4000قبل37گرام وزنی مرغی کےانڈےکی مانندیہ ہیراجنوبی ہندوستان کی ریاست اترپردیش کےشہرحیدرآبادکےعلاقےگولکنڈہ سےدریافت ھوا۔
کبھی یہ قتل وغارت اورجنگیں کرواتارھااورکبھی اپنی خوبصورتی کادیوانہ بناتارھا۔
قدیم ھونےکےباعث یہ مختلف راجاءوں،حکمرانوں،روایات،کہانیوں،ایمپائرزکاحصہ رھا۔
اسی وابستگی سےکبھی یہ اپنےمالکوں کونایاب اورکبھی وہ اس ہیرےکو تاریخی بناتےرھے۔
قدیم ہبدوحکمرانوں سے ھوتاھوایہ ہیرا13رویں صدی میں کاکاتیہ خاندان کےپاس پہنچا۔
افغان ابراہیم لودھی کی والدہ نےاسےبادشاہ ھمایوں کونذرانہ کیاجس سےیہ مغل تحویل میں آیا۔
کبھی یہ ہیراایرانی تخت طاءوس میں جڑا توکبھی یہ افغانی احمدشاہ ابدالئ کا غرور بنا۔
1809میں درانی شاہ شجاع کوقیدی بناکرکشمیررکھاگیا۔گورنر کشمیرعطامحمدشاہ شجاع سے اس ہیرے کی حوالگی کا مطالبہ کرتے رھے۔
شاہ شجاع کےرفیق شیر محمد اور دو افراد(ملاظفراورابوالحسن) ہی کوہ نور کےمعاملےکی جڑتھے۔
1814میں شاہ شجاع کی اہلیہ وفا نے سکھ ہیرو رنجیت سنگھ کوخط لکھ کر کشمیر بلایاکہ افغان وزیرکشمیر پریلغارکاارادہ رکھتاھےجس سے یہ ہیرا کابل چلاجائےگا۔
صرف ہیرے کوافغانیوں کےقبضےسےبچانےکیخاطر بیگم وفانےیہ ہیرا شاہ کی زندگی کےعوض دینے کاوعدہ کیا۔
اور پھر یہ دونوں اطراف سےدوسرےجواہرات جڑکررنجیت سنگھ کابازوبندبنادیاگیا۔
اب اسےسکھوں کی بےوقوفی کہیں یا سادگی 1849میں جب انگریز نے پنجاب پر قبضہ کیاتواسے رنجیت کےپوتےدلیپ سنگھ سےہتھیالیااور برٹش انڈیا کمپنی لاھور کے خزانے میں دےدیا۔
دیکھا جائے توشا شجاع کے ہاتھ سے اس نادر و قدیم دریافت کا نکلنا خود شاہ اور اسکےرفقاءہی کےذمےھے۔
جیسا کہ ھم سب جانتے ھیں
1953میں کوہ نور برطانوی ملکہ الزبتھ اا کی رسم تاج پوشی پر اسکے تاج میں نصب کردیا گیا ھو آج بھی ھمارا منہ چڑاتا ھے۔
برصغیر کواسکاماضی بھولنےنہیں دیتا۔
اپنے ہاتھوں سے بلکہ اپنے بےوقوفیوں سے اس ہیرےکوگنوانےکےبعدآج بھی بھارت، پاکستان، ایران اور افغانستان اس کی واپسی کامطالبہ کرتےھیں۔
بہرحال یہ اٹل حقیقت لکھ لیں کہ اب اس ہیرے پر جو قبضہ جمائے بیٹھے ھیں وہ تو اس کے مالک دوردورتک نہیں ھیں۔
Sources:
Ranjeet Singh by Narender Krishan Sinha
Kohinoor: The story of the World's Most Infamous Diamond by William Dalrymple & Anita Anand
“