کیونکہ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرب، درد، رنج، ملال کتنے نام ہیں دُکھ کی کیفیات کو بیان کرنے کے لیے۔ لیکن کیا یہ سچ نہیں کہ کیفیتیں، ناموں اور لفظوں سے ماورأ ہوتی ہیں؟ صوفیانہ مؤقف تو یہ ہے کہ ’دُکھ ، نام ہے ناکام حسرتوں کا۔ نہ دِل میں کوئی تمنّا پالو اور نہ دُکھ ہوگا’۔ لیکن یہ قول اُن تمنّاؤں پہ کیسے صادق آئے گا جو اپنی ماہیت میں فکری اور نوعیت میں آفاقی ہوں؟ یا فکری نہ سہی محض بدنی ہو لیکن ناگزیر ہوں، مثلاً شدید جسمانی درد سے آرام کی خواہش کیونکر مٹائی جاسکتی ہے؟ درد ہوگا تو آرام کی خواہش ناگزیر ہے اور دنیا کی کوئی روحانیت اس سے نجات نہیں دلاسکتی۔ برداشت کرلینا اور اتنا برداشت کرلینا کہ درد کی پرواہ ہی نہ رہے یکسر مختلف بات ہے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آرام کی خواہش بھی مفقود ہوگئی۔ جبکہ میرا سوال جسمانی درد سے متعلق ہے ہی نہیں۔ میں ’’کرب‘‘ کی بات کررہا ہوں۔
کوئی نام نہیں۔ کوئی لفظ نہیں جو انسان کے دل پر گزرنے والی حالتوں کو ویسا ہی بیان کرسکے، جیسی کہ وہ ہوتی ہے۔ ہرکوئی اپنے ساتھ اکیلا ہے۔ تن ِ تنہا ۔ جس کی بات اور کیفیات کو سمجھنے والا دُور دُور تک کوئی نہیں۔ کیونکہ وہ گونگا ہے۔ سننے والوں کے لیے اُس کا ہر لفظ مہمل اور بے معنی ہے۔ سننے والے اندھے اور بہرے نہیں ہیں، بلکہ کہنے والا گونگا ہے۔ اِسی لیے غم و غصّے کا اظہار گالیوں سے کیا جاتاہے۔ رونا، چیخنا، چلّانا اور ماتم کرنا ان میں سے محض چند کیفیات کا جبلی اظہار ہے۔ ہرغم رُلانے والا تو نہیں ہوتا۔ ہر غصہ گالیاں دینے سے ٹھنڈا بھی نہیں ہوتا۔ جیسے ہرخوشی ناچنے، گانے سے ہی مکمل نہیں ہوتی۔یہ کیفیات کا جہان ہے اور کوئی لفظ نہیں، کسی بھی زبان کا جو اُس وقت مہمل نہ ہوجاتاہو جب آپ اپنی کیفیت اور حالت بیان کرنا چاہتے ہیں۔
دکھ درد کا ہونا نہ ہونا میرا موضوع نہیں ۔ اظہار کا پیرایہ میرا مسئلہ ہے۔ میں سمجھتاہوں انسان گونگا ہے۔اور اس اعتبار سےہم سب بالکل اکیلے ہیں۔ میرے ایک دیرینہ دوست شفیق قمر اذراہِ تفنن کہا کرتے تھے کہ،
’’زبان، اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنا مافی الضمیر چھپانے کے لیے دی ہے‘‘۔ اور یہ بڑی تلخ حقیقت ہے۔ زبان تو حقیقی کیفیات کا سب سے بڑا پردہ ہے۔ ایک بولنے والے شخص سے کہیں زیادہ ایک گونگے شخص کی کیفیات کو سمجھنا آسان ہے۔ بولنے والا شخص تو قلبی واردات تک کو آلودہ کردیتاہے۔
مجھے یوں لگتاہے کہ جب انسان ویرانے میں ہوتاہے تو اس کے آس پاس کوئی ہوتاہے۔ اس وقت وہ اکیلا نہیں ہوتا، لیکن جب انسان شہر میں ہوتاہے تو اس کے آس پاس سب اکیلے لوگ ہوتے ہیں۔ اکیلے اکیلے رہنے والے تنہا تنہالوگ۔
میرا ایک شعرہے،
شہر میں کتنا ڈر لگتاہے
جنگل اپنا گھر لگتاہے
