جب ہم قدرتی ماحول کے بارے میں سوچتے ہیں تو خالص، صحت بخش اور انسانی مداخلت سے پاک ماحول کا تصور کرتے ہیں۔ سرسبز جنگل، صاف پانی کے نیلگوں دریا اور اونچی گھاس والے وسیع میدان۔ اور یہ تصور ہمیں ایک اور خیال کی طرف لے جاتا ہے۔ جو قدرتی ہے، وہ ہمیں ضرر نہیں پہنچائے گا۔ اور اسی کا معکوس ۔۔۔ جو نیچرل نہیں، اس میں کچھ گڑبڑ ہے۔ کیا یہ تصور ٹھیک ہے؟
جب ہم اس کا قریب سے جائزہ لیتے ہیں تو اس کے دو ستون دھڑام سے گر پڑتے ہیں۔ پہلا یہ کہ “جو قدرتی ہے، وہ اچھا ہے” اور دوسرا یہ کہ “ہمارے پاس قدرتی کی تعریف کرنے کا کوئی طریقہ موجود ہے”۔
قدرت میں ہر شے اپنی حفاظت کے طریقے رکھتی ہے۔ اور ہماری تمام خوراک جانداروں کے اعضاء ہیں جو وہ ہمیں خوشی خوشی نہیں دیتے۔ (پھل اس میں استثنا ہیں۔ پودے انہیں ہمیں اپنے بیج بکھیرنے کے لئے دیتے ہیں)۔ پودوں نے اپنے کھانے والوں کو دور رکھنے کے لئے طرح طرح کے کیمیکل بنائے ہیں جو اپنے دفاع کے لئے ہیں۔ دنیا کا سب سے مہلک ترین زہر، بوٹیولم آکسائیڈ، قدرتی ہے۔ کئی قدرتی زہر ہم صاف کر کے اور احتیاط سے اور پیمائش کر کے دی گئی مقدار میں بوقتِ ضرورت کھاتے ہیں۔ ان کو ہم ادویات کہتے ہیں۔ لیکن یہاں یہ ملحوظِ خاطر رہے کہ جن پودوں میں یہ کیمیکل ہیں، وہ انہیں کیمیائی جنگ کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
اور یہ جو پھل آج ہم کھاتے ہیں، ان کی موجودہ شکل بھی سینکڑوں یا ہزاروں برسوں کی چھیڑ چھاڑ کا نتیجہ ہے۔ کئی قدرتی پھل بھی ہمیں بیمار کر سکتے ہیں۔ “قدرتی بادام” تھوڑی مقدار میں ہمیں مار بھی سکتے ہیں۔
اور ایسا نہیں کہ ہمیں اس کا علم نہیں ہے۔ ہر کوئی یہ جانتا ہے۔ اگر کسی کو کہیں پر کوئی نامعلوم پودا ملے جس کا پھل کی شناخت نہ ہو تو کوئی بھی ایسا نہیں کرے گا کہ ایسے نامعلوم پھل کو منہ میں ڈال لے۔ اور اگر آپ ایسا کریں گے تو بہت امکان ہے کہ بیمار پڑ جائیں گے یا فوت بھی ہو سکتے ہیں۔
اور دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ قدرتی کی تعریف کیسے کی جائے؟ خوراک کا بہت ہی کم حصہ ایسا ہے جسے قدرتی کہا جا سکتا ہے۔ شکار کئے گئے پرندے یا جانور، جنگلی بیریاں اور مشروم یا سمندری مچھلی کے علاوہ باقی خوراک مصنوعی چھیڑ چھاڑ کا نتیجہ ہے۔ کیا سیب مصنوعی پھل ہے؟ اسکا کوئی معروضی طور پر درست جواب نہیں۔ آج کا کسی بھی نسل کا سیب ہزاروں سال کی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔ اور اگر ہم سیب کو قدرتی مان لیں تو کوئی اگر سیب کی چٹنی بنا لے تو کیا وہ قدرتی خوراک ہو گی؟ اور اگر اس چٹنی میں چینی ڈال دے؟ کتنی پراسسنگ کی جائے کہ ہم کہیں گے کہ یہ قدرتی نہیں؟ یہ کوئی آسان اور سیدھی تعریف نہیں ہے۔
