کوئی زین العابدین بن علی سے، حسنی مبارک سے، بشار الاسد سے، مراکش اور اردن کے بادشاہوں سے کہے کہ سادہ لوح حکمرانو! تم میں ذرا بھی عقل ہوتی تو آج تمہاری کشتیاں منجدھار میں نہ ہوتیں، تمہیں جان کے لالے نہ پڑے ہوتے اور تمہارے شہروں میں باغیوں کے جلوس نہ نکل رہے ہوتے۔
افسوس! تم طفلان مکتب نکلے۔ تم ’’سیاست‘‘ کی ابجد سے بھی نابلد ہو! ذہانت تمہارے دماغوں میں نہیں، ٹخنوں میں ہے تم میں اتنی بھی دور اندیشی نہیں جتنی پاکستانی سیاست دانوں کے پالتو جانوروں میں ہے۔ اے مشرق وسطیٰ کے تیرہ بخت حکمرانو! کاش تم پاکستان کے مقتدر طبقات کے سامنے زانوائے تلمذ تہہ کرتے اور سیکھتے کہ اقتدار کو دوام کس طرح بخشتے ہیں، بھوک سے بلکتی ’رعایا‘ کو مطمئن کس طرح کرتے ہیں اور جمہوریت کے نام پر بادشاہی کس طرح کرتے ہیں!
اے حسنی مبارک! تمہیں تو صرف تیس سال ہوئے ہیں تخت پر بیٹھے، اے بشار الاسد! تم تو جمعہ جمعہ آٹھ دن کے لڑکے ہو، دس سال ہوئے ہیں تمہیں تاج پہنے اور اگر تیس سال تمہارے باپ کے بھی شامل کئے جائیں تب بھی یہ مدت چالیس سال سے زیادہ نہیں بنتی اور اے زین العابدین ابن علی! تمہاری قسمت توکتے والے کاف کے ساتھ کسمت نکلی کہ تم تو صرف چوبیس سال سونے چاندی کے برتنوں میں کھانا کھا سکے! تم میں حکمت اور تدبر ہوتا تو تم پاکستانی حکمرانوں کی طرح باسٹھ سال تک عیش و عشرت کے مزے لیتے اور ابھی تو کوئی آثار ہی نہیں کہ عیش و عشرت کا یہ سلسلہ کہیں رکے گا!
مشرق وسطیٰ کے معصوم اور سادہ دل آمرو! تم مار کھا گئے، تم پاکستان سے سبق سیکھتے تو ’’جمہوریت‘‘ کا جال بچھاتے اور اپنے اپنے خاندانوں کو دوامی اقتدار عطا کرتے، بے وقوفو! تم ایک پیپلزپارٹی بناتے، تم نون لیگ اور قاف لیگ کی تشکیل کرتے، تم اے این پی کا چھاتا تانتے، تم عقل کے چاک پر جے یو آئی کا برتن بناتے جس کا پیندا ہی نہ ہوتا۔ پھر اپنے اپنے خاندانوں کو ان جماعتوں پر مسلط کر دیتے، کسی ایم بی اے کو یا کسی سابق صحافی کو اپنا منشی بناتے، تمہارے بیٹوں، تمہارے پوتوں اور تمہارے پڑپوتوں کو بھی اگر کوئی اقتدار سے باہر کر دیتا تو تم میری داڑھی مونڈ دیتے!
اگر تم یہ بھی نہ کر سکتے تو مڈل کلاس کے نام پر ایک ایسی پارٹی بناتے جو جاگیرداری کی مخالف ہوتی۔ تم خود ولایت میں جا بیٹھتے، جاگیرداری کی مخالفت میں ٹیلی فون پر تقریریں کرتے اور ہر حکومت میں جاگیرداروں کے رفیق کار بنتے۔ یہ بھی مشکل تھا تو انصاف کے نام پر ایک پارٹی بنا لیتے۔ چار سو کنال کے گھر میں رہتے اور ان لوگوں کی باتیں کرتے جو تین مرلے کے گھروں میں رہتے ہیں۔ تمہارے خلاف کوئی جلوس نکلتا نہ کوئی تمہیں پارٹی کی سربراہی سے استعفی کا کہتا اور نہ تمہیں سعودی عرب میں پناہ لینا پڑتی!
