کیا وائرس بیمار ہو سکتے ہیں؟
جی۔
کیسے؟
وائرل انفیکشن سے۔
کچھ وائرس ایسے ہیں جن کی زندگی کا انحصار دوسرے وائرس پر ہے۔ یہ وائروفیج ہیں۔
ارتقا کا مسلسل عمل بے چین ہے، بے قرار ہے اور ہر ممکن کو ڈھونڈ نکالنے والا ہے۔ اس قدر زبردست کہ اس کے ڈھونڈے گئے کونے کھدروں کی تلاش ہمیں حیران کر دیتی ہے۔ 2008 میں ملنے والا پہلے وائروفیج سپوٹنک کی دریافت بھی ایسی ہی تھی۔ اس کو فرنچ محققین نے پیرس کے پانی کے ٹاور سے ڈھونڈا۔ یہ بہت ہی چھوٹے وائرس اکیلے نہیں ملتے۔ یہ بڑے وائرس کے ساتھ ملتے ہیں۔ ان بڑے وائرس کے ساتھ جس کو یہ انفیکٹ کر چکے ہوتے ہیں۔
بیمار ہو جانے والے بڑے وائرس، جیسا کہ میمی وائرس یا پینڈورا وائرس خود 2003 میں دریافت ہوئے تھے۔ اس لئے وائرولوجی کی سائنس میں یہ بڑے وائرس اور ان کو بیمار کر دینے والے وائروفیج، یہ سب خود ایک نیا فیلڈ ہے۔
بڑے وائرس ایک یک خلوی جاندار امیبا کو بیمار کرتے ہوئے ملے تھے اور دنیا بھر میں مل چکے ہیں۔ ابھی ہمیں علم نہیں کہ یہ انسانوں کو بیمار کرتے ہیں یا نہیں۔ یہ انسانوں کے اندر بھی ملے ہیں اور نمونیا کے شکار افراد میں سے بھی لیکن ابھی ہمیں یہ علم نہیں کہ بیمار کر دینے میں ان کا بھی کوئی ہاتھ تھا یا یہ بس وہاں پر اپنے کام سے کام رکھے ہوئے تھے۔
یہ جائنٹ وائرس بہت ہی بڑے ہیں (وائرس کی دنیا کے اعتبار سے)۔ اپنے سائز اور جینیاتی پیچیدگی کے لحاظ سے یہ بیکٹیریا کے قریب ہیں۔ میمی وائرس 500 سے 800 نینومیٹر چوڑا ہے اور جینوم کے 12 ملین بیس پئیر رکھتا ہے۔ پنڈورا وائرس اس سے بھی بڑا ہے۔ سپوٹنک وائروفیج اپنا نشانہ ان میمی وائرس کو بنا لیتا ہے۔ اس کا اپنا سائز محظ 50 نینومیٹر کے قریب ہے اور جینوم کے صرف 18000 بیس پیئیر موجود ہیں۔ (بیکٹریا کو بیمار کرنے والے لیمڈا وائرس بھی اتنا ہی سائز رکھتا ہے جبکہ فلو وائرس کا جینوم اس سے بھی سادہ ہے)۔
جو شے عجیب ہے، وہ یہ کہ اگرچہ یہ بڑے وائرس بڑے ہیں لیکن کسی حملہ آور کے لئے میزبان ہو سکتے ہیں؟ ایسا لگتا نہیں تھا۔ وائرس ڈی ان اے اور پروٹین سے بنتے ہیں لیکن ان کے پاس خلیاتی ری پروڈکشن کے آلات نہیں۔ جس سے یہ اپنی کاپیاں بنا سکیں۔ ان کے پاس ترجمہ کرنے والے آلات نہیں جن سے پروٹین بن سکے۔ اس وجہ سے وائرس کو بڑھنے کے لئے کوئی میزبان درکار ہے۔
