سی اے بی اور این آر سی نے محمد علی جناح کو پھر سے زندہ کردیا ہے !
مرکزی کابینہ میں منظوری کے بعد ’کل‘ پیر کے روز لوک سبھا میں جو ’شہریت ترمیمی بِل‘ پیش ہونے جارہا ہے ،جسے ہم’ سی اے بی‘ (CAB) بھی کہہ سکتے ہیں، اپنی نوعیت میں ایک انتہائی خطرناک بِل ہے ۔یہ ایک ایسا بِل ہے جو ایک جانب ’ مذہب‘ کو ’شہریت‘ کی بنیاد کا جواز بخشتا ہے ، اور دوسری جانب سرے سے ان مسلمان ’ مہاجروں‘ کو جو بنگلہ دیش ، پاکستان یا افغانستان سے ہندوستان آئے ہوں ’ شہریت‘ کے حق سے محروم کرتا ہے ، لیکن ہندو مہاجروں کو یہ حق طشت میں سجاکر پیش کرتا ہے ۔ ہندو مہاجروں کے ساتھ یہ سکھ ، جین ، پارسی ، بودھ اور عیسائی مہاجروں کو بھی ’ شہریت‘ کا حقدار سمجھتا ہے ۔ اس بِل کے پیش کرنے والوں کا یہ دعویٰ ہے کہ چونکہ پاکستان ، بنگلہ دیش اور افغانستان وغیرہ مسلم اکثریتی ممالک ہیں لہٰذا وہاں مسلمان ، مسلمانوں کو ستا نہیں سکتے ، لہٰذا انہیں ہندوستان کی ’شہریت‘ نہیں دی جاسکتی ، لیکن چونکہ ہندوؤں اور دیگر کو’ستایا‘ جاسکتا ہے اس لئے انہیں ’ شہریت‘ کا حق ملنا چاہئے !
مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ، جو اس بِل کے آر کی ٹیکٹ ہیں ،یہ اعلان کررکھا ہے کہ سارے ملک میں این آرسی لاگو کرنے سے قبل پارلیمنٹ میں CAB کو منظور کیا جائے گا ۔ کیوں؟ اس لئے کہ ان ہندو ، پارسی ، سکھ ، عیسائی اور بودھ مہاجروں کو ، جن کے نام این آر سی سے غائب ہوں ، ’شہریت‘ دی جاسکے اوروہ ’غیر ملکی‘ قرار نہ پائیں ۔ گویا یہ کہ این آرسی اور سی اے بی (CAB) کا ایک دوسرے سے چولی اور دامن کا تعلق ہے۔۔۔ یہ اُن ’غیر ملکیوں‘ کو جو مسلمان نہیں ہیں ’بھارت ماتا‘ کے ساتھ جوڑنے کا عمل ہے ۔ اور ان ’ غیر ملکیوں‘ کو جو مسلمان ہیں ’ بھارت ماتا‘ کے دامن سے بھگانے کی ’ جائزراہ‘ ہے ۔ یہ تو بہت پہلے پا کستان کے نام پر اپنا ملک لے چکےہیں ، وہ پاکستان جس کے دامن سے بنگلہ دیش نامی ایک اور ملک وجود میں آچکا ہے ۔۔۔ اور افغانستان اس لئے کہ یہ بقول سنگھی دانشوران ’ اکھنڈ بھارت‘ کا ہی ایک حصہ ہے ۔۔۔ جب لوک سبھا میں یہ ’بِل‘ پہلی بار منظور ہوا تھا تب وزیراعظم نریندر مودی نے جو کچھ کہا تھا وہ تاریخ کے صفحات پر ثبت ہوچکا ہے ۔ وہ بولے تھے ’’ ماں بھارتی کی بہت سی اولادیں پاکستان ، بنگلہ دیش اور افغانستان میں ستائی گئی ہیں ، ہم ان کے ساتھ ، جو کبھی بھارت کا حصہ تھے ، لیکن ہم سے جدا کردیئے گئے ، کھڑے ہونگے ‘‘۔۔۔ بھاجپائی لیڈران کہتے چلے آرہے ہیں کہ پاکستان ، بنگلہ دیش اور افغانستان کی اقلیتیں ۱۹۴۷ء سے ظلم وستم سہتی چلی آرہی ہیں اور بھارت ان کا ’فطری وطن‘ ہے ، کم از کم ان کا جن کے ’ ہندوی اعتقادات‘ ہیں مثلاً ہندو ، سکھ ، جین اور بودھ۔