حالانکہ جنگل والوں نے ہی تو شہر آباد کیے ہیں۔لیکن ان بیچاروں کو کیا پتہ تھا کہ اس طرح ہم بالکل اکیلے ہوجائینگے۔ انہیں پتہ ہوتا تو آج بھی انہیں غاروں میں رہ رہے ہوتے، جن میں ایک ساتھ رہتے تھے اور غم ِ تنہائی سے یکسر آزاد ۔ وہ مردوزن کی جنت تھی ۔ پھر وہ زمین میں بس گئے۔ انہوں نے شہر بسائے پاس پاس رہنے کے لیے اور یوں تحفظ خویش کا جذبہ انہیں ’’مشترکہ مفادات ‘‘سے ایک ایک کرکے علحیدہ کرتا اور انفرادی مفادات کا عادی بناتاچلا گیا۔ صدیوں پر صدیاں بیتتی چلی گئیں اور وہ تنہا سے تنہا ہوتے چلے گئے۔انفرادی مفادات انسانوں کو ایک دوسرے سے دور لے جاتے رہے۔ یہاں تک کہ ناقابل ِ عبور فاصلے درمیان ہوگئے۔
اور اب تو دو صوفوں پر چار لوگ آمنے سامنے بیٹھے ہوتے ہیں لیکن ایک دوسرے سے اتنے دور کہ جیسے نوری سالوں کے فاصلے درمیان ہوں۔ زمانے جدید ہوتے چلے گئے اور تنہائی بڑھتی چلی گئی۔ جنگل میں ہماری یہ جو کیفیت ہوتی ہے کہ کوئی آس پاس ہے ، وہ یہاں شہر میں مل ہی نہیں پاتی ۔ شہر میں بلکہ اپنے گھر میں بھی تنہائی کا احساس قائم رہتاہے لیکن ویرانے میں یہ احساس یکسر فنا ہوجاتاہے۔ کوئی پاس آجاتاہے۔ کوئی بہت قریب سے آواز دیتا اورسنتاہے۔ کوئی دل کھول کر باتیں کرتا اورسنتاہے۔ وہ فکری اور ذہنی آزادی جو ویرانے میں میسرآتی ہے کبھی لوگوں میں نہیں مل سکتی۔ کیونکہ لوگ سب اکیلے رہتے ہیں۔ ایک دوسرے سے دور اور الگ۔
کنج تنہائی میں کون پاس ہوتاہے؟ اس کیفیت میں کتنا قرار ہے ۔ کسی کے آس پاس ہونے کا احساس کتنا طمانیت بخش ہے۔شایدہماری دور کسی جھیل کے کنارے بالکل اکیلے رہنے کی آرزو کبھی پوری نہیں ہوسکتی کیونکہ ہم بے بس ہیں ۔ اور یہی سب سے بڑا المیہ ہے۔
ہماری بے بسی نے بے یقینی تھام رکھی ہے
ذرا سا اختیار آتا، تو تم پر اعتبار آتا
کوئی بھی تمنّا کیوں ہو؟ فکری یا جذباتی؟ تمنّا ہی سرے سے جرم ہے تو پھر زندگی خود سب سےبڑی مجرم کہلائے گی۔ہرطرح کا صوفیانہ مؤقف بھی خوشی نہیں دلا سکتا کہ وہ جذب کے جس مقام کا طلبگار ہے وہ معاشرے میں ہو یا جنگل میں انسان سے اس کی بشریت چھین لینا چاہتاہے۔تصوف کی مجاہدانہ یا اسلامی قسم، جسے اقبال کے معذرت خواہانہ انداز میں ہم ’’صحیح قسم کا تصوف‘‘ کہہ سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا ہے؟ وہ بھی تو شہر میں لوگوں کے درمیان رہ کر ترکِ دنیا کی تبلیغ ہے۔ بالفاظ ِ دگر یہ کہ سب کے ساتھ مل جل کر رہو اور روز کے روز سَہو۔جنگلوں میں جاکر مجاہدے کرنے والو! شہروں میں رہ کر مصائب کا سامنا کرکے دکھاؤ! وہ سب کچھ روزانہ نہایت کھلے دل سے سہتے رہو! جو معاشرے نے تمہارے لیے تیار کررکھاہے۔بھوکوں کو کھانا کھلاؤ! سب کے ساتھ میٹھا بول بولو! اپنی جسمانی خواہشات پر قابو پاؤ! روزہ ڈھال ہے اور عبادت خواہشات اور فواحش سے روکتی ہے۔ اس کے برعکس ویدانت یانام نہاد عجمی تصوف کہتاہے کہ دنیا تیاگ دو! سب خواہشات کا گلہ گھونٹ دو! ہوسکے تو خود کو اذیت دو! ملامت کا راستہ اختیار کرو!
