ایسے لگتا جیسے زندگی سمٹ کر اس مختصر سی جگہ میں آ گئی ہو۔ اُن کی باتوں میں ادب سے لے کر سیاست تک ہر رنگ موجود ہوتا تھا۔ اِس ضمن میں ممتاز محقق اور نقاد ڈاکٹر شبیر احمد قادری رقم طراز ہیں:
’’فیصل آباد کو پیار اور محبت کا مرکز بنانے میں ادیبوں اور فن کاروں کے کردار کو کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے ادیبوں کو ساری دُنیا جانتی اور پہچانتی ہے۔ فیصل آباد کے ادیبوں اور شاعروں میں ایک نمایاں اور قد آور شاعر کا نام نور محمد نور کپور تھلوی ہے ۔ جن کو لوگ پیار سے ’’بابا جی‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ میرا ان ’’بابا جی‘‘ سے تعارف فیصل آباد کے ایک اور بابا جی شوق عرفانی کی بیٹھک میں ہوا۔ یہ بیٹھک (چنیوٹ بازار) فیصل آباد شہر کا ایک معروف ادبی مرکز تھا۔ جہاں پر رات دن ادیب بیٹھتے اور شعر و سخن کے علاوہ سیاسی گفتگو بھی کیا کرتے تھے۔ پنجابی ادبی محاذ کے زیرِ اہتمام ہونے والے ہفت روزہ مشاعروں میں جن شاعروں کو باقاعدگی سے شریک ہوتے دیکھا ہے اُن میں بابا عبیر ابو ذری، بسمل شمسی، احمد شہباز خاور، بیکس بٹالوی، میاں اقبال اختر، اسیر سوہلوی، جگنو گرداسپوری شامل تھے۔ ان کے علاوہ ایک اور بزرگ جن کو اُن کی بارُعب شخصیت کی بنا پر ہر کوئی احترام سے ملتا اور وہ شعر بھی بڑے اچھے انداز میں سناتے اور مشاعرہ لوٹ لیتے۔۔۔۔نور محمد نور کپور تھلوی رونقِ محفل ہوتے تھے۔ اس لیے وہ باتیں بھی بڑی پُر مغز کرتے تھے۔ نور محمد نور کپور تھلوی کی دوسرے شعراء اور قلم کاروں سے جو نوک جھونک ہوتی ۔ شوق عرفانی اس سے بہت لطف اندوز ہوتے۔ اس محفل میں شوق عرفانی (جو پاکستان رائٹرز گلڈ سب ریجن فیصل آبادکے سیکرٹری تھے) کی حیثیت ایسے دھاگے کی تھی ، جس نے ان خوبصورت موتیوں کو ایک لڑی میں پرو رکھا تھا۔ انھی موتیوں میں جیسا کہ پہلے لکھ چکا ہوں کہ نور محمد نور کپور تھلوی کی چمک دمک اور شان بان سب سے منفرد ہوتی تھی۔ نور محمد نور کپور تھلوی کے بچھڑنے سے شہرِ ادب ایک بزرگ اور کہنہ مشق شاعر کے وجود سے محروم ہو گیا ہے۔ بلاشبہ وہ خیر کی قدروں کے نقیب تھے اور بری قدروں کو بری نظر سے دیکھتے تھے اور یہی ایک اچھے اور کھرے ادیب کی نشانی ہوتی ہے کہ وہ اپنی اور غیروں کی خیر چاہے۔۔۔۔خیر، امن اور سلامتی کے گیت گاتا چلا جائے۔۔۔۔یہی اُس کے اخلاص کی نشان دہی کرتی ہے۔۔۔۔نور محمد نور کپور تھلوی کے فن آگاہ اور مزاج آشنا لوگ جانتے ہیں کہ اُنھوں نے ہر عہد اور ہر دور میں یہی رنگ بکھیرے اور اسی خوشبو کو عام کیا ۔ یہی دولت تقسیم کی اور اسی نور سے ظلمتوں کے خاتمے کی تمام تر کوششیں کیں۔‘‘(۹)
ان کی ایک مشہور پنجابی نظم ’’دو نور جہاناں‘‘ (ملکۂ ہند تے ملکۂ ترنم) کا بڑا چرچا تھا۔ شعری نشست ہو یا کوئی نجی محفل۔۔۔۔یہ نظم ان سے فرمائش کر کے بار بار سنی جاتی۔ اوپر سے ان کے پڑھنے کا انداز اور بھی مزا دوبالا کر دیتا تھا۔ اس نظم کے چند بند ملاحظہ ہوں:
اک نورجہاں جہانگیر والی ، اک نور جہاں اعجاز والی
جے اوہ نور جہاں سی حُسن والی ، تے ایہہ نور جہاں آواز والی
ایس نور جہاں نے اوس وانگر اُپر کسے دے ظلم کمایا نہیں
اپنے میحل دے بیٹھ جھروکیاں وچ کسے دھوبی تے تیر چلایا نہیں
کیہڑا راگ ہے راگ دی لغت اندر جیہڑا ایس نے سودھ کے گایا نہیں
جے اوہ نور جہاں سی سوز والی تے ایہہ نور جہاں ہے ساز والی
اک نور جہاں جہانگیر والی ، اک نور جہاں اعجاز والی
اسی نظم کا آخری بند نور محمد نور کپور تھلوی کی فکر اور سوچ کا کھُل کھلا کر اعلان کر رہا ہے اور یہ اشعار اقوال زریں کے درجے تک پہنچ کر ذہنوں کی تطہیر کا ذریعہ بنتے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں:
