کوہِ ارارت کے پہلو میں
تیزرفتار اوتوبس صبح سویرے تبریز سے روانہ ہوئی۔ تفتان (پاکستان ایران بارڈر ) سے تبریز پہنچتے پہنچتے ایران کی طویل سرزمین کو عبور کرتے ایرانی تہذیب کے کئی رنگوں کو مشاہدہ کرنے کا نایاب موقع ملا۔ قدیم فارس سے لے کر اسلام کے ظہور کے بعد کا ایران۔ شہنشاہیت کے اثرات اور اسلامی انقلاب کا عروج۔ میں نے ایرانیوں کو مشرقِ وسطیٰ میں سب سے تہذیب یافتہ قوم پایا۔ مشرقِ وسطیٰ میں دو قدیم قومیں ہزاروں سال سے آباد ہیں، ایرانی اور عرب۔ ترکوں نے مشرقِ وسطیٰ کو اسلام کے ظہور کے بعد اپنی سرزمین بنایا۔ پہلے وہ عربوں کی افواج میں شامل ہوئے اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے مشرقِ وسطیٰ میں اپنی ولایتیں اور سلطنت بنا ڈالی۔ سلجوقیوں سے عثمانیوں تک۔ اور ایک وقت آیا کہ ترک عثمانی دور میں تین براعظموں کے حکمران بن گئے، مگر وہ کبھی بھی ایرانی سرحدیں عبور نہ کر پائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ترکوں نے ایرانی اور عربی تہذیب کے اثرات اپنے اندر جذب کرلیے مگر مشرقِ وسطیٰ میں اپنی علیحدہ شناخت بھی بنالی۔ موجودہ ترکی اسی کا ایک تسلسل ہے۔ ترکوں کے کھانوں، موسیقی، شاعری، ادب، رہن سہن اور آداب پر عرب وفارس کے گہرے رنگ چھائے ہوئے ہیں۔ مگر اب وہ جغرافیائی طور پر مشرقِ وسطیٰ کی ایک علیحدہ تہذیب (ترک) ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں اُس وقت بھی ان تین بڑی تہذیبوں کے مختلف رنگ ہیں اور یہ تینوں تہذیبیں آج بھی اپنی علیحدہ قومی شناختوں کو فخر سے برقرار رکھے میں کوشاں ہیں۔ زبان سے لے کر روزمرہ کی زندگی کے لاتعداد پہلوئوں تک۔ عرب، ترک اور ایرانی اپنی اپنی شناخت پر نازاں ہیں۔ میری جہاںگردی نے ایرانیوں کو سب سے زیادہ سلیقہ شعار پایا۔ عربوں کو فراخ دل اور ترکوں کو نہایت کفایت شعار پایا۔
تبریز سے بس نکلی تو آذر بائیجان کی سرسبز وشاداب وادیاں کوہ قاف کے پہلو میں واقعی جنت کا نظارہ پیش کررہی تھیں۔ ذہن ایرانی سرحد کے اُس پار سوویت ریاست آذر بائیجان میں کہیں گم تھا۔ یہ زمانہ ابھی سرد جنگ کا زمانہ تھا۔ ایرانی آذربائیجان کی سرحدیں آرمینیا اور آذربائیجان کی سوویت ریاستوں سے ملتی تھیں۔ آہنی دیوار کے اُس طرف کوہ قاف کا پری استان تو تھا ہی، سرخ جنت بھی ابھی آباد تھی۔ اور انہی کے پہلو میں جارجیا، لگتا ہے یہ خطہ جنت سے کاٹ کر زمین میں جوڑ دیا گیا ہے۔ یہ خطے ہمارے ہاں طلسماتی کہانیوں تک ہی بیان ہوئے ہیں، ادب، سیاحت اور سیاست کے حوالے سے ان کا نہایت کم ذکر ملتا ہے۔ میرے جیسا سیاسی جہاںگرد جو نظاروں، تاریخ، تہذیب اور رہن سہن سے لے کر سیاحت کردہ خطوں کی سیاست وسماج میں دلچسپی رکھتا ہو، اس کا یہاں پہنچ کر عجیب کیفیت میں مبتلا ہونا یقینی تھا۔