پتن جلی ’’یوگا‘‘ کا بانی ہے۔قدیم ہندو صوفی اور فلسفی ہے۔اس کی تھیوری یہ ہے کہ ہمارے دُکھ درد کی وجہ ہمارا احساس درد ہے۔ ہمارا حافظہ اور بہترمستقبل کی اُمید اِس احساس کی پیدائش کے موجب ہیں۔ ہمارے دکھ میں ہونے کی وجہ ، ہمارا مستقبل اور ماضی میں رہنا ہے۔ ماضی کی یادیں اور مستقبل کے سپنے انسان کو دکھی کرتے ہیں۔اس نے دکھ سے نجات کے لیے یہ تجویز کیا ہے کہ حال میں رہا جائے۔ لیکن اس کے بارے میں وہ یہ بھی تسلیم کرتاہے کہ حال میں رہنا کسی کے لیے ازخود ممکن نہیں۔ یہ اکتسابی عمل ہے تاوقتیکہ فرد ذہنی طور پر غبی نہ ہو۔اس لیے پتن جلی یوگا تجویز کرتاہے اور کہتاہے کہ یوگا میں آپ اپنی مرضی سے پوری کوشش کرتے ہوئے خود کو مستقبل کے سپنوں اور ماضی کے خیالات سے باہر نکالنے کی مشق کرتے ہیں۔یوگا کے ذریعے حال کے لمحہ ٔ موجود پر اس قدر توجہ مرکوز کرو! کہ مستبقل کی ٹائم لائن بھی سُکڑ کر زیرو پر آجائے اور ماضی کی بھی۔تب، وہ کہتاہے کہ تم حال میں داخل ہوسکتے ہو۔
لیکن اگر بہتر مستقبل کی اُمید دل سے نکال دی جائے یا ماضی کو یکسر فراموش کردیا جائے تو پیچھے کیا بچتاہے؟ فقط ایک ایسا مجذوب جسے اپنے حال کے سوا کسی چیز کی کچھ خبر نہیں۔ وہ اپنی شناخت تک سے واقف نہیں۔ وہ خوش ہے، یہ ہم کیسے کہہ سکتے ہیں؟ ہم زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسے ماضی کا کوئی غم یاد نہیں اور مستقبل کی کوئی فکر نہیں لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس کی حالتِ جذب حقیقی مسرت یا اس کا متبادل ہے۔پتن جلی کا نسخہ کہ لمحۂ موجود میں رہنے کی کوشش کرو! کمال لیکن محال ہے۔ مان لیا کہ لمحۂ موجود میں رہنا ہی دُکھ درد سے نجات کا باعث ہے لیکن پھر یہی لمحۂ موجود میں ہروقت کا رہنا کلیۃً مجذوبانہ فعل ہے۔ ایسا انسان جو ہروقت لمحۂ موجود میں، موجود ہو وہ دنیاؤ مافیہا سے اس قدر بے خبرہوجاتاہے کہ اسے ہم قانون سے ماورأ اور مرفوع القلم کہتے ہیں۔
میری دانست میں انسان کا سب سے بڑ المیہ سوسائٹی کا وجود ہے۔وہ سوسائٹی کے بغیر سروائیو نہیں کرسکتا۔ وہ اکیلا نہیں رہ سکتا، اُسے دوسروں کے ساتھ رہنا پڑتاہے اور یہی ضرورت، تمام ضروریات کی پیدائش کا سبب بنتی ہے۔ تمام ضروریات، یعنی تمام خواہشات اور تمنّائیں۔ گویا معاشرہ ہی دُکھ کی بنیاد ہے۔انسان سمجھتاہے کہ وہ معاشرے میں رہ کر اکیلا نہیں رہیگا۔ اور یہیں سے اس کے دھوکے کی ابتدا ٔ ہوتی ہے۔ میں تو سمجھتاہوں کہ انسان بہت اکیلا ہے۔ اس بیچارے کو اکیلا پن دور کرنے کے لیے سوسائٹی کے دھوکے سے نکلنا چاہیے۔ جنگل میں اس کا اکیلا پن دور ہوسکتاہے۔ کیونکہ فی الاصل مذہب سے لے کر ریاست اور ثقافت سے لے کر خاندان تک بھانت بھانت کے قوانین کی بہتات اور ہزاروں سال کی تہذیب کا بوجھ ہی انسان کا سب سے بڑا دُکھ ہے؟ انسان بنیادی طور پر غمزدہ مخلوق ہے۔ علاقہ اقبالؒ نے اپنے خطبات میں لکھا ہے، ’’موت و حیات کی کشمکش اور قوائے فطرت کے سامنے بے بسی کی وجہ سے اپنے غم کو پیرایۂ اظہار دینے کے لیے انسان نے قصۂ آدم و حوّا کا سہارا لیا‘‘۔ انسان ایک غمزہ مخلوق ہے کیونکہ وہ اپنی حدود اور بے بسی کو سمجھتاہے۔ یہ فطرت کا خودکار نظام ہے ، شاید اس لیے کہ وہ مسلسل اس (غم) سے نکلنے کے لیے تگ و دو کرتا رہے۔
فلسفۂ لذت کے مفکر گرورجنیش المعروف اوشو نے بھی تو ویدانت ہی کا راستہ ذرا مختلف طریقے سے اختیار کیا۔ اس کے ہاں حال میں مست رہنے کا فلسفہ تو وہی رہا لیکن اس مستی کے حصول کو جدید افکار کے ساتھ متوازن کی کرنے کی کوشش کی گئی۔ اب وہ یہ نہیں کہتا کہ حال میں رہنے کے لیے دنیا اِس طرح ترک کرو کہ کوئی خواہش ہی نہ رہے۔ بلکہ وہ کہتاہے کہ ’’لمحۂ موجود‘‘ کے حصول کا وقت ہی وہی ہے جسے ہم جنسی عمل کے دوران ’’وقتِ انزال‘‘ کہتے ہیں۔ اپنی کتاب ’’کاما ٹُو راما‘‘ میں اُس نے اسی موضوع پر بے شمار دلائل دیے ہیں۔ جن کا انداز سراسر متصوفانہ ہے۔
علامہ اقبالؒ نے اُس جنت کو بھی ’’مفروضہ حالت‘‘ قرار دیاہے جہاں سے ہم نکل کرآئے ہیں۔ اور اس کی وجہ بھی علامہ نے وہی بتائی ہے کہ چونکہ انسان دکھ درد سے مایوس تھا سو اس نے اپنے ماضی کو ایک مفروضہ جنت سے یادگار بنا دیا تاکہ بہتر مستقبل (جنت) کی اُمید میں کم ازکم جینے کے قابل ہوسکے۔
تو نتیجہ کیا نکلا؟ دکھ درد ہے؟ اگر ہے تو اس کا مداوا کیسے ہو؟ اُمید ِ محض سے؟ یا ترکِ دنیا سے؟ ترکِ دنیا کونسا؟ شہر میں رہ کر؟ یا جنگل میں جاکر؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لذتوں کو اختیار کرکے یا لذتوں کو ترک کرکے؟ ماضی اور مستقبل سے بے نیاز ہوکر؟ یا ماضی کے غموں کو سینے سے لگائےآنے والے کل کی سہانی آسوں اور اُمیدوں سے؟
انسان کے غم کا مداوا کسی شئے میں نہیں۔ کیونکہ یہ اپنی اصل میں تنہائی کا غم ہے۔ اس پوری کائنات میں ایک اکیلا ’’میں‘‘۔ میں جو اپنے دل کا حال کسی سے نہیں کہہ سکتا کیونکہ میرے پاس الفاظ نہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“