اور اگر کوئی مالیکیول لیبارٹری میں بنایا جائے۔ مثلاً، لیموں سے کشید کی گئی وٹامن سی اور لیبارٹری میں بنائی گئی وٹامن سی میں تو کوئی فرق نہیں۔ ایٹم یا مالیکیول کو تو پتا نہیں ہوتا کہ وہ کہاں سے آئے۔ ان کی خاصیت کا تعلق ان کی سورس سے نہیں۔
قدرتی کے لفظ پر بہت سی چیزیں بکتی ہیں تو اسکی تعریف کیا ہے۔ اس کے لئے ہم فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی گائیڈلائن دیکھتے ہیں جس میں اس کی تعریف ایسے کی گئی ہے۔
“فوڈ سائنس کے نکتہ نظر سے کسی بھی خوراک کو نیچرل کہنے کی تعریف مشکل ہے۔ اس لئے ایف ڈی اے اس اصطلاح کی تعریف نہیں کر سکتی۔ اگر کسی چیز میں رنگ، مصنوعی ذائقہ اور سنتھیٹک شے کا اضافہ نہیں کیا گیا تو ایجنسی کو اعتراض نہیں ہو گا اگر کوئی اسے نیچرل کہنا چاہے”۔
مارکیٹنگ میں نیچرل کے لفظ کا اضافہ موثر ہے اور اس کی مدد سے اضافی قیمت لی جا سکتی ہے جس سے خریدار کی تسلی ہو جاتی ہے کہ پیکنگ پر “قدرتی” لکھا ہوا ہے۔ خواہ کاسمیٹکس ہوں، غذا یا ہربل ادویات۔
آرگینک فوڈ انڈسٹری کی پوری صنعت اس لفظ کی مارکیٹنگ پر کھڑی ہے۔ نہ صرف یہ صنعت زمین کا اچھا استعمال نہیں کرتی اور ہر ایک کے لئے خوراک کی قیمت میں بھی اضافہ کرتی ہے اور نتیجے میں ماحول کے لئے ضرر رساں ہے، بلکہ آرگینک فوڈ میں کیڑے مار ادویات بھی قدرتی استعمال کی جاتی ہیں اور کئی بار یہ ماحول کو سنتھیٹک ادویات سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں۔ روٹینون اور کاپر سلفیٹ جیسی قدرتی کیڑے مار ادویات زہریلی ہو سکتی ہیں۔ لیکن ان میں احتیاط اس لئے نہیں کی جاتی کہ ان کو “قدرتی” سمجھا جاتا ہے۔
جب ہمیں اس چیز کی سمجھ آ جائے کہ نیچرل کے لفظ کی کوئی خاص تعریف نہیں اور کوئی وجہ نہیں کہ یہ سمجھا جائے کہ قدرتی ہونا لازمی طور پر صحت کے لئے بہتر ہونا ہے تو پھر سمجھ آ جاتی ہے کہ “نیچرل” کا لفظ مارکٹنگ کے لئے استعمال ہونے والے ہوشیار لیبل کے سوا کچھ نہیں۔
نہیں، اسکا یہ مطلب نہیں کہ قدرتی ہونا مضر ہے یا ہر مصنوعی شے محفوظ ہے۔ نہیں، بنیادی نکتہ یہ نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی نئی چیز میں احتیاط کی ضرورت ہے اور اس کے محفوظ ہونے کے ٹیسٹ کی اور شواہد کی ضرورت ہے۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کیا مفید ہے اور کیا مضر؟ اس کے بارے میں سوچنے اور پوچھنے کے لئے سوال کچھ اور ہیں۔ صرف مارکیٹنگ کا ایک بے معنی لیبل اور دعویٰ اس کے لئے کافی نہیں ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...