مفت توانائی ایک دعویٰ ہے کہ توانائی کی کنزریویشن کے قوانین توڑے جا سکتے ہیں اور کوئی ایسا طریقہ نکالا جا سکتا ہے جس سے توانائی مفت ملتی رہے۔ اس دعوے کے ساتھ ایک بنیادی مسئلہ ہے اور وہ یہ کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ لیکن اس نے لوگوں کو ایسا دعویٰ کرنے سے نہیں روکا۔
مفت توانائی کے آلات نمائش کے لئے پیش کئے جاتے رہے ہیں۔ یہ دنیا بھر میں ہوتا رہا ہے۔
دسمبر 2006 میں آئرلینڈ کی ایک کمپنی سٹیورن نے ایک ایسے آلے کا مظاہرہ کر کے دکھایا جس کو اوربو کا نام دیا گیا تھا۔ دعویٰ یہ تھا کہ یہ آلہ ہمیشہ برقرار رہنے والے موشن کے ذریعے مفت توانائی پیدا کر سکتا ہے۔ نومبر 2016 میں دس سال اور سرمایہ کاری کرنے والوں کے دو کروڑ ڈالر ضائع کرنے کے بعد یہ کمپنی بند ہو گئی۔ اس کی کہانی مفت توانائی پیدا کرنے والوں کی ایسی کہانی ہے جو بار بار دہرائی جاتی رہی ہے۔
سائنس کے قوانین میں توانائی اور میٹر کی کنزوریشن ایک پکا اور ایک آہنی قانون ہے۔ مفت توانائی نہیں آ سکتی، اس کا کوئی طریقہ نہیں ہے اور اگر کوئی ایسا دعویٰ کرے تو کئی امکانات ہو سکتے ہیں۔ اسے غلط فہمی ہوئی ہے، اس کو سائنس کا فہم نہیں، اس کا حقیقت سے واسطہ ٹوٹ چکا ہے، کچھ کھسکا ہوا ہے یا فراڈ کر رہا ہے۔ جس چیز کا امکان بالکل نہیں ہے، وہ یہ کہ وہ کہیں اکیلے کام کرنے والا ایک شاندار سائنسدان ہے جس نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا ہے۔
مفت توانائی کا دعویٰ کرنے والے بہت سے لوگ رہے ہیں۔ اور ان میں ایک چیز جو مشترکہ رہی ہے وہ انکساری کی کمی ہے۔ اگرچہ یہ سوڈوسائنس میں عام ملتی ہے لیکن مفت توانائی والے اس کے چیمپئن ہوں گے اور شاید فزکس کے بنیادی ترین قانون کو توڑ دینے کا دعوٰی اس خاصیت کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔
مفت توانائی کی مشین، جس کو اوور یونیٹی مشین کہا جاتا ہے، اپنی اِن پُٹ سے زیادہ آوٗٹ پُٹ دیتی ہے یعنی اس کی ایفی شنسی سو فیصد سے زیادہ ہے۔ بدقسمتی سے، تھرموڈائنکس اس کے آڑے آ جاتی ہے۔ اس کے پہلے دو قوانین ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ نہ صرف زیادہ توانائی نہیں حاصل کی جا سکتی بلکہ سو فیصد ایفی شنسی بھی ممکن نہیں ہے۔
یہ قوانین اس قدر اچھی طرح اسٹیبلشڈ ہیں کہ ۔۔۔ یہ واقعی قوانین ہیں۔ یہ اندازے نہیں، یہ تھیوری بھی نہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ سائنسی علم ہمیشہ محدود ہوتا ہے۔ لیکن اگر کوئی سائنس کی اتنی زیادہ بنیادی چیز کو ہلا دینے کا دعوٰی کرے تو اس کو پھر بہت ہی غیرمعمولی شواہد دینا ہوں گے کہ اسے سنجیدگی سے لیا جائے۔
اور ایسا دعویٰ کرنے والے ایسا کبھی نہیں کرتے۔ وعدے اور مظاہرے پبلسٹی کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ اوربو نے 2007 اور پھر 2009 میں مظاہرہ کر کے دکھایا اور پھر سائنسی کمیونیٹی کو چیلنج کیا کہ وہ ان کے آلے کی سائنسی تفتیش کر لیں۔ سائنسی پینل نے ایسا ہی کیا اور متفقہ طور پر بتایا کہ اوربو ہمیشہ قائم رہنے والا موشن حاصل نہیں کر سکتا۔ مزید بہانے، جواز، تاخیر، وعدے اور بالآخر یہ کمپنی بند ہو گئی۔