اسلامی جمہوریہ ایران، اب میں پیچھے چھوڑتا جارہا تھا اور اب اتاترک کا سیکولر ترکی میرے سامنے تھا۔۔۔ کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے۔ ایسے سیاسی، سماجی، تاریخی، جغرافیائی اور مختلف تہذیبوں کے سنگم پر خود کوپاکر عجیب سا لگ رہا تھا، بلکہ یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ میں یہاں پہنچ چکا ہوں۔ یکایک بس ایک ایرانی بستی میں عارضی قیام کے لیے رکی تاکہ مسافرین ِاوتو بس کچھ لمحے سستا لیں۔ اس ایرانی آذربائیجان قصبے کا نام ماکو تھا۔ آہ۔ سرحد پار سوویت آذربائیجان، جس کے دارالحکومت کا نام باکو ہے۔ ماکو ایک قدیم تاریخی قصبہ یا چھوٹا شہر ہے۔ ماکو میں آتش پرست ایران سے لے کر آج تک کی تاریخ وتہذیب کے لاتعداد آثار موجود ہیں۔ پچھلی صدی کے آغاز تک ماکو ایک چھوٹی ریاست کے طور پر بھی موجود رہی۔ آذری لوگوں کے علاوہ یہ خطہ مشرقِ وسطیٰ کی ایک اور قدیم ترین قوم کُردوں کا مرکز رہا ہے۔ مجھے جوں جوں ایران پیچھے چھوڑنا تھا، توں توں مجھے ایسے علاقوں میں داخل ہونا تھا جو کُردوں کی بڑی آبادیوں کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ کُرد مشرقِ وسطیٰ کی ایک منقسم قوم ہے۔ Nation without state۔ترکی، عراق، ایران، شام اور کچھ کاکیشیائی خطوں میں بسنے والی اس قوم کی تاریخ اور ہمعصر تاریخ دلچسپی سے خالی نہیں۔ ترک تو انہیں ’’پہاڑی ترک‘‘ قرار دیتے ہیں۔ جبکہ اگر تاریخ انسانی کا گہرا مطالعہ کریں تو ہمدان میں صدیوں پہلے حکمتانہ کے نام سے کُردوں کی باقاعدہ ریاست کے ثبوت ملتے ہیں۔ حلب سے لے کر اس خطے تک بکھری اور مختلف ریاستوں میں بٹی یہ قوم سوویت یونین کے قیام کے بعد Red Kurdistan کے نام سے نیم خودمختار ریاست کے طور پر 1923ء سے 1924ء تک Azerbaijan SSR کے نام سے جانی جاتی رہی، یعنی سوویت آذربائیجان کے اندر۔ اس کے بعد سوویت یونین نے اسی ایرانی خطے پر اس وقت ایک کُرد ریاست کا اعلان کردیا۔ جب اتحادی افواج نے 1941ء میں ایران پر چڑھائی کی تو سوویت یونین نے اس خطے میں Republic of Mahabad قائم کردی۔ یہ چھوٹی سی آزاد کُرد ریاست 22جنوری 1946ء سے 15دسمبر 1946ء تک قائم رہی۔ درحقیقت اس ریاست کا وجود سرد جنگ کا ردِعمل تھا۔ اشتراکی روس نے ایرانی کُردوں کو ایک علیحدہ قومی ریاست کے لیے ابھارا۔ ماکو کے ایک طرف سرخ جنت کی دیوار کے اس طرف جارجیا، آرمینیا اور آذربائیجان تھا اور میرے سفر کی راہیں ایران، ترک ریاست کو عبور کرنے کی طرف۔ ماکو، ترکی کی طرف ایران کا آخری شہر ہے۔ یہاں سے ترک سرحد کا فاصلہ بائیس کلومیٹر ہے۔
