مفتی صاحب کی ویڈیوز والے معاملے پر کئی دوستوں نے قانونی پہلو سے متعلق سوال پوچھے ہیں۔ کچھ دوستوں نے یہ بھی پوچھا کہ کیا وہ خود ان کیخلاف کوئی قانونی کارروائی کروا سکتے ہیں؟
جواب: سب سے پہلی بات تو یہ ہے مفتی صاحب ویڈیوز میں جو فعل کر رہے ہیں اسے قانون کی زبان میں Un-natural offence یا Sodomy کہا جاتا ہے۔
اسلامی شریعت میں اسے لواطت کہا جاتا ہے۔
شرعی قانون کے تحت شادی شدہ مرد عورت کو اس طرح کا فعل کرنے پر سنگسار کیا جائے گا۔ زمین میں گاڑھ کر پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا جائے۔ رجم۔
رجمندو صورتوں میں ہو سکتا ہے۔
1۔مفتی صاحب خود گناہ قبول کریں۔
2۔مگتی صاحب جرم کا اعتراف نہیں کرتے تو ان کے خلاف 4 عاقل بالغ مردوں کا گواہی دینا ضروری ہے۔ ایسے 4 مرد گواہ جو تزکیت الشہود کی شرائط پر پورا اترتے ہوں۔ جنہوں نے یہ فعل ہوتے اپنی کھلی آنکھوں سے ایسے دیکھا ہو جیسے کوئی واضح طور پر سوئی میں دھاگہ ڈالتے دیکھ رہا ہو۔
لہذا ناممکن۔
اب ائیے پاکستان پینل کوڈ کی طرف۔ تعزیرات پاکستان کے تحت Un-natural offence کی زیادہ سے زیادہ سزا عمر قید اور کم سے کم 2 سال قید ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا کوئی بھی بندہ مفتی صاحب کیخلاف کارروائی کروا سکتا ہے؟
جواب یہ ہے کہ کریمنل پروسیجر کوڈ کا سیکشن 154 کہتا ہے کہ کاگنیزیبل اوفینس کو کوئی بھی بندہ رپورٹ کر سکتا ہے۔ چاہے وہ اس جرم سے متاثر ہوا ہو یا نہیں۔ اس کی اس رپورٹ پر ایف آئی آر درج کی جا سکتی ہے۔ کئی کیسز میں ایسا ہوتا ہے(قتل وغیرہ) جب کوئی مدعی نہ بن رہا ہو تو پولیس (ریاست) کی مدعیت میں ایف آئی آر درج کی جاتی ہے۔
وہ ایف آئی آر جس کا کوئی آزاد مدعی نہ ہو کمزور ایف آئی آر ہوتی ہے۔ ملزم عموما رہا ہوجاتے ہیں۔
متاثرہ فریق سامنے نہ ائے۔ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم زیادتی کیخلاف کوئی کارروائی نہ کروانا چاہے تو پھر میں اور آپ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتے۔ ہم تقریبا بے بس ہوتے ہیں۔ مفتی صاحب والے کیس میں بھی تقریبا ایسا ہی ہے۔
عدالت بھی تب ہی حرکت میں آتی ہے جب کوئی کیس درج ہو اور اس کے سامنے پیش کیا جائے۔ ورنہ مجسٹریٹ، سیشن کورٹ اور ہائیکورٹ سوموٹو اختیار استعمال نہیں کر سکتے۔ یہ اختیار صرف سپریم کورٹ استعمال کرسکتی ہے جو کہ اب بہت کم ہے۔
فرض کریں مفتی صاحب والے کیس میں متاثرہ لڑکا خود بھی سامنے آئے تو اس مقدمے میں ملزم کو تب بھی سز ملنے کے امکانات بہت کم ہیں۔
وجہ؟
1۔وقوعے کو بہت عرصے بعد رپورٹ کیا جا رہا ہے۔
2۔وقوعے میں لڑکے کی خود بھی انوالومنٹ نظر ا رہی ہے۔
3۔لڑکے پر باہر جبر، زبردستی کا عنصر نظر نہیں آ رہا۔
4۔زیادتی کے متاثرہ شخص کا میڈیکل کروایا جاتا ہے۔ لڑکے کی صورت میں 24 گھنٹے کے اندر میڈیکل کروایا جائے۔ بشرطیکہ متاثرہ جگہ کو دھویا نہ گیا ہو تو سیمنز نکلنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ چہ جائیکہ کہ یہ کسی کپڑے، شلوار وغیرہ کے اوپر لگا اور خشک ہو گیا ہو تو پھر ثابت کرنا آسان ہوتا ہے۔ لیکن ان ویڈیوز کو اب ڈیڑھ دو سال ہو گئے ہیں۔ لہذا میڈیکل کہانی ختم۔
5۔ویڈیو بطور ثبوت قبال قبول ہے۔ لیکن اس کیلئے بھی قانون شہادت آرڈیننس کے سیکشن 164 کے تحت شرائط کو پورا کرنا ہوگا جو کہ اب شاید ممکن نہ ہوں۔
لہذا قانون کی میری تھوڑی بہت سمجھ بوجھ کے مطابق مفتی صاحب کو قانونی شکنجے سے بچانا کوئی زیادہ مشکل کام نہیں ہوگا۔
موجودہ صورتحال میں مفتی صاحب کیلئے سزا وہی ہے جو یہاں سوشل میڈیا پر لعن طعن کی جا رہی ہے۔ لہذا۔ لگے رہیے۔
ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ مفتی صاحب کیخلاف توہین مذہب کا مقدمہ درج ہو۔ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295 اے کے مذہبی شعائر کی توہین کا کیس۔
لیکن اس کیلئے بھی کسی نہ کسی کا مدعی بننا تو ضروری ہے۔ ایک ویڈیو میں مفتی صاحب ہاتھ میں حدیث کی کتاب بھی پکڑے ہوئے ہیں۔ اس اینگل پر کام ہو اور علما بھی اس توہین کیخلاف بولیں تو بات بنے۔ ورنہ مفتی صاحب "باعزت" بری ہیں۔