۔ "ریاضی اور تاریخ میں جمع و تفریق کا عمل شاید ازل سے جاری ہے۔ ہندسے ، تہذیبیں اور افراد جمع ہوتے آئے ہیں"، وہ سوچتی۔ " میں فرد ہوں یا فرد فرد ۔؟" ٹکڑے ٹکڑے تو وہ آج بھی ہے مگر مجتمع ہونے کی کوشش جاری ہے ۔ مردوں کی لکھی ہوئی تاریخ نے ہمیشہ اُسے تفریق کیا ، بلکہ ریشہ ریشہ، اسے عورت کہہ کر ، مرد کی پسلی سے نکلی حقیر شے سمجھ کر ، ادھیڑتے چلے گئے ۔ تمام زبانوں اور علوم کے بڑے بڑے گیانی، ودوان اور مہا کوی اپنے فرمودات اور اقوال میں اسے روندتے چلے گئے ۔ " کیا میں شے ہوں ؟ لیکن شے کی تو ایک حد تک حیثیت ہوتی ہے " ۔ وہ آج بھی عجیب پیچ میں تھی ۔ الجھی الجھی ۔
"مجھے جمع کیوں نہیں کیا جاتا"؟ یہ اُس کا سب سے بڑا سوال ہے ۔ خدا سے خود سے اور اس دنیا سے جس میں نہ صرف وہ موجود ہے بلکہ جسے بنانے میں وہ خود صرف بھی ہوئی ہے ۔ المیہ تو وہاں سے آغاز ہوتا ہے جہاں آپ کو خانہ بدر کر دیا جائے ۔ یعنی اس گھر سے جو آپ نے بنایا ۔ بالکل ایسے جیسے کائنات میں رہنے والے اس کے خالق کو بھول جائیں۔ " وہ مارا ! واقعہ ایسا ہی ہے کہ دُنیا میں رہنے والے اس کو بنانے والے کے بارے میں کم کم ہی سوچتے ہیں ۔ کبھی کبھار کسی جنازے پر ، بیماری میں یا ایسی ہی کسی اور تکلیف میں، ورنہ درست طور پر دیکھا جائے تو ان کے دلوں اور ذہنوں میں بلکہ روزمرّہ میں بھی خالق بھلا کہاں ہوتا ہے ! ماضی اور حال کی تاریخ سے عورت کا مسلسل تفریق ہوتے رہنا بھی کچھ ایسا ہی مسئلہ ہے" ۔ وہ ، وقتی طور پر سہی ،خوش ہو گئی ۔ شاید اسے لئے کہ اکیلے پن کا احساس اس نئی سوچ سے کچھ کم ہو گیا تھا.
وہ میری ماں ہے ہاں وہی جس نے مجھے زندگی دینے سے پہلے ہی موت دے دی۔ وہ معاشرے کی پابندیوں میں جکڑی ماں جس کا مذہب اسی بنیاد پر قائم ہوا کہ معاشرت میں عورت کو ازسرِ نو اس کا مقام دلایا جائے اوراُس کی حیثیت کو برقرار رکھا جائے ۔ میری ماں کے مذہب نے جہاں دوبارہ جنم لیا وہ ایسا معاشرہ تھا جہاں بچیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا ۔ معاشرہ اتنا خراب ہو چکا تھا کہ اپنی لڑکیوں کی حفاظت نہ کر سکتا تھا ایسے میں اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر ، حضرت محمد صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم کو بھیجا جنہوں نے یہ بتایا کہ لڑکیاں زندہ دفنانے کے لئے نہیں بلکہ سر آنکھوں پر بٹھانے کے لئے ہوتی ہیں ۔ نبی پاک نے جہاں معاشرے کی باقی برائیوں کو پاک کیا وہاں انہوں نے اپنی روزمرہ زندگی اور عمل سے یہ بھی سمجھایا کہ عورت کا اصل مقام و مرتبہ کیا ہے۔انہوں نے اپنی ذاتی زندگی میں اپنی شریک حیات اور بیٹی کو وہ مقام و عزت دی کہ اس صحرا میں جہاں بیٹیاں اپنے والدین کے ہاتھوں تپتی ریت پہ لٹا دی جاتی تھیں وہاں نبی پاک نے ان کواپنے سینے پہ لٹایا۔ جہاں نوزئیدہ بچیاں اپنے آنسووں سے زندگی کی بھیک مانگنے پر بھی خالی ہاتھ موت کی آغوش میں جا لیٹتی تھیں ۔ نبی پاک نے اُن کے آنسووں کو موتی بنا ڈالا جو معاشرے کے سیپ میں پلنے لگے۔ ایک ایسے معاشرے نے جنم لیا جہاں رابعہ بصری اور رضیہ سلطانہ جیسی عظیم ہستیوں کی روایات کے سلسے کا نیا آغاز ہوا۔ لیکن افسوس کہ آج اتنی صدیاں گزرنے کے بعد روایات نے پلٹا کھایا،عورت کی عزت و تکریم کو مسمار کیا جانے لگا اورمعاشرہ اُسی نہج پہ آن پہنچا جہاں میری ماں کو اپنی کوکھ اجاڑنی پڑی۔آج دنیا کی نظر میں ،میں اسی ریت تلے دبی ہوں، جہاں جسم مایا ہے۔
