؎ کتنے دنوں کے پیاسے ہونگے یارو سوچو تو
۔
بچپن سے اردو پڑھنے کا چسکا لگا تو بڑھتے بڑھتے اردو شاعری و ادب تک جا پہنچا۔ پھر نوبت ایں جا رسید کہ شعر کہنے لگے، نثر پڑھنے لگے۔ مسئلہ تب ہوا جب ادبی حلقوں میں جانے کی کوشش کی اور ادیبوں شاعروں سے زرا بے تکلف محفلوں میں ملاقات ہوئی۔ پوری دیگ کا دعوٰی نہیں مگر ایک پلیٹ کی حد تک تو بات کر ہی سکتا ہوں۔
میرا مشاہدہ یہ ہے کہ ہمارے خطے کے ادیب و شاعروں سے زیادہ ترسی ہوئی مخلوق دنیا میں نہیں پائی جاتی۔ ترسی ہوئی اور ۔ ۔ ۔ ہر ہر لحاظ سے ترسی ہوئی۔ توجہ، خوراک، پوشاک، محبت، صنف مخالف کی قربت، اور درہم و دینار۔ یہ ایسی عذاب زدہ مخلوق ہے جن کو یہ نعمتیں شائد جنت میں بھی نہ ملیں۔
انکی "ترساہٹ" دیکھ کر اور اس ترساہٹ کو اردو شاعری و نثر کے قالب میں ڈھالتے دیکھ کر ایک دوسرے کو اسی پر داد دیتے دیکھ کر دل اتنا خراب ہوا کہ بعد کے سالوں میں ہر ایک سے کہتے پھرے کہ مجھے سب کہنا ، کبھی ادیب و شاعر مت کہنا۔
کوئی حجت کرنا چاہے تو لفظ و قرطاس سے کھیلنے والے طرح طرح کی تاویلیں کرلائیں گے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ عورت کو ایک انسانی جسم سے آسمانی دیوی کے اوتار میں پیش کرنے کا سہرا انہی ناآسودہ خواہشات کے سر ہے جو ان ادیبوں او شاعروں کی ویران دھواں زدہ راتوں میں محرومی بدن سے پیدا ہوئیں۔
گاندھیؔ نے اپنی کتاب میں اپنے بھوکا رہنے کے تاثرات لکھے ہیں۔ اپنی تپسیا کے دوران مسلسل بھوکا رہنے سے ذائقے پر کیا کیا اثرات ہوتے ہیں۔ اس پر لکھتے ہوئے گاندھی لکھتا ہے کہ تیرھویں چودھویں روز کی بھوک کے بعد مونگ پھلی کا ایک دانہ بھی ذائقے میں دنیا کے ہزار کھانوں پر بھاری لگتا ہے۔
سوچئے ایسی ہی "بھوک" کاٹتے ادیب کو پندھرویں روز گھاٹن لڑکی مل جائے تو ۔ ۔ ۔ ؟؟
؎ شبنم کا قطرہ بھی جن کو دریا لگتا ہے۔ (ابن انشا)
_____________________________
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“