وائرس میزبان خلیے میں گھس جاتے ہیں اور اس کے سامان پر قبضہ کر کے وائرس بنانے کی ننھی منی سے فیکٹریاں بنا لیتے ہیں۔ میزبان خلیے کے بغیر وائرس اپنی تعداد نہیں بڑھا سکتے۔ لیکن وائروفیج کے معاملے میں ان کا میزبان خود ہی ایک وائرس ہے۔ میمی وائرس خود اپنی ڈی این اے اور پروٹین کو کاپی نہیں کر سکتے۔ ان کو خود امیبا کو بیمار کرنا پڑتا ہے تا کہ ری پروڈیوس کر سکیں۔ تو پھر یہ مہمان نوازی کیسے کر سکتے ہیں؟ یہاں پر وائروفیج کی ایک چالاکی کام آتی ہے۔
جب میمی وائرس امیبا کو انفیکٹ کر رہا ہوتا ہے، اس وقت یہ وائروفیج میمی وائرس کو۔ جس وقت میمی وائرس امیبا کے نظام کو قابو میں کر کے وائرس فیکٹریاں لگاتا ہے، یہ وائرس ان سسٹم میں نقب لگا کر ان فیکٹریوں کو "ہائی جیک" کر لیتا ہے۔ وائرس کی یہ فیکٹریاں ان بڑے وائرس کے بجائے وائروفیج پیدا کرنے لگتی ہیں۔ یہ وائرس خود امیبا کے نہیں بلکہ ان بڑے وائرس کے طفیلیے ہیں۔ وائرس میں جو بنیادی چیز نہیں ہوتی، وہ رائبوزوم ہے۔ سائنسدان ان رائبوزوم کی مدد سے جانداروں کی آپس میں رشتہ داریوں کے بارے میں جانتے ہیں۔ وائرس اس پیراڈائم میں فِٹ نہیں ہوتے۔ تاریخی طور پر وائرس کو زندگی کے درخت میں شمار نہیں کیا گیا۔ شاید یہ ہماری "خلیہ پرستی" ہو۔ اگر وائرس کے رایبوزوم نہیں تو خلیاتی زندگی کے پاس کیپسڈ نہیں جو ان کی باہری تہہ بناتے ہیں۔ جائنٹ وائرس اس بحث کو مزید پیچیدہ کر رہے ہیں۔ ان کے پاس بڑا جینوم بھی ہے اور پیچیدگی بھی۔ اور اس کے علاوہ پروٹین بنانے والی مشینری کا کچھ حصہ بھی جو ہمارا خیال تھا کہ صرف خلیاتی زندگی کی خاصیت ہے۔
وائروفیج کا ڈی این اے اپنے میزبان وائرس کے ساتھ ویسے ہی مل جاتا ہے جیسے وائرل ڈی این اے اپن میزبان خلیے کے ساتھ۔ تو اگر ان کو "شکار" کیا جا سکتا ہے اور خلیاتی زندگی کی طرح ان کو بیمار کیا جا سکتا ہے۔ یہ وائرس کے زندہ ہونے کے حق میں ایک دلیل استعمال ہو سکتی ہے۔
ابھی تک ہم نے صرف 18 وائروفیج دریافت کئے ہیں۔ اینٹارٹیکا کی جھیل میں بھی اور فرانس میں کنٹیکٹ لینز محفوظ کرنے والے محلول میں بھی۔ ان کو جینومک سٹڈی کی مدد سے تلاش کیا گیا ہے۔ ان کی زیادہ تفصیل سے ہم ابھی واقف نہیں۔ یہ دیکھنے میں کیسے لگتے ہیں اور کس کو متاثر کرتے ہیں۔ لیکن ہمیں لگتا ہے کہ ان جیسے بہت سے اور بھی ہیں۔ وائروفیج بھی اور جائنٹ وائرس بھی۔
کیا وائرس زندگی کی قسم ہیں یا نہیں؟ اس سوال پر بائیولوجسٹ ابھی جلد متفق ہوتے نظر نہیں آتے کیونکہ ارتقا نفیس ڈبوں اور ان پر لگے لیبل کی صورت میں نہیں۔ وائرس کی وائرس پر حملہ کرتی دنیا میں ہمارے جاننے کو ابھی بہت کچھ باقی ہے۔ ایک تسلی یہ سہی کہ ہم کو بیمار کر دینے والے خود بھی بیمار ہو جانے سے شاید محفوظ نہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...