ایک ایسا واقعہ جس میں میڈیکل سائنس کی نفی ہو گئے میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ گولی کے داخل ہونے کا زخم چھوٹا ہوتا ہے اور خارج ہونے کا زخم بڑا ہوتا ہے، اس کیس میں معاملات اُلٹ تھے داخلی زخم بڑا تھا اور خارجی زخمم چھوٹا تھا سونے پر سہاگہ یہ کہ دوسری طرف صوبے کا چیف سیکریٹری تھا اُس کابھی کو ئی قصور نہیں تھا- کوئی بھی ہوتا اسی طرح سوچتا۔
اتوار کا دن تھا میں سو رہا تھا موبائل فون کی گھنٹی پر فون اُٹھایا تو دوسری طرف ایڈیشنل آئی جی کراچی اقبال محمود صاحب تھے انھوں نے کہا کہُ “نیاز فیز 8 میں واقع ہو گیا ہے آئی جی صاحب بھی آ رہے ہیں آپ جلدی پہنچو” میں نے جلدی میں کپڑے تبدیل کئے اس وقت ڈرایور اور گن میں وغیرہ نہیں آئے تھے میں اکیلا ہی بتائے ہوئے پتہ پر پہنچ گیا– آئی جی اظھر فاروقی صاحب، سی سی پی او کراچی اقبال محمود صاحب، Dآئی جی ساؤتھ جاوید بخاری صاحب اور دیگر افسران بھی ایک دوسرے کے پیچھے آتے گئے۔
واقع یہ تھا کہ بلوچستان کے چیف سیکریٹری کے بھائی جو خود کراچی میں گریڈ 18 کا سی ایس ایس افسر تھا اس کا قتلُ ہو گیا تھا، عل صبح کسی نے 15 پولیس کنٹرول پر فون کیا تھا کہ فیز 8 میں ایک کرولا کار جس کی ہیڈ لائیٹس آن ہیں اور اسٹارٹ حالت میں ہے اُس میں ایک نوجوان کی لاش پڑی ہے، تھانے کی موبائل فورن جا وقوع پر پہنچ گئی موبائل افسر نے متوفی کی سائیڈ پاکٹ سے پرس نکال کر چیک کیا تو اُس میں متوفی کا سروس کارڈ تھا، موبائل افسر نے ایس ایس پی ساؤتھ کو اطلاع کر دی، ہماری پہنچنے کے بعد وارثان بھی پہنچ گئے، متوفی 25/26 سال کا جوان تھا، ڈرائیوگ سیٹ پر نوجوان کے ہاتھ میں پسٹل اور خون آلود سر اسٹیرنگ پر جھکا ہوا تھاپسٹل کی گولی نوجوان کی پیشانی سے راستہ بناتی ہوئی سر کے پچھلے طرف سے پار ہو کر سیٹ کے بیک ریسٹ سے نکلتے ہوئے کار میں غائب ہو گئی تھی، ساتھ والی سیٹ پر موبائل فون بند حالت میں اور پسٹل کا ڈبہ پڑا تھا، اور جیساکہ کار کو میں اور Dآئی جی ساوتھ جاوید بخاری صاحب ایک ساتھ چیک کر رہے تھے کار کی پچھلی سیٹ پر خاتون کے اوڑھنے والی چادر سے پسٹل کی گولی کا سکہ مل گیا، کار کے ڈیش بورڈ کے گلو باکس سے گاڑی کے کاغذات کے ساتھ پسٹل کا لائسنس اور8 دن پہلے خریدی ہوئی پسٹل کی رسید بھی مل گئی اور بد قسمتی سے اُسی پسٹل کی گولی سے نوجوان افسر کا کام تمام ہوگیا تھا، وارثان نے بتایا کہ متوفی کل رات اپنے گاوں سے 11 بجے اپنے فیملی کے ساتھ کلفٹن پھنچا تھا، فیملی اور بچے کار سے اُتر کر اوپر فلیٹ پر چلے گئے نوکر کو سامان دیکر صاحب نے کہا کہ جلدی واپس آرہا ہوں موقع کی ضروری کاروائی کے بعد باڈی پومارٹم کیلئے سول ہاسپیٹل روانہ کردی گئی جیسا کہ اہم مسئلہ تھا آئی جی صاحب نے مجھے حکم دیا کہ نیاز آپ نے یہ کیس خود دیکھنا ہے، کار کو ضروری فنگر پرنٹ کی کاروائی کے بعد تھانے منتقل کر دیا گیا، واقع کی ابتدائی حالات واقیات سے خودکشی کا کیس لگ رہا تھا،