جیہڑے وچ مصیبتاں کم آون
سکے بھائیاں دے نالوں اوہ یار چنگے
سونے وچ خوشبو نہ مول ہووے
مینوں سونے توں پھلاں دے ہار چنگے
جیہڑے ہیرے نوں چٹ کے مرن سوہنے
اوس ہیرے توں لوہے دے تار چنگے
مینوں شاہی چوں خُون دی بو آوے
بادشاہواں نالوں فنکار چنگے
دیندے کڈھ اُداسیاں دِلاں وچوں
سرگم چھیڑ دے جدوں آواز والی
اِک نور جہاں جہانگیر والی
اِک نور جہاں اعجاز والی
نور محمد نور کپور تھلوی جب اپنی یہ نظم مکمل کر لیتے تو ’’واہ واہ‘‘ کی آوازیں اس وقت تک بلند ہوتی رہتیں جب تک وہ اپنی سیٹ پر جا کر نہ بیٹھ جاتے۔ وہ یہ نظم جس مشاعرے میں بھی سناتے مشاعرہ لوٹ لیتے تھے۔ سامعین بار بار اس نظم کے سننے کی فرمائش کرتے۔ اس موازناتی نظم کو نور محمد نور کپور تھلوی کی سوچ اور فکر کا بھرپور اظہار قرار دیا جا سکتا ہے۔
نور محمد نور کپور تھلوی ایک باکردار ، وضع دار اور ایک بلند پایہ انسان تھے۔ وہ اسلامی سوچ اور فکر کے علمبردار تھے ۔ ان کی عظمت کا راز ان کی دردمندی ، خلوص اور انسانی ہمدردی کے فراواں جذبات میں پوشیدہ تھا۔ سب کے ساتھ بلا امتیاز بے لوث محبت کے قائل تھے۔ ان کی محبت لین دین کی کوئی صورت ہر گز نہ تھی بلکہ وہ اپنے احباب پر سب کچھ نچھاور کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ ان کی شخصیت انھیں ایک اچھے شہری ، عظیم محبِ وطن ، بے لوث تخلیق کار اور عظیم انسان کے روپ میں سامنے لاتی ہے۔ انھوں نے ملت اور معاشرے سے ہمیشہ اپنا قلبی تعلق استوار رکھا۔ قدامت پسندی کو وہ ہمیشہ نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اُن کا استدلال یہ تھا کہ قدامت پسندی کے مسموم اثرات نے پوری قوم کو فکری انتشار ، نفاق ، خانہ جنگی اور تقلید کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ ترقی پسند سوچ کے مثبت پہلوؤں کو وہ ہمیشہ پیش نظر رکھتے تھے۔ ان کا اُٹھنا بیٹھنا ترقی پسند مصنفین کے ساتھ رہا۔ اِس صحبت کا اثر یہ ہوا کہ اُن کی اپنی تحریروں میں بھی روشن خیالی کے مثبت پہلو ہمیں جا بجا ملتے ہیں۔ اِسی ضمن میں ان کے بڑے بیٹے کیپٹن محمد اکرم لکھتے ہیں:
’’۱۹۸۸ء میں، میں ایک بحری جہاز کا کپتان تھا جو کہ ہندوستان کی بندرگاہ بمبئی جا رہا تھا چونکہ Bombayمیں اُن کی جوانی کے کئی خوب صورت سال گزرے تھے۔ وہاں کے ترقی پسند مصنفین کی صحبت میں اُن کو بیٹھنے کا وافر موقع ملا تھا۔ اس لیے بمبئی (Bombay)سے ان کو خاص لگاؤ تھا۔ بمبئی کے بارے میں انھوں نے میری بڑی رہنمائی کی اور مسلمانوں کے علاقے بھنڈی بازار کے بارے میں تفصیلاً بتایا کہ مدن پورہ میں جا کر وہ گھر ضرور دیکھنا جہاں وہ رہتے رہے تھے۔‘‘
نور محمد نور کپور تھلوی جاگتی آنکھ کا شاعر ہے ۔ وہ اپنے گرد و پیش کی زندگی اور زندگی پر گزرنے والے حالات و واقعات کا گہرا شعور رکھنے والے قلم کار ہیں۔ وہ زمین پر گزرنے والے ظلم اور دُکھ دیکھ کر چیخ اُٹھتا ہے۔پھر اُس کا قلم اس ظلم اور ظالم سے جنگ کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ درحقیقت نور محمد نور کپور تھلوی کی شاعری ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا دریا ہے جس کے اندر خوبصورت بہاؤ کے ذریعے خیالات کا سیل رواں جاری ہے۔