تم تو کچے شکاری اور اناڑی کھلاڑی نکلے۔ کرپشن کے انڈیکس میں پاکستان تمہارے سارے ملکوں کی نسبت بدتر پوزیشن میں ہے، خواندگی کے تناسب میں تم کئی درجے اوپر ہو، تیونس میں صرف پچیس فیصد لوگ ان پڑھ ہیں۔ مصر میں صرف اٹھائیس فیصد، شام میں انیس فیصد، جب کہ پاکستان میں پجاس فیصد سے بھی زیادہ ہیں۔ پھر بھی تم مار کھا گئے۔ تم نے غلطی یہ کی کہ صرف صدارت اور بادشاہی کو اقتدار سمجھ بیٹھے یہ نہ سمجھ سکے کہ اصل اقتدار تخت صدارت یا تاج شہنشاہی نہیں، اصل اقتدار یہ ہے کہ وزارتیں اور اسمبلیاں ہمیشہ تمہارے خانوادوں میں رہیں، تمہارے محلات کو کوئی نہ آگ لگا سکے، تمہارے خزانے بیرون ملک محفوظ رہیں، تمہاری نسلیں حکومت میں رہیں، تمہارے کارخانے زیادہ ہوتے رہیں، تمہاری جاگیرداریاں سلامت رہیں، تمہاری سرداریاں سدا بہار ہوں، تمہارے خاندان قانون سے ماورا ہوں، تمہارے راستوں پر ٹریفک رکی رہے، کالم نگار تمہارے ملازم ہوں، اینکر پرسن، تمہارا راتب کھائیں، اخباروں میں تمہاری تصویریں ہوں، الیکشن ہارنے کے باوجود تم ٹیلی ویژن چینلوں پر ہر شام جلوہ افروز رہو، کبھی اپوزیشن کا لبادہ اوڑھو کبھی اسلام کے درد میں دہرے ہو جائو، کبھی عوام کی غم خواری میں تقریریں کرو اوریوں اقتدار باسٹھ سال تک تمہارے خاندان ہی میں رہے۔
کُند ذہن عرب ڈکٹیٹرو! کاش تم منافقت کو بروئے کار لاتے اور اس انجام سے بچ جاتے جو، اب سامنے نظر آ رہا ہے۔ تم آمر تھے اور تم نے آمریت کوخفیہ نہ رکھا، تمہیں چاہئے تھا کہ آمریت کی مذمت میں الفاظ کے دریا بہا دیتے لیکن ایسی مضبوط گدی نشینی کا اہتمام کرتے اور ایسا مستقل فیوڈل نظام اپناتے کہ اقتدار نسل درنسل تمہاری دہلیز پر سجدہ ریز رہتا۔ تم سے زیادہ دوام تو بگٹی خاندان کے اقتدار کو ہے جس کا سپوت لاہور میں اعلان کرتا ہے کہ سرداری نظام کے بغیر چارہ نہیں اور میاں نواز شریف اس کی سرپرستی کرتے ہیں۔ تم سے زیادہ خوش قسمت تو سندھ کے روحانی رہنما ہیں جن کے مشاغل ’’غیر روحانی‘‘ ہیں لیکن لوگ ان کی طرف پیٹھ تک نہیں کر سکتے اور انکے اقتدار کو دور دور تک کوئی خطرہ نہیں، کاش تم بھٹوئوں ، زرداریوں، شریفوں، چوہدھریوں، گیلانیوں، قریشیوں، کھوسوں، لغاریوں، بگتیوں، مینگلوں، باچا خانوں اور مخدوموں سے درس آمریت لیتے اور اپنی آئندہ نسلوں کو وہی تحفظ دے سکتے جو بلاول، مونس‘ حمزہ اور ہمارے دوسرے شہزادوں کو حاصل ہے۔ یہ تمہارا کیسا حسن انتظام ہے کہ تمہارے خلاف جلوسوں پر جلوس نکل رہے ہیں اور عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر تمہیں تنکوں کی طرح بہا لے جا رہے ہیں۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ دنیا میں ایک ملک ایسا بھی ہے۔ جہاں عوام کے پاس برقی روشنی نہیں، اندھیرے ہیں،
سی این جی نہیں، قطاروں میں پورے پورے دن کی ذلت ہے، چینی نہیں زندگی کا زہر ہے،
آٹا نہیں، بھوک کا سنکھیا ہے،
امن و امان نہیں، دہشتگردی کا جہنم ہے
لیکن پھر بھی کوئی جلوس ہے نہ شورش، کوئی احتجاج ہے نہ بغاوت، یہ ہے حسن تدبیر اور یہ ہے فن حکمرانی!
اقتدار کے ہارے ہوئے قمار بازو! میں نے واشنگٹن پوسٹ میں پڑھا کہ بحیرہ روم کے کنارے تم میں سے ایک کے محل کو عوام نے نذر آتش کر دیا۔ میں نے تمہاری بدقسمتی پر گریہ کیا اور میں نے تمہاری کم فہمی پر خندہ کیا۔ تم سے تو ہمارے لیڈر کئی گنا زیادہ باتدبیر اور دور اندیش ہیں جن کے محلات کو کوئی ٹیڑھی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ فرانس ہو یا جدہ، انگلستان ہو یا رائے ونڈ، ہالہ ہو یا کیٹی جتوئی، کراچی ہو یا گجرات یا اسلام آباد، ہمارے محلات وسیع سے وسیع تر ہو رہے ہیں۔ کسی کو ہماری گاڑیوں کی تعداد معلوم ہے نہ خدام کی! ہمارے پاس لاتعداد اسلحہ ہے، ہم انکم ٹیکس نہیں دیتے، پولیس ہماری کنیز ہے اور ضلعی انتظامیہ ہماری داشتہ، ہم اپنے جس رشتہ دار کو چاہیں، کسی بھی ملک میں تعینات کر سکتے ہیں۔ ہمارے لئے ہوائی جہازوں کے ٹائم ٹیبل بدل دیئے جاتے ہیں اور ٹرینوں کی باگیں کھینچ لی جاتی ہیں۔ قانون ہمارے جوتوں کے نیچے آئی ہوئی مٹی سے بھی زیادہ کمزور ہے۔
بدقسمت عرب حکمرانو! یہ ہوتا ہے اقتدار اور یہ ہوتا ہے دوامی اقتدار !!