مختصر قیام کے بعد اوتو بس دوبارہ چلی۔ بجانب ایران ترک سرحد۔ اس بس میں مَیں واحد مسافر تھا جس نے ترکی میں اترنا تھا۔ تمام تر مسافرین، ملک شام کے راہی تھے جن میں سرگودھا کی ایک اہل تشیع فیملی بھی شام میں زیارتوں کے لیے سوار تھی۔ میری ان سے ملاقات تب ہوئی جب میں ایران کا ویزا لینے لے لیے گلبرگ مین بلیوارڈ میں واقع خانہ فرہنگ گیا۔ پھر انہی ساڑھے چھے فٹ دراز قد سرگودھوی شاہ صاحب کو میں نے اسلام آباد میں شامی سفارت خانے میں ایک ہی لائن میں اپنے ہمراہ شامی ویزا لیتے ہوئے پایا۔ اور اتفاق دیکھیں کہ ملک شام جانے والا یہ قافلہ زائرین مجھے تہران کے بس اڈا پر دوبارہ مل گیا۔ خواتین، مردوں اور بچوں پر مشتمل اس زیارتی قافلے میں دس کے قریب لوگ تھے جبکہ بس میں زیادہ ایرانی زائرین اور تین شامی عرب تاجر تھے جنہوں نے بس کی چھت پر ایرانی برتن اور دیگر مال لاد رکھا تھا اور بس کے اندر پستہ، بادام اور دیگر میوہ جات کی بوریاں۔ یہ مال انہوں نے اِدھر سے اُدھر کرکے مہنگے داموں بیچنا تھا۔ پاسدارانِ انقلاب جب بھی تہران سے چلی اس بس کو روکتے، ساری بس کربلا کے سوگ میں آنسوئوں میں صلواۃ صلواۃ پڑھنے میں لگ جاتی اور یوں مال زائرین کے زیرسایہ نگرانی کے عمل سے محفوظ ہوجاتا۔ میںنے ان زائرین کے روپ میںتاجر شامی مسافرین سے دوستی گانٹھ لی جس کے سبب پستہ، بادام اور دیگر میوہ جات کی مجھ پر رحمتیں ہونے لگیں۔
ایرانی بس کمپنی نے ان زائر نما تین شامی تاجروں سے خصوصی ڈیلنگ کر رکھی تھی، جس کے تحت زائرین کو "Human Shield"کے طور پر استعمال کیا گیا۔اور اس قدر مال واسباب کا یہ جواز پیش کیا گیا کہ سارا سامان شام جانے والی ان مقدس ہستیوں کا ہے جو کربلا کے غم میں صلواۃ صلواۃ پڑھتے ہر چیک پوسٹ پر اشکبار ہوئے جا رہے تھے۔ میں ہی واحد آوارہ گرد تھا جو دین اور دنیا سے بے نیاز جہاں گردی کے جنون میں مبتلا تھا۔ یہ زائرین اور تاجر دین ودنیا کے لیے سفر پر نکلے تھے اور ایک میں آوارہ، خدا کے جہانوں کی تلاش میں۔
ماکو سے بس چلی تو کچھ دیر بعد ترکی سے آنے والے بڑے بڑے تجارتی ٹرالروں کی قطاریں دکھائی دینے لگیں۔ اُن دنوں مشرقی یورپ سے ایران کی بذریعہ سڑک تجارت کے سبب یہ سڑک بڑی سرگرم تھی۔ انقلابِ ایران اپنے جوبن کے چوتھے سال میں تھا۔ امریکہ کے ساتھ محاذآرائی اور عراق کے ساتھ جنگ نے اس کا جھکائو اِشتراکی ممالک کی طرف کرنا شروع کردیا تھا۔ ان ٹرالروں میں بلغاریہ کی سبزیوں سے لے کر دیگر روزمرہ کی اشیا ایران برآمد ہوتی تھیں۔ ایران ترک سرحد پر بازرگان تک ان ٹرالروں کی لاتعداد قطاریں میلوں پھیلی تھیں۔ ہماری بس کو ان قطاروں کے بیچ وبیچ سفر کی اجازت تھی۔ ایک روز قبل دوپہر، تہران سے نکلنے والی ہماری بس دوسرے دن دوپہر تک بازرگان کی ایران ترک سرحد پر پہنچ چکی تھی۔