فیصل آباد (لائل پور) شہر جسے کسی نے لالچ اور لٹھے کا شہر کہا ہے اور کسی نے اسے تکلے اورتکلیفوں کا شہر کہہ کر اس کا مذاق اُڑایا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس شہر میں تجارت کرنے والے دُنیا و مافیہا سے بے خبر اپنے کاروبار میں اس قدر اُلجھے ہوئے ہیں کہ انھیں شہر کی سماجی اورادبی سرگرمیوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ کیونکہ اُن کے نزدیک یہ ایک بے کار مشق ہے۔ نور محمد نور کپور تھلوی کو اس بات کا بڑا قلق رہتا تھا کہ ہمارے فن کی پذیرائی کرنے والے تجارت میں سرگرداں ہیں وہ فن جسے ہم بہت عمدہ اور عرق ریزی کا نتیجہ کہتے ہیں اُن کے نزدیک اس کی چنداں کوئی اہمیت نہیں۔ بقول نور کپور تھلوی:
ہے شہر تاجروں کا یہاں فکر و فن نہیں
یاروں میں ذرہ بھر بھی مذاقِ سُخن نہیں
ایک حساس تخلیق کار کی حیثیت سے نور محمد نور کپور تھلوی نے زندگی کے تضادات پر اپنی تشویش کا برملا اظہار کرنے میں کبھی تامل نہ کیا۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں المیہ یہ ہوا کہ دردمند ادیب دُکھی انسانیت کے مصائب و آلام ، سنگلاخ چٹانوں اور جامد و ساکت پتھروں کے سامنے بیان کرنے پر مجبور ہے۔ نور محمد نور کپور تھلوی اس صورت حال پر بہت گرفتہ ہوتے تھے کہ منزلوں پر ان طالع آزما مہم جو اور ابن الوقت استحصالی عناصر نے غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔جو شریکِ سفر ہی نہ تھے ۔ نور محمد نور کپور تھلوی نے نہ صرف زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے کی سعی کی بلکہ ادب کے وسیلے سے تہذیبی، ثقافتی ، روحانی اور انسانی اقدار کے تحفظ پر بھی اصرار کیا۔ اُسے پختہ یقین تھا کہ انسانیت کے وقار اور سربلندی کے لیے ان اقدار عالیہ کا تحفظ ناگزیر ہے۔ حیف صد حیف اجل کے بے رحم ہاتھوں نے بزم ادب کے ہنستے بولتے چمن کو مہیب سناٹوں اور جان لیوا سکوت کی بھینٹ چڑھا دیا۔ دُکھی انسانیت کے ساتھ درد کا رشتہ استوار کرنے والا قلم کار ہماری بزم وفا سے کیا اُٹھا کہ در و دیوار حسرت ویاس کی تصویر پیش کر رہے ہیں۔ اس کی رحلت کے بعد درد کی جو ہوا چلی ہے۔ اُس کی وجہ سے تنہائیوں کا زہر رگ و پے میں سرایت کر گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ احساس ہوتا ہے کہ نور محمد نور کپور تھلوی کے الفاظ زندہ رہیں گے۔
پھیلی ہیں فضاؤں میں اس طرح تری یادیں
جس سمت نظر اُٹھی آواز تری آئی
ایک عظیم محب وطن کی حیثیت سے نور محمد نور کپور تھلوی نے وطن، اہل وطن اور استحکامِ پاکستان کے ساتھ اپنی قلبی وابستگی اوروالہانہ محبت کا برملا اظہار کیا۔ انھوں نے ماضی یا مستقبل کی نسبت حال پر زیادہ توجہ دی۔ وہ ایک مضبوط ، مستحکم اور صحت مند اندازِ فکر کی شخصیت تھے۔
قیامِ پاکستان کے بعد حالات نے جو رُخ اختیار کیا۔ وہ کسی سے مخفی نہیں۔ منزلوں پر اُن موقع پرستوں نے غاصبانہ قبضہ کر لیا۔ جو شریکِ سفر نہ تھے۔ بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں انھوں نے اقتصائے وقت کے مطابق قومی تعمیر و ترقی کے کاموں میں حصہ لیا اور اپنی شاعری سے مثبت شعور و آگہی کو پروان چڑھانے کی سعی کی ۔ نور محمد نور کپور تھلوی مصلحت وقت کے قائل نہ تھے۔ جو بات ان کے دل ، دماغ ، ذہن و ذکاوت اور ضمیر کی ترجمانی کرتی وہ ببانگ دہل کرتے۔ زبان و بیان پر خلاقانہ دسترس نور محمد نور کپور تھلوی کے اسلوب کا نمایاں اور روشن وصف سمجھا جاتا ہے۔ صنائع بدائع ، رنگ، خوشبو ، اور حسن و خوبی کے جملہ استعارے اس کے اسلوب میں سمٹ آئے ہیں۔ ان کی علمی فضیلت ، لسانی مہارت، بصیرت اور ذہن ذکاوت کی سطح فائقہ ان کے اسلوب کو زرنگار بنا دیتی ہے۔ گلدستہ معانی کونئے ڈھنگ ، نئے آھنگ سے سجانے اور ایک پھول کا مضمون سو رنگ سے باندھنے میں وہ جس فنی مہارت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ ان کے صاحب اسلوب ادیب ہونے کی دلیل ہے۔ ان کی خارجی زندگی کے معمولات ، تجربات اور مشاہدات جب اُس کے لاشعوری اور داخلی محرکات سے ہم آہنگ ہو جاتے تو اُن کا تخلیقی عمل اپنی صد رنگی کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے۔