گھومتا فلائی وہیل یا گیند جس میں گریویٹی کی مدد لے کر یا مقناطیس لگا کر گھومتے دکھایا جاتا ہے جو لگتا ہے کبھی بند نہیں ہوتا؟ نہیں، یہ مفت توانائی نہیں۔ یہ بہت دلچسپ کھلونے ہوتے ہیں جس میں انجینیر فرکشن کو کم سے کم کر کے بہت دیر تک اس حرکت کو جاری رکھ سکتے ہیں لیکن ان سے توانائی نہیں مل سکتی۔
دعویٰ کرنے والے کئی لوگوں کی غلطی ریاضی میں ہوتی ہے۔ اِن پُٹ میں تمام توانائی نہیں گنی ہوتی۔ یہ کچھ بھولے “ماہرین” کو بھی بے وقوف بنا دیتے ہیں۔ جنہوں نے فزکس یا انجینرنگ پڑھی تو ہوتی ہے لیکن یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ایسے دعوے پرکھے کیسے جاتے ہیں۔ اس وقت مفت توانائی کے بے شمار کئے جانے والے دعووں میں کامیابی کا تناسب صفر ہے۔
کئی لوگ مفت توانائی پر خود یقین کر بیٹھتے ہیں جنہوں نے اس میں بیٹری اور موٹر لگائی ہوتی ہے اور اس سے موٹر کی حرکت سے دوسری بیٹری کو چارج کیا جا رہا ہوتا ہے۔ ہر موٹر آواز دیتی ہے یا شعلہ نکلتا ہے۔ آواز اور روشنی توانائی کو نکال رہے ہوتے ہیں۔ یہ گرم بھی ہوتی ہے۔ جتنی توانائی دوسری بیٹری تک پہنچتی ہے، وہ ہمیشہ پہلی بیٹری سے نکلنے والی توانائی سے کم ہوتی ہے۔
ایسے موجد خود حیران ہو جاتے ہیں کہ موٹر اتنی دیر کیسے چلتی رہی اور سمجھ بیٹھتے ہیں کہ انہوں نے کوئی راز دریافت کر لیا جو باقی سب سے پوشیدہ رہ گیا تھا۔ اور جب یہ کام نہیں کرتا تو یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ٹیکنیکل مسئلہ ہے جو انجینیرنگ سے ٹھیک ہو جائے گا۔ بس چند چیزیں ٹھیک کرنی ہیں۔ یہاں پر جو چیز ضائع ہو رہی ہوتی ہے، وہ صرف بیٹری کی نہیں، اس موجد کی توانائی بھی ہے۔ کیونکہ مسئلہ انجیرنگ کا نہیں، فطرت کے بنیادی قانون کا ہے۔
جہاں پر کئی لوگ نادانستہ طور پر اس کے چکر میں پھنس جاتے ہیں، وہاں کئی دوسرے یہ کام صرف فراڈ کے لئے کرتے ہیں۔ مفت توانائی کا وعدہ پیسے حاصل کرنے کے لئے پرکشش ہے۔ کئی لوگ یہ فراڈ جانتے بوجھتے بھی کرتے ہیں۔
ان دعووں کے ساتھ انکساری نہ ہونا اس لئے ضروری ہے کہ انکساری کی رمق بھی ہو تو آپ اس امکان پر غور کریں گے کہ شاید آپ غلط ہوں اور شاید آپ دنیا کو بدل دینی والی ایجاد نہیں کر چکے۔
مضحکہ خیز حد تک بڑے دعوے اوور کانفیڈنس کے بغیر نہیں کئے جا سکتے۔ مفت توانائی کے آلات اکثر بڑی نفاست سے بنے آلات ہوتے ہیں۔ کئی بار بہت خوبصورت ہوتے ہیں۔ ان میں ٹیکنیکل تفصیلات کی طرف بھی توجہ دی گئی ہوتی ہے۔ لیکن یہ ایک بنیادی نکتہ miss کر جاتی ہیں جو اصل سائنس اور اصل ترقی کے لئے ضروری ہے۔
یہ حقیقت سے دور ہوتی ہیں، سائنسی کمیونیٹی سے دور ہوتی ہیں۔ یہ تکبر کی یادگاریں ہیں اور سب سے زیادہ اہم ۔۔۔ یہ کام نہیں کرتیں۔
پانی سے چلائی جانے والی گاڑیاں، فلائی وہیل سے بجلی اور یوٹیوب پر بہت سے “موجدین” کے دعوے سائنس کا واجبی علم رکھنے والوں کو دھوکا بھی دیتے رہے ہیں۔
اور مفت توانائی کے طریقوں پر یقین رکھنے والوں میں سے اکثر عظیم سازش کی تھیوری کا شکار ہوتے ہیں۔ جن کے مطابق اس قسم کے آلات پر تحقیق اس لئے نہیں ہو رہی یا انہیں روکا اور چھپایا جا رہا ہے تا کہ توانائی کے اداروں یا فوسل فیول کمپینیوں کا بزنس ٹھپ نہ ہو جائے۔ اگر ہم سائنس سے تھوڑی سی واقفیت حاصل کر لیں تو جان جائیں گے کہ یہاں پر مسئلہ فوسل فیول کمپنیوں کو نہیں ۔۔۔ اس کائنات کو ہے جس میں ہم رہتے ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...