’ مذہب ‘ کو ’شہریت‘ کی بنیاد بنانے والے اس بِل نے بانیٔ پاکستان محمد علی جناح کی یاد تازہ کردی ہے ، بلکہ اس بِل نے انہیں موضوع بحث بنادیا ہے ۔ کل ہند مجلس اتحاد المسلین ( ایم آئی ایم) کے سربراہ، رکن پارلیمنٹ بیرسٹر اسدالدین اویسی نے ’بِل‘ پر کچھ یوں ردّعمل ظاہر کیا ہے : ’’ایک ہندوستانی مسلمان کے طور پر میںمحمد علی جناح کے دوقومی نظریئے کو رد کرچکا ہوں لیکن اب آپ ایک ایسا قانون بنانے جارہے ہیں جو دوقومی نظریئے کو یاد دلائے گا ‘‘۔۔۔ ہند ۔ پاک کی تقسیم کی تاریخ بڑی ہی المناک ہے ۔ خون سے بھری ہوئی۔ محمد علی جناح نے پاکستان کے وجود کا ’جواز‘ یہ کہہ کر دیا تھا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں لہٰذا دونوں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے ان کے لئے الگ الگ ملک ہونے چاہیں ۔ اس نظریئے کی جہاں ملک کے ’ سیکولر ٹولے‘ نے مخالفت کی تھی وہیں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد تھی جنہوں نے محمد علی جناح کے دوقومی نظریئے کو ردکردیا تھا اور اسی ملک میں جینے اور مرنے کو ترجیح دی تھی، انہیں جامع مسجد ، درگاہ اجمیر شریف اور مزارِ حضرت نظام الدین چھوڑ کر جانا منظور نہیں تھا۔۔۔ تو وہ مسلمان جو ہندوستان چھوڑ کر نہیں گئے ، جنہوں نے محمد علی جناح کے دو قومی نظریئے کو رد کردیا آج کے حالات اور اس ’بِل‘ کے تناظر میں یہ سوال دریافت کرنے پر مجبور ہیں کہ کیا محمد علی جناح کا دوقومی نظریہ سچ تھا؟؟
اگر آر ایس ایس اور بی جے پی اور اس کے لیڈران محمد علی جناح کو تقسیم کا ذمے دار سمجھتے ہیں اور یہ مانتے ہیں کہ جناح کا دوقومی نظریہ ملک کے بٹوارے کا سب سے بڑا سبب تھا تو آج وہ خود ۔۔ ۔ امیت شاہ اور مودی اینڈ کمپنی ۔۔۔۔یہ جو ’ مذہب‘ کی بنیاد پر ’ شہریت‘ کا نظریہ پیش کررہے ہیں، کیسے صحیح ہوسکتے ہیں ؟ اگر جناح صحیح تھے تو آر ایس ایس اور بی جے پی صحیح ہے ۔ اور اگر جناح غلط تھے تو آر ایس ایس اور بی جے پی بھی غلط ہے ۔
اِدھر جب سے نریندر مودی کی سرکار بنی ہے ، ۲۰۱۴ءسے ، تب سے اس ملک میں محمد علی جناح اور ان کے نظریئے پر پھر سے بحث شروع ہوگئی ہے ۔ حالانکہ یہ بحث بابری مسجد کے تالے کھلنے ، شیلا پوجن اور بابری مسجد کی شہادت کے دوران بھی جاری تھی پر آج کے دنوں میں پہلے کے مقابلے یہ بحث کہیں زیادہ سنجیدگی اور شدت سے کی جارہی ہے ۔ مودی کی مرکزی سرکار نے اور بی جے پی کی ریاستی سرکاروں نے اپنی حرکتوں سے محمد علی جناح کے نظریئے کو ایک ’سچائی‘ میں تبدیل کردیا ہے ۔ یہ ’بِل‘ ملک کو ’ ہندوراشٹر‘ بنانے کی مہم کا ہی شاخسانہ ہے ۔