حق کی خاطر سر کٹانے والے پھر درکار ہیں
منتظر ہے کربلا پھر ہاشمی سردار کی
(زنبیلِ سُخن ، ص 29)
آج کے دور میں کسی بھی قلم کار کے لیے اپنی کتاب شائع کروانا کسی کٹھن سے کم نہیں ہے۔ شعری مجموعوں کے شائع ہونے کے عمل سے شاعر کو کئی بار اذیت سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ بہت سے معاشی طور پر کمزور شاعر بے سروسامانی کے عالم میں کہیں سے ادھار رقم لے کر بھی اس کارِ ثواب میں حصہ ڈالنا فرضِ اولین سمجھتے ہیں۔ اوپر سے روایتی خود ستائشی کے چند جملے کسی دوسرے ادیب سے لکھوانا بھی اتنا ہی اہم سمجھا جاتا ہے جتنا شاعری کے دیگر لوازمات ۔۔۔۔ دیباچہ، فلیپ لکھوانے کے لیے شاعر کو کس قدر اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ دیباچہ نگاروں کے گھرں کے پے در پے چکر اور وعدے قلم کار کو دہرے عذاب میں مبتلا کر دیتے ہیں۔نور محمد نور کپور تھلوی نے ان مراحل سے دو چار شاعر کے اس درد بھرے جذبات کو بہت عمدگی سے قلم و قرطاس پر منتقل کیا ہے۔ اپنی ایک غزل میں اس جذبے کا اظہار یوں کرتے ہیں:
سمجھ کر دُنیا میں اِک کارِ ثواب
ہم نے بھی چھپوا دی ہے اپنی کتاب
بے سروسامانی شاعر کے لیے
کیا طباعت بھی ہے کوئی کم عذاب
گر کہیں عالم سے دیباچہ لکھو
وہ مہینوں تک نہیں دیتا جواب
چھپ کے جب آ جائیں گے بازار میں
قدر و قیمت کا لگے گا پھر حساب
گو پذیرائی اُسے حاصل نہ ہو
شاعروں میں نام تو ہو گا جناب
نورؔ اپنی کوشش اول ہے یہ
بہت سے شاعر ہیں تیرے ہم رکاب
نور محمد نور کپور تھلوی نے اپنے پورے زمانے کو شاعری کے خلاصے میں سمیٹ لیا ہے ۔ ان کی نظمیں ان کے جری سیاسی عقائد اور سماجی کارناموں کا عہدنامہ ہے۔ روزمرہ کے خدشے ، اندیشے ، وسوسے، سانحے اور حادثے شاعرانہ دھڑکن میں دُھل کر زندہ ہو گئے ہیں۔ عصری ماحول کے ایک ایک جزئی واقعے کو انھوں نے شعروں میں موتی کی طرح پرودیا ہے۔ اُن کے جواہر خانے میں زندہ سچائی کے گہر جا بجا بکھرے پڑے ہیں۔ ایک باشعور شاعر کی طرح اُن کی تخلیقات زندگی کو بدلنے اور انقلابی قوتوں کو اجاگر کرنے میں انوکھی قوت اور نرالی انفرادیت سے مزیّن ہیں۔ انھوں نے شاعری کے فنی اور تکنیکی حُسن کا رشتہ براہِ راست انسانی سماج اور اُس کی ساخت سے جوڑ دیا ہے۔ وہ سماج کو متحرک دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی شاعری میں انسانی جذبات کی اٹھان اور انسانی زندگی کی ترجمان بن کرانسانیت ، اخوت، ہمدردی کی اقدار کو پیدا کرتی ہے اور خود کو Isolate ہونے سے بچا لیتی ہے۔
ملکی اور بین الاقوامی مختلف النوع تبدیلیوں سے یک قلم منقطع رہ کر صرف خوابوں خیالوں کا ادب پیدا کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اب ہمارے پاس ادبی تخلیق کے لیے جیتی جاگتی اقدار نہیں ہیں۔ ہم نے مسائل پر غور کرنا چھوڑ دیا ہے اور اپنے گرد و پیش سے الگ ہو گئے ہیں۔ اصل میں خالص تجریدی ، مابعد الطبیعیاتی ، وارداتِ قلبی اور نرا حسن و عشق کا حامل صرف ذہنی ادب پیدا کرنا یا دوسرے لفظوں میں ادب کو مقصود بالذاتِ سے آگے کوئی حیثیت دینے پر تیار نہ ہونا، ادب کو ایسی دماغی مشق بنا دیے کی سوچ سے مملو ہے۔ جس کے نزدیک روحِ عصر ازلی و ابدی طور پر مردہ شے ہے۔ یہ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ کوئی ہوش مند اور حساس شاعر معاشرتی عوامل، سماجی حالات، سیاسی واقعات ، معاشی متعلقات اور عصری معاملات سے الگ تھلگ رہ کر بھی سوچ سکتا ہے۔