دوسرے دن آئی جی صاحب نے کیس پر سی پی او میں میٹنگ بُلا لی جس میں سارے سینئر آفسران موجود تھے میں نے ملٹی میڈیا پر بریفنگ دی، واقعہ بظاہر تو خودکشی کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا مگر متوفی کو لگنے والی گولی کا داخلی زخم بڑا تھا اور خارجی زخم چھوٹا تھا یہ سب کچھ میڈیکلُ سائنس کے بر عکس تھا، آئی جی صاحب و دیگر افسران کا اس کے متعلق سوالات کا میرے پاس بھی کوئی جواب نہیں تھا کیوں کہ ایسی صورت حال میرے سامنے بھی پہلی بار آئی تھی۔
جیساکہ میڈیکل میری فیلڈ نہیں تھی
میرے سوالات کا جوابات کوئی میڈیکولیگل ڈاکٹر ہی دے سکتا تھا، لہاذا میں نے پوسٹ مارٹم کرنے والے پولیس کے ڈاکٹر سے فون پر رابطہ کر کے اُن سے ملنے چلا گیا اُس کی بھی میری طرح معلومات کم تھیں۔ مجھے تسلی نہیں ہوئی ۔اسی طرح میں نے آغا خان اور دوسری بڑی ہاسپیٹل کے کھوپڑی کے تقریباً 5/6 کے قریب ڈاکٹر و پروفیسر حضرات سے مُلاقات کر ڈالی آخر میں مجھے ڈؤ میڈیکل کالج ایک پروفیسر سے میرے سوالات کا جواب مل گیا، اُس نے بتایا کہ کھوپڑی کے خول کی ساخت شیشہ یا مٹی کے بنے گھڑے کے طرح ہوتی ہے، جس طرح شیشہ پر آپ فائر کریں گے شیشہ میں سوراخ تو ہوگا مگر گولی 3/4 انچ تک یا زیادہ شیشہ کو توڑ دے گی۔ اُس نے نیٹ سے پُرانی کاروں پر فائرنگ کے کچھ تصاویر دکھاکر بتایا کہ انسانی کھوپڑی کی ساخت پُرانے کار کے شیشہ کی طرح ہوتی ہے۔ اور کاروں میں پرانے شیشوں کی جگہ ٹیمپرڈ شیشہ لگایا جا رہا ہے تاکہ کسی حادثے کی صورت میں کار میں سوار افراد کو شیشہ سے کوئی نقصان نہ ہو۔
جیساکہ مدعی پارٹی کے لوگ بڑے تگڑے اور قبا ئلی لوگ تھے اور پورا گھرانہ سی ایس ایس پاس بڑے آفسر تھے اس لیئے مجھ سے کوئی بھی رابطہ میں نہیں تھا، کچھ دنوں بعد آئی جی صاحب نے دوبارہ مجھے سی سی پی او کراچی کے ساتھ دفتر بُلالیا اور کہا کہ بلوچستان کے چیف سیکریٹری صاحب آپ کی تفتیش سے بلکُل مطمعین نہیں ہیں اُن کی کسی قبیلے سے دشمنی چل رہی ہے اُن کا کہنا ہے کہ ان کے بھائی کو دشمنوں نے پیچھے سے گولی مار کر پسٹل ہاتھ میں تھما دیا ہے اور پولیس کی نااہلی ہے کہ قتل کیس کو خودکشی کا رنگ دے کر بری ذمہ ہو رہے ہیں اور کیس خراب کر رہے ہیں،