ایران ترک سرحد،بازرگان ایک پہاڑی درّے میں واقع ہے۔ شام ڈھلے اگست کی 29تاریخ، سن 1983ء ۔ جہاں گرد ایران سرحد پار کرنے کے لیے بے چین تھا۔ ایرانی سرحدی انتظامیہ نے بس ڈرائیور کو مطلع کیا گیا کہ وقت کی کمی کے باعث بس آج سرحد پار نہیں کرسکتی۔ میرے لیے یہ خبر کسی صدمے سے کم نہ تھی۔ جبکہ زائرین اور تاجران مطمئن تھے۔ بس انتظامیہ نے مجھے دمشق تک کا ٹکٹ بیچ رکھا تھا کیوں کہ بس تہران سے دمشق تک کے روٹ پر رواں تھی، جبکہ مجھے ایران سرحد پار کرکے ترکی کے پہلے قصبے میں اتر جانا تھا۔
میں نے بس انتظامیہ کو مطلع کیا کہ میں بس چھوڑنا چاہتا ہوں۔ اور میں ایران ترک سرحد اپنے قدموں پر پار کروں گا۔ میرے ہمسفر فضل عباس شاہ میرے جدا ہونے پر افسردہ ہوئے۔ میں نے انہیں تسلی دی کہ ہم کل صبح دوغبا یزید میں ملیں گے۔ اداس ہونے کی ضرورت نہیں۔ فضل عباس شاہ سرگودھا کی مخصوص زبان میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے۔ جبکہ میں خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا کہ مجھے آج ترکی میں داخل ہوجانا ہے۔ ترکی میں میرا پہلا قدم۔۔۔ الوداعی کلمات اور ایک دوسرے سے گلے ملنے کے بعد میں نے اپنا بیگ اٹھایا اور تیزتیز قدم چلتا ہوا پہاڑی درّے میں داخل ہوا۔ امام خمینی کی قدآور تصاویر پر فارسی میں انقلابی نعرے اور قرآنی آیات میں لکھے آسمانی نیون سائن سرحد کے اس طرف نمایاں تھے۔ میرا تیز دھڑکتا دل اب ایرانی سرزمین پر تین ہفتو ں کے طویل سفر کے بعد ترکوں کے دیس میں داخل ہونے کے لیے بے چین تھا۔ ایرانی امیگریشن اہلکار نے خروج کی مہر میرے پاسپورٹ پر ثبت کی اور اس کے بعد وہاں موجود دیگر ایرانی مسافروں کے ہمراہ کھڑاکردیا جو دوسری بسوں کے ذریعے سرحد تک پہنچے تھے۔ اُن میں زیادہ تعداد خواتین کی تھی۔ ایرانیوں کے لیے ترکی کا ویزا درکار نہیں۔ دفتری اوقات کے مطابق یہ ایرانی سرحد عبور کرنے والا آخری قافلہ تھا۔ تمام خواتین سیاہ چادروں اور سیاہ برقعوں میں حجاب میں تھیں۔ مجال ہے کسی کا ایک بال بھی نظر آئے۔ ایرانی اہلکار نے ایران ترکی سرحد پر لگا قفل کھولا۔ اس قافلے میں سب سے پہلا قدم میرا تھا جس نے ترک سرحد کو چھوا۔ میرے بعد چالیس پچاس کے قریب ایرانی مردو خواتین ترک سرحد میں داخل ہوئے۔ ترک امیگریشن نے میرا ویزا دیکھنے کے بعد ترکی میں داخلے کی مہر میرے پاسپورٹ پر ثبت کردی اور پھر اس کے بعد سب ایرانی مسافرین کے پاسپورٹ چیک ہوئے۔