نور محمد نور کپور تھلوی کی شاعری حریتِ فکر اور جرأت اظہار کی عمدہ مثال ہے ۔ ان کے کلام میں موضوع، مشاہدے اور تجربے کا جو تنوع پایا جاتا ہے وہ انھیں منفرد اور ممتاز مقام عطا کرتا ہے ۔ معاشرے کی خوبیوں اور خامیوں پر اُن کی گہری نظر ہے۔ شعر و ادب کے بارے میں اُن کا جرأت مندانہ تعمیری اور اصلاحی اسلوب لائق صد رشک و تحسین ہے۔ حق گوئی اور بے باکی ہمیشہ ان کا مطمع نظر رہا ہے۔ وہ ان لوگوں کے خلاف ایک قلم بکف مجاہد کی حیثیت سے جدوجہد میں مصروف ہیں جنھوں نے وتیرہ بنا لیا ہے کہ عوام کو ترقی اور خوش حالی کے ثمرات سے محروم رکھا جائے۔
اُن کی شاعری کا اعزاز و امتیاز ہے کہ وہ معاشرتی قباحتوں کی مصلحتاً پردہ پوشی کے ہمیشہ خلاف رہے ہیں۔ ان کے کلام میں جو دردمندی ہے ۔ وہ حب الوطنی کا فقید المثال مظہر ہے۔ ان کی دوستی انسان دوستی کی اساس پر استوار ہے۔ انسانی زندگی کے جملہ مسائل، ان کے کلام میں اس طرح جلوہ گر ہیں ، جس طرح حیات و کائنات میں خوش رنگ شگوفے اپنی بوقلمونی اور ندرت سے قلب و نظر کو مسحور کر دیتے ہیں۔ ان کے اشعار جبر کے ایوانوں پر لرزہ طاری کر دیتے ہیں۔
نور محمد نور کپور تھلوی نے اپنے مجموعہ کلام’’جہانِ رنگ و نور‘‘ میں اپنی حقیقت پسندانہ سوچ کو بروئے کار لاتے ہوئے حیات آفریں اقدارکی موثر انداز میں ترجمانی کرتے ہوئے نظر آ تے ہیں۔ زندہ و تابندہ اقدار کے تحفظ کی خاطر حرف صداقت لکھنے والے اس جری شاعر نے اپنی شاعری میں انسانیت، محبت اور حُسن کی عظمت کو جاوداں بنا دیا ہے۔(۱۳)
حیوان بھی قتل نہیں کرتے اپنے ہم جنس حیوانوں کو
پھر کون سی چیز ہے اُکساتی اِس فعل پہ ہم انسانوں کو
(جہانِ رنگ و نور، ص 42)
اندر سے نکلنے والا تو بس اِک سجدہ ہی کافی ہے
اﷲ کی عبادت کیا شے ہے یہ خبر نہیں نادانوں کو
(جہانِ رنگ و نور، ص 42)
دُنیا کی زندگانی تو رو دھو کے کاٹ لی
کیا آخرت کا نورؔ بھی کچھ بندوبست ہے
(جہانِ رنگ و نور، ص 43)
طبیعت میں پیدا کرو انکساری
یہی سمجھو ہر شخص ہے خود ہے عالی
(جہانِ رنگ و نور، ص 44)
تجربہ بصیرت عقل آدمی کو نتائج سکھاتے ہیں ہر نیک و بد کے
غلط ہے یہ دعویٰ کہ گُر زندگی کے کسی اِک شخص کے سکھائے ہوئے ہیں
(جہانِ رنگ و نور، ص 49)
جنازہ اُٹھے جب تعصب کا اِک دن
اُسے نورؔ تم دینا خود بڑھ کے کندھا
(جہانِ رنگ و نور، ص 53)
جو دل میں بس رہا ہے اُسے ڈھونڈئیے کہاں
تیرا سُراغ اس لیے مشکل نہیں رہا
(جہانِ رنگ و نور، ص 55)
ایک دہشت سی دل پہ طاری ہے
ہر گھڑی زندگی کی بھاری ہے
(جہانِ رنگ و نور، ص 56)
عملِ تخلیق رُک نہیں سکتا
لمحہ لمحہ جہاں میں جاری ہے
(جہانِ رنگ و نور، ص 56)
نور محمد نور کپور تھلویؔ نے اپنے شعر ی مجموعہ ’’زنبیلِ سخن‘‘ میں اپنی بصیرت افروز باتوں کو شعروں کے قالب میں اس طرح ڈھالا ہے کہ اُن کی شاعری میں ذاتی احساس کے بجائے آفاقی اور کائناتی مسائل کا احساس نمایاں ہے۔ ایک محبِ وطن پاکستانی کی حیثیت سے انھیں اپنی ذات کی نسبت ، معاشرتی ، قومی اور ملی مسائل کے بارے میں زیادہ شدت سے احساس ہے۔ یہی احساس ان کے تخلیقی عمل کو مہمیز کر کے قاری کے ذہن کی تطہیر و تنویر کا موثر ترین وسیلہ ثابت ہوتا ہے ۔ معاشرے کے پسماندہ اور کچلے ہوئے طبقات کے ساتھ ان کی دلی وابستگی انھیں حقیقی معنوں میں حریت فکر کا علمبردار شاعر بنا دیتی ہے۔ نور محمد نور کپور تھلوی نے اس مجموعہ میں نہایت دلآویز اندا ز میں جذبوں کو صورت گری اور حالات و واقعات کی مرقع نگاری اس فنی مہارت سے کی گئی ہے کہ جہانِ تازہ اور جدت تخیل کی معجز نما کیفیت قلب و نظر کو مسحور کر دیتی ہے ۔ وہ زندگی اور اس کے مسائل کی تفہیم اس انداز سے کرتے ہیں کہ قاری ایک وجدانی کیفیت سے آشنا ہوتا ہے اور ذہنی مسرت کے یہ حقیقی منابع نور محمد نور کپور تھلوی نے زندگی اور ماحول سے تلاش کیے ہیں۔ اپنے اس تجربے میں انھوں نے اپنے قاری کو شامل کر کے اپنی فنی پختگی اور ابلاغ پر قدرت کا ثبوت دیا ہے ۔ نور محمد نور کپور تھلوی نے تہذیبی اور ثقافتی اقدار کو ایک زندہ جاندار روایت کے طور پر اجاگر کیا ہے۔ زندگی اور اس کی مققنیات کے بارے میں وہ فرد کے لاشعوری محرکات کو تخلیق فن کے لمحوں میں اس طرح پیش نظر رکھتے ہیں کہ ان کی شاعری یدِ بیضا کی نقیب ثابت ہوتی ہے ۔ (۱۴)
نور محمد نور کپور تھلوی نے اپنے تجربات، مشاہدات اور احساسات کو اپنے تخیل کی جولانیوں سے خیالات کو الفاظ کے قالب میں ڈھال کر اردو شاعری کی ثروت میں اضافہ کیا ہے ۔ جذبات کے بے ساختہ پن اور خلو ص و صداقت نے اشعار کی تاثیر کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ یہ بات بلاخوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ موجودہ دور میں نور محمد نور کپور تھلوی جیسے قادر الکلام شعرا کی بدولت اردو ادب کو عالمی ادبیات میں ممتاز مقام حاصل ہوا ہے۔ نور محمد نور کپور تھلوی انصاف اور امن کے علمبردار ہیں اور ان کی شاعری انھی ارفع جذبات کی امین ہے۔ ’’زنبیلِ سخن‘‘ واقعتاً اُردو شاعری کے افق پر ایک درخشندہ اور تابندہ ستارے کی مانند ہے جس کی ضیا پاشیوں سے سفاک ظلمتوں کا خاتمہ ہو گا۔ اردو شاعری میں حریتِ فکر کی روایت کو پروان چڑھانے کے سلسلے میں نور محمد نور کپور تھلوی کی خدمت تاریخِ ادب کا اہم ترین واقعہ ہے ۔ جسے ادب کا کوئی دیانت دار نقاد نظر انداز نہیں کر سکتا۔ اس منفرد اور متنوع انداز کی حامل کتاب کی اشاعت اردو داں طبقے کے لیے لائق صد افتخار ہے۔
ہو رہا ہے چار سُو دُنیا میں باطل کا فروغ
پھر ضرورت ہے ہمیں شبیر کے کردار کی
(زنبیلِ سخن، ص29)
کوفیوں نے حسبِ عادت اپنی قسمیں توڑ کر
کُرسیاں سنبھال لی ہیں وقت کے دربار کی
(زنبیلِ سخن، ص29)
کہتا ہوں قسم کھا کے جنابِ امیر کی
اونچی ہے شان آج بھی عابد اسیر کی
(زنبیلِ سخن، ص31)
کب ڈگمگائے فرض سے پاؤں حُسینؑ کے
یہ جرأت عظیم تھی پیروں کے پیر کی
(زنبیلِ سخن، ص31)
لُٹ چکا جب کارواں اپنا تو یہ عُقدہ کھُلا
راہزنوں کو آج تک ہم راہ نما کہتے رہے
(زنبیلِ سخن، ص33)
بد دلی اچھی نہیں ہے نورؔ لوگوں کو نہ دیکھ
لوگ اچھوں کو بھی دُنیا میں بُرا کہتے رہے
(زنبیلِ سخن، ص34)
طاقت پہ اپنی اتنا نہ اِترائے چیرہ دست
دیکھا ہے ہم نے خاک میں ملتا غرور کو
(زنبیلِ سخن، ص37)
سب کر رہے ہیں بات خدا کی زبان میں
گرچہ کوئی بھی اُس کے ہوا رُوبرُو نہیں
(زنبیلِ سخن، ص38)
کیا ہو گیا جہاں کو کہ سب کچھ بدل گیا
اس دورِ بے حسی میں کوئی جستجو نہیں
(زنبیلِ سخن، ص38)
جدید غزل گو شعرا میں نور محمد نور کپور تھلوی ایک ایسا توانا ، زندہ اور تخلیقی جوہر رکھنے والا شاعر ہے جن کے ہاں زندگی اپنا ایک مثبت مفہوم رکھتی ہے ۔ زندگی کے انتشار میں اثبات کی تلاش اور کشید اُن کی شاعری کا ایسا مرکزی جذبہ ہے جو اُن کے ہم عصر اور ہم عصر جدید شعرا کے ہاں خال خال ہی اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ نور محمد نور کپور تھلوی چھوٹی چھوٹی چیزوں اور واقعات سے لے کر بڑی بڑی چیزوں اور واقعات تک میں ایک ایسا ربط باطنی تلاش کر لیتے ہیں جس سے زندگی کی کلیت آشکار ہونے لگتی ہے ۔نور محمد نور کپور تھلوی کے رویے، شخصیت کی قوتیں اور تجربات ان کے مرکزی نظام سے پھوٹتے ہیں۔