قدرت پر کس کو اختیار ، میری ماں کی کوکھ سے میری روح نے دوبارہ جنم لیا۔ میری روح جس شکل میں دنیا میں آئی اسے کوئی طاقت نہ مٹا سکی میری بہن نایاب کو اپنا بچپن دنیا کے طعن زدہ پتھروں پہ گھسیٹنا پڑا ۔ جتنا اس کا خون بہتا ،اتنا ہی اس کے خیالات مثبت سمت فراوانی سے بہنے لگتے ۔ جتنا اس کے خون کو خشک کیا جاتا ،اتنا ہی وہ نڈر ہو کر دنیا کے دھارے میں پھسلتی جانبِ منزل رواں ہوتی ۔ جتنا اُس کے خون سے عزت نفس کی ہولی کھیلی جاتی اتنا ہی اُس کے شعور کے رنگ نکھرتے چلے جاتے۔
نایاب نے اعلی نمبروں سے ہائی سکول پاس کیا، پھر یونیورسٹی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ پی ایچ ڈی کرنے میں کامیاب ہوئی ۔ تدریسی مشاغل کے ساتھ ساتھ وہ فلاحِ بہبود کے کاموں میں پیش پیش رہتی ۔ چھوٹی سی عمر میں ہی اس نے بڑی بڑی تنظیموں میں اپنے مفید مشوروں سے اچھا نام و مقام بنا لیا تھا۔ اب اس کی اپنی تنظیمیں دنیا میں پھیلنے لگی تھیں ۔ وہ مدر ٹریسا سے بہت متاثر تھی ۔ اس کو مدر ٹریسا انعام بھی مل چکا تھا۔ لیکن اس کی منزل ابھی بہت آگے تھی ۔ وہ اپنی زندگی میں صوفی منش تھی اس نے تمام صوفی ، رشی اور سنتوں کا بھی مطالعہ کیا تھا ۔بہت سے پرچوں میں اُس کی تخلیقات شائع ہوتیں جو وہ تنہائی میں نئے نئے منصوبے سوچا کرتی۔ اس نے دنیا کو جہالت کی تاریکی سے نکالنے کا پختہ عزم کر رکھا تھا۔ اس کے عمل ،دھیان اور گیان سب نے مل کر اسے ایک مکمل انسان بنا دیا تھا ۔
نایاب نے بایو فزکس میں ڈگری لے رکھی تھی اور وہ ایک لیبارٹری میں ریسرچ کا کام کرتی تھی ۔ اس کی ٹیم میں مرد اور عورتیں سبھی شامل تھے۔ اُسے وہ دن اچھی طرح یاد تھا جب اس کی سہیلی کلپنا چاولا خلا نوردی کو جا رہی تھی ،بے شک وہ رشک کے قابل تھی ، آج پھر سنیتا ولیم ایک خلائی سٹیشن پر ۱۹۵ دن گزار کر آئی تھی ۔گو نایاب نے کبھی انسانوں میں امتیازی سلوک نہیں برتا تھا نہ ہی وہ اپنے من میں کبھی مرد و عورت میں تفریق رکھتی تھی پھر بھی جب کبھی کوئی عورت بہت بڑا کارنامہ کرتی تو اس کو ایک انجانا احساس ہوتا جس کا کوئی نام نہیں تھا شاید وہ لاشعور میں چھپا کوئی احساس ِ محرومی کا ردِ عمل ہوتا۔
بہت غور و فکر کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچی تھی کہ کسی بھی معاشرے سے جہالت دور کرنے کے لئے سب سے پہلے وہاں معاشیا اصلاح لازمی امر ہے ۔آج کے معاشرے کا المیہ یہی ہے کہ برائی عام ہوتی جا رہی ہے لیکن اس کا سد باب تو کجا اس کی بنیادی وجہ کو بھی عام انسان سمجھنے سے قاصر ہے۔ دولتِ مشترکہ کی غیر متوازی تقسیم اسے دن رات بے چین کئے رکھتی ، وہ سوچتی کہ وہ کون سا نظام ہو سکتا ہے جو اس بے راہ روی کی بنیادی وجہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔ تمام لوگوں کو برابر حقوق دلائے اور اسی خاطر وہ بہت کم عمری میں فلاحی تنظیموں سے فعال رہی۔ اپنے حصے کا کام وہ مکمل کرنا چاہتی تھی۔ اسی معاشرے نے نایاب کے بچپن کو جہنم بنائے رکھا صرف اس لئے کہ وہ لڑکا نہیں تھی۔ معاشرہ ایسی ہی دوسری برائیوں اور گناہوں سے اٹا پڑا تھا ۔ اس سیاہی کو مٹانے کے لئے نایاب نے اپنے روز و شب ایک کر دیئے تھےاور آج اُس کا نام لینے اور اُس سے رشتہ جتانے میں لوگ فخر محسوس کرتے تھے ۔ وہ اس سب سے بے نیاز صرف ایک ایسا نظام تشکیل دینے کی فکر میں تھی جہاں قانون اور قدریں مل کر کر بہتریں نسلِ انسانی کی بنیاد رکھیں۔ وہ معاشرہ جہاں ماوں کی کوکھ کو لڑکیوں کا قبرستان نہ بنا دیا جائے۔ایسا معاشرہ جہاں وہ بیٹے پیدا نا ہوں جو اپنی عورتوں کے محافظ نہ ہوں اور اپنی عورتوں کی بے حرمتی کریں۔ اس کے من میں ان تمام خاتون لیڈروں کے نام گونجنے لگے جنہوں نے دنیا کے مختلف حصوں میں اپنے اپنے حصے کا کام کیا اور معاشرے کی تشکیل میں اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔ سری ماو بندرانائکہ، بےنظیر بھٹو، کم کیمپ بیل۔ چندریکا کمار تنگا، اور پچاس سے زائد ایسی ہی وزراء ِ مملکتجو اپنے اپنے ملکوں کے لئے مشعلِ راہ بنیں۔ ان کے علاوہ دوسرے تمام شعبوں مین اعلی عہدوں پہ فائز عورتیں، بڑے بڑے کارنامے کرتی خلاؤں کو تسخیر کرتی عورتیں ۔ وہ سوچتی اگر ان سب کی مائیں بھی اسقاطِ حمل کروا دیتیں تو کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہی نہیں دنیا کے تمام مردوں کو بھی وہ بہت محبت و احترام کی نظر سے دیکھتی ۔ اس کا خیال تھا کہ مرد ، عورت کی گود میں ہی پل کر جوان ہوتا ہے اور اس کی تعلیم وتربیت میں ماں کا کردار شامل ہوتا ہے ۔ اگر ہر لڑکی کو اس کی بہن کی طرح ماں کی کوکھ میں ہی دفن کر دیا جائے تو کیا یہ دنیا آگے چل سکے گی۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ نثر پارہ انڈیا اور دیگر ممالک میں لڑکیوں کی پیدائش سے قبل اسقاطِ حمل کی بڑھتی ہوئی تعداد پر کینیڈا میں منعقد تحریکوں کے لئے لکھا گیا ہے جو کہ انڈیا میں مختلف پرچوں میں شائع ہو ا۔
اک کھلی کو یتا
میں شرمندہ واں اناں ساریاں کڑیاں توں جناں دے لئی اناں دی ماواں دی کوکھ نوں شمشان گھاٹ بنا دتا گیا
اناں ساریاں کڑیاں توں جناں دے لئ کوڑے دی ڈھیری نوں اناں دی سیج بنا دتا گیا
میں شرمندہ واں اناں ساریاں کڑیاں توں جناں نوں سنہرے گوٹے والی ساوی چنی وچ بن کے گنگا دی ڈولی تے ٹور دتا گیا
تے یم دیوتا دی دھی نوں اناں دا نذرانہ پیش کیتا گیا
اج میں اناں ساریاں آتماواں توں شرمندہ واں جیڑی میرے آسے پاسے کھلوتی مینوں بڑی آس نال تک ریاں نیئں
میں انا سب دا نواں جنم آں
پر اے بےچارگی دا جنم نئیں
آو اج وعدہ کرئیے کہ اج توں بعد
کوئی ماں اپنی کوکھ نوں کڑیاں دا قبرستان نہیں بنائے گی۔
https://www.facebook.com/groups/nairawayat/permalink/1867255436838771/