چینی سائنس دانوں نے کورونا وائرس اور مردانہ کمزوری کے مابین مبینہ تعلق پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ چین میں سائنس دانوں نے خدشے کا اظہار کیا ہے کہ نئے کورنا وائرس COVID -19 مردانہ زرخیزی کو متاثر کرسکتا ہے تاہم اس شعبے کے ماہرین نے نیوز ویک رسالے پر زور دیا ہے کہ مرد حضرات کو زیادہ پریشانی کی ضرورت نہیں ہے۔
چینی محققین ایک رسیپٹر کے دستیاب اعداد و شمار کو دیکھ رہے تھے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کوویڈ -19 انسانی خلیوں کو متاثر کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ انہوں نے پایا کہ یہ انسانی خصیوں اور گردوں کے خلیوں میں بھی پایا گیا ہے۔
یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اس میں کووڈ 19 کے مریضوں کے کوائف بھی شامل تھے اور جن میں انفیکشن ہوئی ان کے اعداد و شمار کو شامل کیا گیا ہے یہ نہیں۔
ان اعداد و شمار سے تشویش کا اظہارکیا گیا ہے کہ یہ خصیوں اور گردوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ٹیم نے ہیلتھ کیئر ورکرز کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے مریضوں کے گردوں کے ساتھ ساتھ مردانہ زرخیزی پر بھی نظر رکھیں۔ یہ تمام معلومات ایک مضمون میں جو میڈ آرکسیو ویب سائیٹ پر شائع کی گی ہیں۔ یہ ویب سائٹ محققین کے ایسے کام شائع کرنے کے لیۓ معروف ہے جہاں دوسرے ماہرین سے بات چیت شروع کرنے کے لئے تحقیقات دستیاب کی جاتی ہیں۔
محققین کا خیال ہے ہے ڈاکٹروں کو مریضوں کے گردوں اور خصیوں پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے خاص طور پر کسی غیر معمولی نمو اور مردانہ زرخیزی پر۔ چند کرونا وائرس کے مریضوں کے گردوں پیشاب اور مردانہ جنسی اعضاء کے مسائل سامنے آنے کے بعد سانس کے مسائل کے ساتھ ساتھ ان پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
یونیورسٹی آف شیفیلڈ برطانیہ کے پروفیسر ایلن پیسی کے مطابق یہ تحقیق ابھی ابتدائی نوعیت کی ہے کہ جس میں ڈاکٹروں کو کرونا وائرس کے دوسرے ثانوی مسائل کی طرف آگاہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ یقینی نہیں ہے کہ کووڈ 19 مردانہ جنسی مسائل پیدا کرے گا لیکن یہ تحقیق ڈاکٹروں کو خبردار کرنے کے لیے کافی ہے کہ اس وائرس کے دوسرے جسمانی اعضاء پر بھی اثرات ہو سکتے ہیں۔
یونیورسٹی آف ایڈنبرا کے پروفیسر رچرڈ شارپ جو مردانہ امراض کے مانے ہوئے محقق ہیں ان کے مطابق اس تحقیق میں کسی براہ راست معاون ثبوت کے بغیر معقول قیاس آرائیاں پیش کی گئی ہیں۔
کرونا وائرس کے خاندان کے اس نئے وائرس سے اب تک دو ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک اور اب تک 75 ہزار سے زیادہ مریض سامنے آ چکے ہیں۔ چائنا کے صوبے ووہان شہر میں تھوک سمندری غذا کے بازار سے پھیلنے والی بیماری اب امریکا ہانگ کانگ جنوبی امریکا آسٹریلیا روس اور بہت سے افریقی ممالک تک پھیل چکی ہے۔
ڈاکٹر پیسی کے خیال میں ان میں موجود ڈاکٹروں کو ایک لمبے عرصے تک کرونا وائرس کے مریضوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ یہ دوسرے ثانوی مسائل جن لوگوں میں میں پیدا ہوئے کیا ان کا وقتی اثر ہے یا ایک لمبے عرصے تک ان کا اثر رہے گا۔
وہ مریض جن کو اگر شک ہو کہ ان کے اندر جنسی مسائل پیدا ہوگئے ہیں ان کو اپنے ڈاکٹر سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔
نئے نطفے پیدا ہونے میں تقریبا تین ماہ کا عرصہ لگتا ہے تو ایسے مریضوں کو کم از کم تین ماہ کے بعد اپنے ڈاکٹر سے مشورہ درکار ہو گا کہ وہ یہ اندازہ لگا سکے کہ ان مسائل میں پہلے سے اور بیماری کے بعد کی صورتحال میں کتنا فرق ہے ہے۔
محققین کو چند مریضوں کی بجاۓ ایک بڑی آبادی پر تحقیق کے نتائج کو دیکھ کر ہی ایک نتیجہ اخذ کرنا ہوگا۔ عام طور پر بہت کم مردوں میں نتفو کی کارکردگی کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے تو اس لیے ایسے مریضوں کے لیبارٹری ٹیسٹ کے نتائج کا اندازہ کرنا کافی مشکل ہوگا کہ یہ مسائل بیماری سے پہلے بھی موجود تھے یا بیماری کے بعد ہی پیدا ہوئے ہیں۔
ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ اگر چند ہزار مریضوں کے نتائج مل سکیں تو اس سے ایک اچھا اندازہ ہو سکے گا کہ نتفو کی تعداد میں کمی میں کرونا وائرس کی بیماری کی وجہ سے ہوئی ہے یا اس کی کوئی اور وجہ ہے۔
وہ تمام لوگ جن کو کرونا وائرس اور اور مردانہ زرخیزی کی وجہ سے پریشانی ہے ان کو چاہئے کہ وہ اپنی زیادہ توجہ اپنی صفائی اور اپنے جسم کے درجہ حرارت پر نظر رکھنے پر مرکوز رکھیں۔
ڈاکٹر شارپ کے خیال میں میں زیادہ تیز بخار ویسے بھی مردانہ نہ نتفو کے لیے نقصان دہ ہے کیونکہ خصیوں کو نتفے پیدا کرنے کے لیے بدن کے درجہ حرارت سے تین سے چار ڈگری سنٹی گریڈ کم درجہ حرارت در کار ہوتا ہے۔
کوئی بھی ایسا مسئلہ جو جسم کا درجہ حرارت بڑھا دے عام طور پر پر نتفو کی پیداوار کے لیے نقصان دہ ہے ڈاکٹر نے کہا۔
اصل کالم کا لنک