نور محمد نور کپور تھلوی کے مجموعہ کلام’’تھوہر کے پھول‘‘کی شاعری اور ان کے فکری رویوں کا بھی کچھ یہی عالم ہے ۔ ان کے فکری رویے اور شعری رویے ایک دوسرے کو کاٹتے بھی ہیں اور ایک دوسرے میں گم ہو کر زندگی کے نئے راستوں کی تخلیق بھی کرتے ہیں ۔ وہ اپنے نظام کا ادراک اور شعور رکھتے ہیں اور اپنے شعری رویوں کا بھی ۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو نور محمد نور کپور تھلوی کی غزل ان کی پوری شخصیت کی جلوہ گاہ ہے۔ اسی لیے میں ان کی شاعری کو پورے شعور کے ساتھ شاعر کہتا ہوں۔
خود بناتا ہوں راستہ اپنا
مجھ سے رو میں بہا نہیں جاتا
(تھوہر کے پھول، ص35)
حرفِ صادق میں ایک راحت ہے
مُنہ سے اُس کا مزا نہیں جاتا
(تھوہر کے پھول، ص35)
نُورؔ جن کے ضمیر ہیں آزاد
جبر اُن پر کیا نہیں جاتا
(تھوہر کے پھول، ص35)
منصور نے سچ بولا تو منصور ہوا وہ
ہر ایک کی قسمت میں کہاں دار و رسن ہے
(تھوہر کے پھول، ص36)
معمولی سی کیا شے ہے بشر خاک کا پُتلا
ہر سمت مگر اس کی سمجھ جلوہ فگن ہے
(تھوہر کے پھول، ص37)
دُنیا میں وہ انسان ہی ہوتا ہے سُرخ رُو
گر اپنے مشاغل سے اُسے سچی لگن ہے
(تھوہر کے پھول، ص37)
ہے نورؔ وہی آدمی تعریف کے قابل
جو خلق کی خدمت میں شب و روز مگن ہے
نور محمد نور کپور تھلوی نے اپنے پورے زمانے کو شاعری کے خلاصے میں سمیٹ لیا ہے ۔ ان کی نظمیں ان کے جری سیاسی عقائد اور سماجی کارناموں کا عہدنامہ ہے۔ روزمرہ کے خدشے ، اندیشے ، وسوسے، سانحے اور حادثے شاعرانہ دھڑکن میں دُھل کر زندہ ہو گئے ہیں۔ عصری ماحول کے ایک ایک جزئی واقعے کو انھوں نے شعروں میں موتی کی طرح پرودیا ہے۔ اُن کے جواہر خانے میں زندہ سچائی کے گہر جا بجا بکھرے پڑے ہیں۔ ایک باشعور شاعر کی طرح اُن کی تخلیقات زندگی کو بدلنے اور انقلابی قوتوں کو اجاگر کرنے میں انوکھی قوت اور نرالی انفرادیت سے مزیّن ہیں۔ انھوں نے شاعری کے فنی اور تکنیکی حُسن کا رشتہ براہِ راست انسانی سماج اور اُس کی ساخت سے جوڑ دیا ہے۔ وہ سماج کو متحرک دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی شاعری میں انسانی جذبات کی اٹھان اور انسانی زندگی کی ترجمان بن کرانسانیت ، اخوت، ہمدردی کی اقدار کو پیدا کرتی ہے اور خود کو Isolateہونے سے بچا لیتی ہے۔
ملکی اور بین الاقوامی مختلف النوع تبدیلیوں سے یک قلم منقطع رہ کر صرف خوابوں خیالوں کا ادب پیدا کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اب ہمارے پاس ادبی تخلیق کے لیے جیتی جاگتی اقدار نہیں ہیں۔ ہم نے مسائل پر غور کرنا چھوڑ دیا ہے اور اپنے گرد و پیش سے الگ ہو گئے ہیں۔ اصل میں خالص تجریدی ، مابعد الطبیعیاتی ، وارداتِ قلبی اور نرا حسن و عشق کا حامل صرف ذہنی ادب پیدا کرنا یا دوسرے لفظوں میں ادب کو مقصود بالذاتِ سے آگے کوئی حیثیت دینے پر تیار نہ ہونا، ادب کو ایسی دماغی مشق بنا دیے کی سوچ سے مملو ہے۔ جس کے نزدیک روحِ عصر ازلی و ابدی طور پر مردہ شے ہے۔ یہ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ کوئی ہوش مند اور حساس شاعر معاشرتی عوامل، سماجی حالات، سیاسی واقعات ، معاشی متعلقات اور عصری معاملات سے الگ تھلگ رہ کر بھی سوچ سکتا ہے۔
