اگر آپ نے پاکستان کے شمالی علاقوں کا سفر کیا ہے تو دیکھا ہو گا کہ یہاں کا اور میدانی علاقوں کے جغرافیے کا فرق حیران کن ہے۔ یہاں کے پہاڑ دنیا کے سب سے اونچے ہیں۔ پہاڑوں کے اس عظیم سلسلے کا اس خطے کی تاریخ اور جغرافیہ میں بہت ہی اہم کردار رہا ہے۔ برِ صغیر دنیا کا سب سے گنجان آباد خطہ ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ پہاڑ ہیں۔ لیکن ابھی ایک نظر صرف اس پر کہ یہ آئے کہاں سے اور اس کا جواب ہمیں دنیا کی تاریخ کی بڑی اچھی تصویر دکھاتا ہے۔
کہانی تو اربوں برس پرانی ہے لیکن شروع کے چیپٹر چھوڑ کر پہلے تئیس کروڑ سال قبل کی تصویر۔ زمین پر خشکی کا ایک عظیم برِاعظم پینگیا تھا جو ساتھ لگی تصویر کی طرح تھا۔ نہ ہمالیہ تھا، نہ قراقرم اور نہ ہی تبت کی اونچائی۔ اس خشکی کے بڑے ٹکرے پر ڈائنوسارز کا راج تھا جو ہر طرف دندناتے پھرتے تھے۔ انڈیا آسٹریلیا اور اینٹارٹیکا سے جڑا تھا اور اس کے اور باقی ایشیا کے درمیان بحرِ ٹیتھس حائل تھا۔ ان کے اس پار جہاں موجودہ چین ہے، وہاں پر آتش فشانی عمل زوروں پر تھا۔ پھر بیس کروڑ برس قبل پینگیا ٹوٹتا ہے اور ایک بڑا جزیرہ جو انڈیا ہے، وہ شمال کی طرف تیز رفتاری سے گامزن ہے۔ اس کی رفتار غیرمعمولی طور پر تیز ہے اور ہر سال پندرہ سینٹی میٹر کا سفر کر رہا ہے۔ اس بے قابو دیوہیکل خشکی کے ٹکڑے کی تیزرفتاری سے بحرِ ٹیٹھس کے فرش پر بھی شکنیں پڑتی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے اس کی رفتار آہستہ آہستہ کم ہوتے ہوئے سالانہ چھ سینٹی میٹر تک رہ گئی ہے لیکن پھر وہ ہوا جو اس صورت میں ہونا تھا۔ یعنی انڈین پلیٹ اور یوریشین پلیٹ کا تصادم۔ یہ منظر ویسا ہے جیسے ایک بھاری ٹرک سے گاڑی ٹکرا جائے۔ ان پلیٹس کی ڈینیسٹی کم تھی اس لئے کوئی ایک دوسری کے نیچے مکمل طور پر نہیں آئی لیکن یوریشین پھر بھی کچھ اوپر ہے۔ تصادم سے فولڈ ہوتی زمین سے ہمالیہ کا پہاڑ اور تبت کی سطحِ مرتفع بننا شروع ہو گئیں اور ان کے ٹکرا کر دبنے کا مطلب یہ کہ یہاں پر کرسٹ کی موٹائی اوسط سے دگنی ہے اور 75 کلومیٹر کے قریب ہے۔ اس کا نتیجہ یہ کہ یہاں پر آتش فشانی عمل نہیں کیونکہ لاوا کو سطح تک پہنچنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔
ہونے والا یہ تصادم ابھی جاری ہے اور انڈین پلیٹ کے شمال کا سفر ختم نہیں ہوا۔ اس علاقوں میں آنے والے زلزلوں اور اس کا مرکز زیادہ گہرا نہ ہونے کی وجہ زمین کی یہی تاریخ ہے۔ ہمالیہ کی اونچائی کے بارے میں دو مخالف عوامل ہیں۔ اونچے پہاڑوں میں موسم سے ہونے والی اروژن کی وجہ سے ان کی بلندی بتدریج کم ہوتی ہے لیکن یہاں پر یہ تصادم اس قدر زوردار رہا کہ اس کے مومینٹم کی وجہ سے اس اروژن کے باوجود کوہِ ہمالیہ کی بلندی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور یہ ایک سے دو سینٹی میٹر سالانہ ہے۔
اس بلندی کو ناپا کیسے جاتا ہے؟ سیٹلائٹ سے۔ کیا برف آڑے نہیں آتی؟ اس کے لئے اپنے کچن میں ایک تجربہ کیا جا سکتا ہے۔ برف کے کیوب کو اچھی طرح سے خشک کر کے مائیکرو ویو اوون میں رکھ کر پگھلانے کی کوشش کریں، وہ گرم نہیں ہو گا۔ برف کی یہی خاصیت ہمیں پہاڑوں کی اونچائی ناپنا اور اینٹارٹیکا یا گرین لینڈ میں برف کی موٹی تہہ کے نیچے کے منظر دکھانے کے قابل کرتی ہے۔
زمین میں یہ مسلسل تبدیلی یا حرکت کیوں؟ زمین چاند کے برعکس مردہ نہیں۔ اس کا اپنا جیومیٹابولزم ہے اور اس کی وجہ اس کے درمیان کی پگھلی کور میں ہے۔
زمین کی خشکی کا مستقبل کیا ہے؟ وہ اب خود دیکھ لیں۔ اشارہ یہ کہ خیال ہے کہ پھر کئی برِاعظم مل جائیں گے اور یکجا امریکاز اور ایشیا سے بنے سپر کانٹینٹ امیشیا کو ڈھونڈ لیں۔
یہاں پر ایک اور مختلف چیز جو سمجھنے کی ہے، وہ اس زمین کے ٹائم سکیل ہیں۔ ہزار برس پہلے اگر کوئی ہمالیہ کو دیکھتا تو وہ ایسا ہی تھا جیسا آج نظر آتا ہے لیکن ایک ہزار، ایک لاکھ، ایک کروڑ اور ایک ارب میں بہت زیادہ فرق ہے۔ ان اعداد اور ریاضی کا تصور ذہن میں ٹھیک نہ ہو تو اس سے پھر کئی چیزوں میں کنفیوژن پیدا ہوتی ہے۔ پندرہ سینٹی میٹر سالانہ کا سفر کروڑوں برس میں یہ ممکن کر دیتا ہے کہ ہزاروں کلومیٹر دور خشکی کے ٹکڑے آپس میں ٹکرا کر ہمالہ جیسے عظیم پہاڑ بنا دیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