چیک پوسٹ سے باہر آیا تو ایک نئی دنیا میرے سامنے تھی۔ اتاترک کا مجسمہ اور سرخ رنگ کا لہراتا ترک پرچم۔ بے تاب نگاہوں نے جب اپنی دائیں جانب دیکھا توآنکھیں ششدر رہ گئیں۔ لاہور سے چلا مسافر، تین سو ڈالروں پر انحصار کرتے طویل جہاں گردی، چڑھتی جوانی، نئے جہانوں کو پالینے کا تجسس اور خوشی، نہ یقین آنے والی ملی جلی کیفیت۔ میری دائیں جانب کوہِ ارارات تھا۔ وسط سے لے کر چوٹی تک برف پوش۔ اسی برف میں صدیوں سے پوشیدہ حضرت نوح ؑ کی کشتی ۔ ’’اوہ! تو کیا میں واقعی لاہور سے بسوں، ٹرینوں اور ٹرکوں پر سفر کرتے کرتے ارارات کے پہلو میں پہنچ گیا ہوں۔‘‘ ایسی خوشی کہ جس کا یقین نہیں آتا۔ بچوں کی طرح ناچنے کو جی چاہ رہا تھا۔ ارارات۔۔۔ اوہ، اس کے دوسری طرف سوویت یونین کی قدیم مسیحی ریاست آرمینیا۔ شام ڈھل رہی تھی۔ اگست کی 29تاریخ اور سردی کی لہر۔ جہاںگرد کوہ قاف کے پہلو میں کھڑا تھا۔ مجھے اب ترکی کے اندر پہلی بستی دوغبا یزید پہنچنا تھا۔ دُور دُور تک کسی سواری کا نشان نہیں تھا۔ یکایک ایران سے آئے دوسرے مسافرین کا غول ترکی میں داخل ہوا۔ یہ وہی ایرانی تھے جو قطار میں سرحد عبور کرتے میرے ہمراہ تھے۔ سیاہ چادریں اور برقعے یوں اترے کہ جیسے آندھی اڑا لے گئی ہو۔ انقلابِ ایران کے بعد اس سیاہ چادر نے دنیا بھر کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔ عالمی سیاست کے حوالے سے کتابوں کے ٹائٹل سے لے کر اخباروں تک ایران کے ذکر کے ساتھ سیاہ چادر پوش ایرانی خواتین کی تصاویر۔ مگر سرحد بدلتے ساتھ ہی سب کچھ بدل گیا۔
ترکی میں میری پہلی رات دوغبا یزید کے ایک معمولی سے ہوٹل میں گزری۔ صبح ہوئی تو توپوں کی آوازوں نے مجھے گہری نیند سے جگا دیا۔ ہڑبڑا کر اٹھا۔ توپوں کے گولے رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ یہ کیا ہے؟ نیند میں دوڑتا ہوٹل کے مینیجر کے پاس پہنچا۔ اس نے ترک الفاظ میں مدعا بیان کیا کہ ’’جنگ، عسکر۔‘‘ اوہ تو کیا جنگ شروع ہوگئی ہے، روس ترکی کے مابین؟ دل دھڑکنے لگا۔ اپنی بے چینی، خوف اور تجسس کے سبب گلی میں آیا تو ترک فوجی مارچ پاسٹ کررہے تھے۔ جہاں گرد حیران تھا۔ تو جنگ شروع ہوگئی، سوویت یونین اور ترکی میں؟ فوجی تو جوش میں تھے لیکن گائوں کے لوگ مطمئن۔ یقینا معاملہ کچھ اور ہے! 30اگست کی پہلی صبح ترکی میں۔ 30اگست ترک ’’عیدِ فتح‘‘ (ظفر بیرام) کے طور پر مناتے ہیں۔ 30اگست 1922ء کو ترکوں نے غازی مصطفی کمال پاشا اتاترک کی قیادت میں غیرملکی حملہ آوروں کو دُملوپنار کے میدان میں آزادی کی آخری جنگ میں شکست سے دوچار کیا۔ ترکی میں عیدالفطر اور عیدالضحیٰ اور عیدِ ظفر (عیدِفتح) ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر منائی جاتی ہیں۔ جہاں گرد ،دوغبا یزید کے باسیوں کے ساتھ گائوں کی گلیوں میں عیدِ فتح کے جشن میں شامل ہوگیا۔ ترکی میں میری پہلی صبح۔ جشن ِفتح۔ اور سامنے خاموش سفید برف میں ڈھکا ارارات۔
“