نور محمد نور کپور تھلوی کی شاعری حریتِ فکر اور جرأت اظہار کی عمدہ مثال ہے ۔ ان کے کلام میں موضوع، مشاہدے اور تجربے کا جو تنوع پایا جاتا ہے وہ انھیں منفرد اور ممتاز مقام عطا کرتا ہے ۔ معاشرے کی خوبیوں اور خامیوں پر اُن کی گہری نظر ہے۔ شعر و ادب کے بارے میں اُن کا جرأت مندانہ تعمیری اور اصلاحی اسلوب لائق صد رشک و تحسین ہے۔ حق گوئی اور بے باکی ہمیشہ ان کا مطمع نظر رہا ہے۔ وہ ان لوگوں کے خلاف ایک قلم بکف مجاہد کی حیثیت سے جدوجہد میں مصروف ہیں جنھوں نے وتیرہ بنا لیا ہے کہ عوام کو ترقی اور خوش حالی کے ثمرات سے محروم رکھا جائے۔
اُن کی شاعری کا اعزاز و امتیاز ہے کہ وہ معاشرتی قباحتوں کی مصلحتاً پردہ پوشی کے ہمیشہ خلاف رہے ہیں۔ ان کے کلام میں جو دردمندی ہے ۔ وہ حب الوطنی کا فقید المثال مظہر ہے۔ ان کی دوستی انسان دوستی کی اساس پر استوار ہے۔ انسانی زندگی کے جملہ مسائل، ان کے کلام میں اس طرح جلوہ گر ہیں ، جس طرح حیات و کائنات میں خوش رنگ شگوفے اپنی بوقلمونی اور ندرت سے قلب و نظر کو مسحور کر دیتے ہیں۔ ان کے اشعار جبر کے ایوانوں پر لرزہ طاری کر دیتے ہیں۔
نور محمد نور کپور تھلوی نے اپنے مجموعہ کلام’’جہانِ رنگ و نور‘‘ میں اپنی حقیقت پسندانہ سوچ کو بروئے کار لاتے ہوئے حیات آفریں اقدارکی موثر انداز میں ترجمانی کرتے ہوئے نظر آ تے ہیں۔ زندہ و تابندہ اقدار کے تحفظ کی خاطر حرف صداقت لکھنے والے اس جری شاعر نے اپنی شاعری میں انسانیت، محبت اور حُسن کی عظمت کو جاوداں بنا دیا ہے۔(۱۳)
حیوان بھی قتل نہیں کرتے اپنے ہم جنس حیوانوں کو
پھر کون سی چیز ہے اُکساتی اِس فعل پہ ہم انسانوں کو
(جہانِ رنگ و نور، ص 42)
اندر سے نکلنے والا تو بس اِک سجدہ ہی کافی ہے
اﷲ کی عبادت کیا شے ہے یہ خبر نہیں نادانوں کو
(جہانِ رنگ و نور، ص 42)
دُنیا کی زندگانی تو رو دھو کے کاٹ لی
کیا آخرت کا نورؔ بھی کچھ بندوبست ہے
(جہانِ رنگ و نور، ص 43)
طبیعت میں پیدا کرو انکساری
یہی سمجھو ہر شخص ہے خود ہے عالی
(جہانِ رنگ و نور، ص 44)
تجربہ بصیرت عقل آدمی کو نتائج سکھاتے ہیں ہر نیک و بد کے
غلط ہے یہ دعویٰ کہ گُر زندگی کے کسی اِک شخص کے سکھائے ہوئے ہیں
(جہانِ رنگ و نور، ص 49)
جنازہ اُٹھے جب تعصب کا اِک دن
اُسے نورؔ تم دینا خود بڑھ کے کندھا
(جہانِ رنگ و نور، ص 53)
جو دل میں بس رہا ہے اُسے ڈھونڈئیے کہاں
تیرا سُراغ اس لیے مشکل نہیں رہا
(جہانِ رنگ و نور، ص 55)
ایک دہشت سی دل پہ طاری ہے
ہر گھڑی زندگی کی بھاری ہے
(جہانِ رنگ و نور، ص 56)
عملِ تخلیق رُک نہیں سکتا
لمحہ لمحہ جہاں میں جاری ہے
(جہانِ رنگ و نور، ص 56)
گوئٹے نے کسی شاعر کے مرنے پر کہا تھا’’کہ شاعر کا مرنا آسمان پر جگمگاتے ہوئے ستارے کا مرنا ہے جس سے لوگ سمت نمائی اور روشنی حاصل کرتے ہیں‘‘۔ نور محمد نور کپور تھلوی چپکے سے یہ جہاں چھوڑ گئے۔ ہمارے عہد میں درخشندہ ستارہ ٹوٹ گرااور ایک بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا۔ اردواور پنجابی زبان و ادب کے ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی اجل کے ہاتھوں زمین بوس ہو گئی۔
نور محمد نور کپور تھلوی کی موت ایک فرد کی نہیں بلکہ ہماری نصف صدی کی تہذیب کی موت ہے۔ اُن کا جامع کمالات وجود اس ویرانے میں ایک ایسا بلند مینارۂ تابندہ تھا جو بہت دور سے دمکتا نظر آتا تھا۔ ان کی موت سے محفل ثقافت درہم برہم ہو کر رہ گئی ۔۔۔ایک کے بعد دوسرا مسافر اس جگہ آ جاتا ہے لیکن جناب نور محمد نور کپور تھلوی کی شخصیت اس قدر غیر معمولی تھی کہ اُن کی مسند خالی رہے گی اور سینہ علم وہنر سے حشر کے دن تک دُھواں اُٹھتا رہے گا۔
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
بلند پایہ شاعر اور دانشور منظر فارانی اپنے ایک مضمون ’’نور۔۔۔کبھی ن