سی اے بی (CAB) صرف محمد علی جناح کے دوقومی نظریئے کی ہی تائید نہیں کرتا بلکہ وہ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ ملک کے بٹوارے میں جن عناصر کا ’ خفیہ‘ ہاتھ تھا وہ یہی عناصر تھے جو آج ’شہریت‘ کو ’ مذہب‘ سے جوڑرہے ہیں ۔ آزادی کی تحریک میں وہ عناصر جو سرگرم نہیں تھے ۔۔۔۔ زعفرانی ٹولہ۔۔۔۔ اس نے آزادی سے بہت پہلے ہی ملک کو ’ ہندوراشٹر‘ بنانے کی تیاری کرلی تھی اسی لئے محمد علی جناح کے دوقومی نظریئے کو عملی جامہ پہننانے کے لئے یہ سرگرم رہے ۔ اگر ملک نہ بٹتا تو یہ عناصر نہ پھلتے نہ پھولتے اور نہ ہی آج این آر سی اور ’ شہریت ترمیمی بِل‘ کی بات ہوتی ۔۔۔ اس ساری بحث میں ایک اہم بات یہ ہے کہ دو قومی نظریئے کو اس وقت جن مسلمانوں نے ٹھکرایا تھا وہ آج ’ شہریت ترمیمی بِل‘ یعنی آر ایس ایس اور بی جے پی کے ’ دوقومی نظریئے‘ کو ٹھکرانے میں پیش پیش ہیں، مسئلہ سیاسی پارٹیوں کا ہے جو ۱۹۴۷ء ہی کی طرح آج بھی پش وپیش اور قیل وقال میں پڑی ہوئی ہیں ۔ اسد الدین اویسی اور ان کی پارٹی ایم آئی ایم ’ بِل‘ کے خلاف ہے ، بایاں محاذ ’ بِل‘ کے خلاف ہے ، شیوسینا نے بھی ’ بِل‘ کی مخالفت کرنے کا من بنالیا ہے ، لیکن وہ سیاسی پارٹیاں جو خود کو سیکولر قرار دیتی ہیں اب تک کھل کر ’بِل‘ کی حمایت یا مخالفت میں نہیں اترسکی ہیں ۔ کانگریس نے حالانکہ ’ بِل‘ کو ’ مسلم مخالف‘ اور ’غیر آئینی‘ قرار دیا ہے لیکن ہنوز اس کا رخ بہت واضح نہیں ہے ۔ متحدہ جنتا دل اس ’ بِل‘ کا حامی ہے ، تلنگانہ کی کے چندر شیکھر راؤ کی پارٹی ،اویسی جس کے ’ رفیق‘ ہیں اس ’ بِل‘ کی مخالف نہیں ہے ۔ چونکہ ’بِل‘ سے نارتھ ایسٹ کی ریاستوں کو ، مثلاً میزورم، تریپورہ، میگھالیہ، منی پور وغیرہ کو’باہر‘ رکھا گیا ہے اس لئے وہاں کی سیاسی پارٹیاں’بِل‘ کی حمایت کرسکتی ہیں ۔ یہ ’بِل‘ اس معنیٰ میں بھی خطرناک ہے کہ یہ ہندوستان کی جمہوری اور سیکولر اقدار پر بھی ایک چوٹ ہے ۔ ملک کا آئین شہریوں کے حقوق کو ’ مذہب‘ سے نہیں جوڑتا جبکہ یہ سرکار ’شہریت‘ جیسے حساس معاملے کو ’ مذہب‘ سے جوڑ رہی ہے ! اس ملک کے ہر شہری کو اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی چھوٹ ہے ، کسی بھی شہری کی مذہب کی بنیاد پر حق تلفی نہیں کی جاسکتی اور یہاں ’شہریت‘ کو ’ مذہب‘ کے ساتھ لازمی کیا جارہا ہے ! ایک سوال یہ بھی اٹھ رہا ہے کہ کیا ایک ہی ملک میں ایک ہی معاملے کے لئے دو الگ الگ قانون ہوسکتے ہیں؟ اگر سارے ملک پر ’ شہریت ترمیمی بِل‘ اپنی منظوری کے بعد لاگو ہوگا تو نارتھ ایسٹ کی ریاستوں پر یہ کیوں لاگو نہیں ہوسکتا ؟ اس سوال کا جواب ’بِل‘ کی منظوری کے لئے نارتھ ایسٹ کی ریاستوں سے سودے بازی میں پوشیدہ ہے ، حالانکہ اگر یہ ’ بِل‘ منظور ہوگیا تو یہ ریاستیں شدید طور پر متاثر ہوسکتی ہیں ۔ مثلاً اب تک بنگلہ دیش کے ’غیر قانونی‘ ہندوباشندے یعنی گھس پیٹھئے، ہندوستان کی ’شہریت‘ کے لئے درخواست نہیں دے سکتے تھے ، اس ’بِل‘ کی منظوری کے بعد وہ درخواست دے سکیں گے اور انہیں گیارہ سال کی جگہ صرف چھ سال کی مدت میں شہریت مل سکے گی ۔ یہ غیر قانونی بنگلہ دیشی ہندو ، یہاں کے شہری بن کر آسام اور مغربی بنگال ہی نہیں نارتھ ایسٹ کی ریاستوں میں بھی بسیں گے ۔ حالانکہ ان ریاستوں میں ’غیر ملکی بنگلہ دیشیوں‘ کے نام پر شدید خون خرابہ ہوتا رہا ہےجو مزید شدید ہوجائے گا ۔ امیت شاہ لاکھ کہیں کہ یہ پاکستان ، بنگلہ دیش اور افغانستان کی غیر مسلم ستائی گئی اقلیت کی بھلائی کے لئے کیا جارہا ہے ، یہ ’مسلم دشمنی‘ کا عمل ہے کیونکہ میانمار میں بھی ایک اقلیت ستائی جارہی ہے جس کا نام ’مسلم ‘ ہے ، میانمار اس فہرست میں کیوں شامل نہیں ہے ؟ سری لنکا کیوں شامل نہیں ہے جہاں تمل ہندو ستائے جارہے ہیں؟ اس سوال کا جواب واضح ہے ، یہ مسلم دشمنی کا عمل ہے۔ ایک بار یہ ’ بِل‘ منظور ہوگیا تو این آرسی کے نام پر ’ مسلمانوں‘ کو’غیر ملکی‘ قرار دے کر کھدیڑنا آسان ہوجائے گا ۔ راجیو گاندھی کی سرکار کے ’آسام معاہدہ‘ کا بغور جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تین درجے بنائے گئے تھے ۔(۱) یکم جنوری ۱۹۶۶۱ء سے قبل آنے والے ، جنہیں معاہدہ کے تحت مکمل حقوق کے ساتھ ہندوستانی شہریت ملنا تھی(۲) یکم جنورری ۱۹۶۶ء کے بعد سے ۲۴ مارچ ۱۹۷۱ء تک کے آنے والے ، جنہیں ’غیر ملکی ‘ سمجھا جانا تھا اور جن کے نام دس سالوں کے لئے الیکٹرل رول سے نکالنا تھے۔۔۔ یعنی یہ بغیر حق رائے دہی رکھنے والے ہندوستانی شہری تھے ۔(۳)وہ جو ۲۴؍مارچ ۱۹۷۱ء کے بعد آئے ، انہیں ہر حال میں واپس بھیجا جانا تھا کہ یہ ’گھس پیٹھئے‘ تھے ۔ جبکہ سی اے بی اور این آرسی کا مقصد یہ ہے کہ وہ تمام مسلمان جو یکم جنوری ۱۹۶۶ء کے بعد آئے ’ گھس پیٹھئے‘ قرا ر دے کر ’واپس‘ کردیئے جائیں ! یہ ہے امیت شاہ اور مودی اینڈ کمپنی کی ’ مسلم دشمنی‘ ۔ یہ آسام معاہدہ کی ’ ایسی تیسی ‘ بھی ہے اور آئین کی خلاف ورزی بھی۔ اور یہ ملک کی دیگر اقلیتوں ،قوموں، اور ریاستوں سے بھی دشمنی ہے ۔ ہوگا یہ کہ جنہیں ’شہریت‘ دی جائے گی انہیں مختلف ریاستوں میں تقسیم کردیا جائے گا ، اس طرح ’ووٹروں‘ کی فہرست میں بی جے پی کے ووٹر شامل ہوجائیں گے ۔۔۔ اور اس طرح مختلف ریاستوں کے سیاسی منظر نامے کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔۔ ۔ گویا یہ کہ ’ ہندوراشٹر‘ کی سمت بڑھتے قدموں کو مضبوط کرنے کی ہی ایک سعیٔ ہے ۔۔۔۔ لہٰذا سی اے بی (CAB) اور این آرسی کو ہٹنا ہی چاہیئے۔