میں نے آئی جی صاحب اور سی سی پی او صاحب کو کہا کہ سر اس موقعہ پر ہمیں ذمیداری کا ثبوت دینا ہے، ہماری چھوٹی سی غلطی کی وجہ سے بیگناہ لوگوں کے ساتھ بڑی زیادتی ہو جائے گی، آپ چیف سیکریٹری صاحب کے ساتھ بات کر لیں میں کوئٹہ چلا جاتا ہوں اگر وہ مطمعین نہ ہوئے تو آپ کیس کسی دوسرے افسر کے حوالے کردیں یا اُن کی مرضی سے کسی ایڈیشنل آئی جی کی سربراہی میں ٹیم بنادیجیئے گا۔
آئی جی صاحب نے اُسی وقت چیف سیکریٹری صاحب سے بات کی وہ اپنی بات پر بضد تھے کہ پولیس کیس خراب کر رہی ہے میڈیکل سائنس ایک بات کر رہی ہے اور آپ کا افسر دوسری بات کر رہا ہے میں کیسے اور کیوں مان لون کہ میرے بھائی نے خودکشی کی ہے۔ پولیس ایسے کیسوں میں یہی کرتی ہے۔ آئی جی صاحب کے اصرار پر انھوں نے کہا کہ میں سنیچر کے روز میں کراچی آرہا ہوں آپ اپنے افسر کو اتوار کے دن 11 بجے میرے گھر بھیج دیں– آئی جی صاحب نےبڑی شفقت اور مہربانی سے کہاکہ “نیاز ہم آپ کے ساتھ چلیں یا تُم فیس کر لو گے” میں نے اُن کو کہا کہ سر ہم نے کچھ بھی غلط نہیں کیا مجھے پُختہ یقین ہے کہ متوفی کو کسی نے قتل نہیں کیا، موقعہ کی جو تصاویر ہیں وہ اپنی زبان سے خود حقیقت بتا رہی ہیں واقعہ خود ساختہ نہیں ہے۔چیف سیکریٹری صاحب بھلے کسی غیر مُلکی ایجنسی سے تفتیش کروالیں نتیجہ 20 سے 19 نہیں ہوگا اور میں سیلیوٹ کرکے دفتر سے نکل آیا۔
میں اتوار کے دن 11 بجے باتھ آئی لینڈ میں اُن گھر پہنچ گیا، مجھے ایک کشادہ ڈرائنگ میں لے جایا گیا وہاں کافی لوگ جمع تھے چیف سیکریٹری صاحب مجھ سے بڑی سرد مہری سے ملے، حالانکہ وہ بڑے اچھے انسان اور بڑی اچھی شہرت کے مالک ہیں، بیٹھتے ہی انہوں نے سوالات کی بوچھاڑ کردی میں نے ایک لفظ نہیں بولا جب وہ اپنا پورا غُبار نکال چُکے تو میں نے چیف سیکریٹری صاحب کو کہا کہ سر دو منٹ میری بات بھی سُن لیں پھر میں چلا جاتا ہوں اور کیس آئی جی صاحب کو واپس کردیتا ہوں ۔ میں نے کہا کہ آپ کا کیس ورک آوٹ ہو یا نہ ہو میری نوکری پر کوئی اثر نہیں ہوگا کیوں کہ میں نے کچھ غلط نہیں کیاہے، نہ کسی کو گرفتار کیا ہے نہ کسی کو چھوڑا ہے جو مجھ پر الزام لگے کہ میں نے کسی کو فیور دیا ہے، آپ کا اس میں کوئی قصور نہیں مرحوم کے زخموں اور میڈیکل سائنس کی وجہ سے آپ کی جگہ اگر میں بھی ہوتا تو میرا بھی ردعمل یہی ہوتا جو آپ کا ہے ، میں نے اُن کو مزید کہاکہ کیس کے تفتیش میں ڈنڈی مارنے سے بہتر ہے کہ آدمی کیس سے الگ ہو جائے، یہ کہ کر میں جانے کیلئے اٹھ کھڑا ہوا تو انھوں نے ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کو کہا اور کہا ہم لوگ اسی لیئے جمع ہیں کہ کیس کی پروگریس سُنیں اب اُن کے لہجھے اور چہرے پر اعتماد اور سکون کی جھلک تھی۔ میں اپنا لیپ ٹاپ آن کیا چیف سیکرٹری صاحب نے لیپ ٹاپ مجھ سے لے کر اپنی گود میں رکھ لیا اور مجھے صوفے پر ساتھ بیٹھنے کا اشارا کیا، میں نے سلائیڈس کی مدد سے موقعے پر لی گئی تصاویر کی ایک ایک تفصیل اُن کو بتانا شروع کی چیف سیکریٹری صاحب کی دلچسپی دیکھ کر اُن بھائی اور کچھ رشتیدار صوفے کے پیچھے آ گئے، جیساکہ وہ ایک سینئر اور تجربے کار افسر تھے اور دوسری طرف اُن کے بھائی کا کیس تھا انھوں نے موقع کی لی گئی تصاویر پر باریک باریک سوالات کیئے جیساکہ میں اس کیس میں پہلے دن سے شامل تھا اور اس پر بہت ہوم ورک کیا تھا اس لیئے بڑے اعتماد اور غیرجانبداری سے جوابات دیتا رہا، میں نے اُن کو تصویر نمبر 2 جس میں گولی باہر نکلنے کی وجہ سے متوفی کے بال اوپر اُٹھ گئے تھے آگر فائر پیچھے سے کیا جاتا تو بال اندر کی طرف ہوتے، تصویر نمبر 3 جس میں متوفی کو فائر لگنے کے بعد خون کی پوہار بوندوں کی شکل میں متوفی کے پسٹل اور ہاتھ پر گرا ہوا صاف نظر آر رہا ہے آگر پسٹل قتل کے بعد متوفی کے ہاتھ میں دیا جاتا تو خون بوندوں کی شکل میں پسٹل اور ہاتھ پر اس طرح موجود نا ہوتا دوسرا تصویر نمبر 4 میں کار کا ونڈ اسکریں صحیح حالت میں موجود ہے، اگر متوفی کے سر پر پیچھے سے فائر کیا جاتا تو گولی پیشانی سے نکلتی ہوئی ونڈاسکریں توڑتی ہوئی باہر نکل جاتی، پریزینٹیشن کےدور ان کئی بار مجھے خاموشی اختیار کرنی پڑی کیوں کہ چیف سیکریٹری صاحب اپنے آنسو چُھپانے کیلئے اپنے آنکھوں پر ٹشوپیپر رکھ لیتے تھے۔ ڈرائنگ روم کا ماحول سوگوار ہو گیا تھا۔ آخر میں جب کچھ کہنے کو نہ بچا تو میں نے اُن سے اجازت چاہی۔اُنہوں نے اُٹھ کر مجھے گلے لگا کر دائیں گال پر تھپکی دے کر غمگین لہجے کہا کہ کھوسہ صاحب الللہ آپ کو خوش رکھے اور اپنے بھائی کو کہا کہ آیس پی صاحب کو گاڑی تک چھوڑ آئے۔
چونکہ میں اپنا موبائل فون گاڑی میں چھوڑ آیا تھا ڈرائیور نے بتایا کہ آئی جی صاحب اور سی سی پی او صاحب آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ دونوں آفسران کو فون پر ساری روداد بتادی۔ دونوں آفسران کا ایک ہی سوال تھا کہ وہ مطمعین ہوئے یا نہیں اور میں نے دونوں کو واضع لفظوں میں بتایا کہ انھوں نے مجھے کچھ بھی نہیں کہا کہ وہ مطمئن ہیں یا نہیں اس کاُاظہار انھوں نے نہیں کیا۔ میں واپس گھر چلا گیا۔ دو دن بعد آئی جی صاحب کا فون آیا کہا کہ “ نیاز میری چیف سیکریٹری صاحب سے بات ہوئی ہے آپ اُن کا کیس دفتر داخل کردیں”
خودکشی کے کیس میں خودکشی کرنے والا اگر بچ جائے تو جیل جاتا ہے دوسری صورت میں کیس بند ہوجاتا ہے خودکشی کی وجوہات جاننے کا پولیس کے دائرہ اختیار میں نہیں۔ لہاذا میں نے کیس خارج کردیا۔