بظاہر تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ’کیوں ‘ فقط ایک سوالیہ نشان ہے اور بس! لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سوالیہ علامت نے اپنی گودی میں صدہارموز و اسرار کو پروان چڑھایا ہے اور اس کے خدو خال تراشے ہیں۔ یہ ایک نہاںراز ہے جو اپنی آغوش میں انگنت ترقی یافتہ اور شہرت یافتہ افراد کی پرورش کر تا چلا آیا ہے۔
دین اسلام نے بھی بڑے ہی شد و مد کے ساتھ غور و فکر کرنے کی دعوت دی ہے۔ قرآن حکیم نے بھی متعدد مقامات پر فکر و تامل کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔’افلا یتدبرون القرآن ام علی قلوب اقفالھا‘
تو کیا یہ لوگ قرآن میں ذرا بھی غور و فکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل پڑے ہوئے ہیں۔ (سورہ محمد ؍۲۴)
’اولم یتفکروا فی انفسھم‘
کیا ان لوگوں نے اپنے اندر فکر نہیں کی۔ (سورہ روم ؍۸)
مختلف مقامامت پر ’افلا تعقلون‘تم تعقل کیوں نہیں کرتے؟
اور ’افلا یتدبرون‘ تم تدبر کیوں نہیں کرتے؟
اور ان کی مانند فکرافزا جملات بالکل نمایاں طور پر مسلمانوں کو بیداری کی جانب پکار رہے ہیں کہ دیکھو خواب خرگوش کا شکار مت ہوجانا اور نہ ہی آنکھوں کو موند کر ہر کس و ناکس کی باتوں پر کان دھر لینا اور ان پر یقین کرلینا۔
اسلام نے کورانہ تقلید کی سخت مذمت کی ہے ۔اسی لیے اصول دین میں مکمل آزادی فکر کا حق دیا ہے۔ مسائل شریعت میں تحقیق سے کا م لیں۔ اگر ریاض پیہم کے باوجود حق بجانب ثابت نہ ہو سکے تو کم ازکم آپ کی زحمت رائیگاں نہ جائے گی بلکہ اس کا بھی صلہ دیا جائے گا۔
حقیقت توحید کیا ہے؟
دو خدا کیوں نہیں ہوسکتے ؟
اور اس طرح کے دیگر سوالات جو آپ کے ذہنی گرہوں کو کھول دیں۔ تاکہ آپ دین میں تحقیق کریں اوریوں دین مبین کو سمجھیں اور حقائق کو نگاہ بصیرت سے قبول کریں۔ دین اسلام میں کوئی زور زبردستی نہیں کہ اسی مذہب کے مطیع بن جاؤ بلکہ آپ کو اس کے انتخاب میں آپ کو مکمل آزادی حاصل ہے۔
’کیوں‘ کا لفظ ایک کلید ہے جس سے خزانہ علم و حکمت کھلتے ہیں۔ دورحاضر میں میڈیا سب کے ذہنوں پر غالب ہے ۔ ایسے افراد بھی ہیں جو سچ اور جھوٹ کی پرواہ کئے بغیر ہر ایک کی بات پر یقین کی مہر لگا دیتے ہیں اور کبھی غور و فکر کرنے کی زحمت تک نہیں کرتے کہ اگر ایسا ہے تو ویسا کیوں نہیں ۔۔۔؟!
آج کل پھونک پھونک کر قدم رکھناچاہئے ۔ کیوں کہ میڈیا کا مقصد تھا حقائق کی نمائندگی کرنا لیکن اب اس کا ہد ف تقربیا فوت ہوچکا ہے۔
یہ سوالیہ نشان کبھی کبھی اتنی عظیم کامیابی کاسبب بنا ہے کہ تاریخ بن گئی ہے ۔ تقریبا سبھی لوگوں نے نیوٹن کا نام سنا ہی ہوگا۔ اس کی کامیابی کی شاندار عمارت اسی ’کیوں‘ پر قائم تھی۔ درخت سے ایک سیب زمین پر گرتاہے ۔ اس کے ذہن میں ایک سوال ابھرتا کہ یہ پھل زمیں پر ہی ’کیوں‘ گرا۔۔۔؟!
سوال کا جنم لینا تھا کہ ابواب تکامل وا ہونا شروع ہوگئے اور وہ یوں فکری سفرطے کرتے اس نتیجہ کو پہونچا کہ ہماری زمین میں کشش پائی جاتی ہے ۔
تاریخ میں بہت سے ایسے افراد ہیں جن کو ان کے سوالات اور بیدار مغزی نے تاریخ کا حصہ بنا دیا اور وہ ہمیشہ کے لئے زندہ ہوگئے۔ ٰلہٰذا، فکری تعطیل نہیں ہونا چاہئے بلکہ ہر مسئلہ میں تفکر سے کام لینا چاہئے۔
مسلمان گھرانے میں پیدا ہوکر مسلمان افراد تو دنیا میں بہت ہیں۔ ان کا نام بھی اسلامی ہے ۔ خود کو مسلمان بھی کہتے ہیں اور وہ صرف یہی نہیں بلکہ لوگ بھی انہیں مسلمان کہتے ہیں۔ ان کے کارنامے کو اسلام کا نام دیا جاتاہے ۔ لیکن کیا حقیقی اسلام ایسے ہی مسلمان کا خواہاں ہے؟
اسلام، محض نام کے مسلمان کو نہیں بلکہ اسلامی قوانین پر عمل پیرا شخص کو حقیقی مسلمان تسلیم کرتا ہے۔ ماں نے اگر گود میں اللہ ایک بتا ہے تو شعور و آگہی آجانے کے بعد اس کی وحدانیت پر دلائل تلاش کرنا ہماراسلامی فرض بن جاتا ہے ۔اس لیے۔۔۔ضروری ہے کہ ہم غور و فکر کے ذریعہ ہی اسلام کے مسائل کو سمجھیں اوردینی ماحول اپنائیں نہ کہ ماحولیاتی دین….!
“