کتنے اور جھوٹے مقدمے ڈالو گے ندیم اشرف کے خلاف؟
چار اکتوبر 2017 کو ضلع اوکاڑہ کے تھانہ ستگرہ میں درج ایک ایف ائی آر کے مطابق نہر کنارے آتی ایک مشکوک گاڑی کو روکا گیا تو کار سے گرفتار ہونے والا شخص ندیم اشرف نکلا جو جیل سے اپنے ساتھیوں کو چھڑانے کے لئے دو ھینڈ گرنیڈ اور کلاشنکوف رائفل سمیت جیل پر حملہ آور ہونے جا رھا تھا۔ یہ ندیم اشرف جیل کاغذات کے مطابق 26 ستمبر 2017 کو دو سال سے زائد جیل کاٹ کر ضمانت پر رھا ہوا تھا۔
ندیم اشرف رینالہ خورد ملٹری فارمز کے مزارع چوھدری اشرف کا بیٹا اور انجمن مزارعین پنجاب کا نائب صدر ہے۔ جب 26 ستمبر کو دو سال زائد جیل کاٹ کر وہ اکثر مقدمات میں بری اور بقیہ میں ضمانت کرا چکا تو اسے رھا کرنے کی بجائے ایک تھانے میں بند رکھا گیا۔ اور سات دن کا وقفہ ڈال کر اس پر ایک اور جھوٹا مقدمہ ڈال دیا گیا۔
ندیم اشرف کو 2015 میں قتل کے ایک جھوٹے مقدمہ میں گرفتار کیا گیا تھا۔ بعد ازاں اس پر 31مقدمات ڈال دئیے گئے۔ ان میں پانچ قتل کے مقدمات تھے۔ ان کے ساتھیوں اور خاندان نے ان مقدمات کی عدالتی پیروی جاری رکھی اور قتل کے چار مقدمات میں اسے عدالتوں نے بے گناہ قرار دے کر بری کر دیا تھا۔ جبکہ قتل کے ایک مقدمہ میں سپریم کورٹ نے ان کی ضمانت منظور کر لی تھی۔
ان پر انسداد دھشت گردی کے دفعات سمیت سنگین جرائم پر مبنی مقدمات درج کئے گئے تھے۔ اکثر مقدمات ان کی گرفتاری کے بعد ڈالے گئے۔
نریم اشرف کا دیگر مزارعین راھنماؤں سمیت حقیقی قصور یہ تھا کہ یہ رینالہ خورد میں ملٹری فارمز کی اس زمین کی حق ملکیت کا مطالبہ کرتے تھےجسے اس کے اباؤ اجداد ایک سو سال سے زیادہ عرصہ سے کاشت کر ررھے ہیں۔
ندیم اشرف سے میری ملاقات 2002 میں ہوئی، رینالہ خورد ملٹری فارمز کا ندیم اشرف اس وقت بی ایس سی کا طالب علم تھا۔ ان کے گاؤں کے ساتھ ہی دوسرے گاؤں کا محمد بشیر انجمن مزارعین پنجاب کا پہلا شہید تھا جو اپنے گاؤں میں ایک مظاھرے کے دوران گولیوں کا نشانہ بن گیا تھا۔ ہم اس کے چہلم میں شریک ہوئے تھے۔ بعد ازاں مشرف دور میں انجمن مزارعین پنجاب کے دس مزارعے جلسے جلوسوں میں شہید ہوئے۔
پنجاب میں مزارعوں اور چھوٹے کسانوں کی اس تحریک نے مشرف دور میں آمریت کو جاندار طریقے سے جھنجوڑ کے رکھ دیا تھا۔ یہ پنجابی کسانوں کی دیر بعد ایک بڑی تحریک بن کر ابھری اور اس کو بےنظیر بھٹو اور میاں نواز شریف سمیت آے آر ڈی کی حمائیت حاصل تھی۔ تمام ریڈیکل سوشل تنظیمیں بھی اس کی حمائیت کر رھی تھیں۔
ندیم اشرف اپنی یونین کونسل کا ناظم بھی منتخب ہوا اور 2013 کے عام انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں اس نے تحریک کے امیدوار کی حیثیت سے چھ ہزار سے زیادہ ووٹ بھی لئے تھے۔
وہ ایک تنظیمی فرد تھا۔ جو تقریر کرنے کی بجائے عمل پر یقین رکھتا تھا۔ وہ تحریک کو زندہ رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرتا تھا۔ پوسٹر بنوانے، بحث کرنے اور تحریک کو تیز کرنے کے لئے اکثر لاھور ھمارے پاس آتا۔ اور ھم بھی جب اس نے بلایا اس کے پاس گئے۔
ندیم اشرف کی گرفتاری کے بعد اس کے ساتھی مزارعین نے اسے چھڑانے کے لئے ہر حربےآزمائے۔ بالآخر انہوں نے ملٹری فارمز سے ایک معاھدہ بھی کر لیا۔ تمام بقایاجات ادا کرنے کے ساتھ آئندہ مکمل تعاون کرنے اور زمیں کی ملکیت کےمطالبہ سے دستبرداری تمام شرائط مان لیں، مزارعین کی صرف ایک شرط تھی کہ ندیم کے خلاف تمام جھوٹے مقدمات واپس لئے جائیں اور رھا کیا جائے۔ اس پر دستخط بھی ہو گئے۔ مزارعین نے اپنے زمہ شرائط پوری بھی کر دیں مگر ندیم اشرف رھا نہ ہو سکا۔
بالآخر ندیم اشرف کے وکلاء جن میں محترم آعظم نزیر تارڑ کے علاوہ اختر حسین بھٹی، فاروق باجوہ، ملک ظفر اقبال کھوکھر اور محمد اویس شامل تھے نے دن رات کی محنتوں کے بعد انہیں تمام اکتیس مقدمات میں یا تو بری کرا لیا یا پھر ان کی ضمانت منظور ہو گئیں۔
پولیس پھر پولیس ہے۔ ندیم کی ضمانتوں پر رھائی کے بعد جیل سے رھا کرنے کی بجائے، تھانے میں رکھ کر، ان کو کاغذوں میں رھائی ڈلوا کر، گاڑی میں کلاشنکوف پکڑا کر، ھینڈ گرنیڈوں کی ذریعے جیل پر حملے کرنے کی نیت کے حوالے سے پھر ایک نیا مقدمہ ڈال دیا گیا ہے۔ اور یہ ابھی چار اکتوبر کی بات ہے۔
قصور یہ ہے کہ یہ مزارعے کیوں جرات کریں کہ ملٹری فارمز کے قبضے کی زمین جس پر مزارعے 100 سال سے زیادہ عرصے سے کاشت کر رھے ہیں کی ملکیت کے لئےنعرے لگائیں۔ ان کو ھمت کیسے ہوئی؟
ہم نے تو بے شمار دفعہ کہا۔ کہ جس کا کام اسی کو ساجھے، مزارعوں کو زمینیں کاشت کرنے دیں اور آپ دفاع کا کام جاری رکھیں۔ مگر ہماری سنتا کون ہے؟
مزارعوں کی حق ملکیت تحریک کی یہ تاریخ محنت کش طبقات کے لئےجرات کی ایک ایسی مثال ہے جس کا حالیہ تاریخ میں کوئی ثانی نہیں۔
پولیس نے بھی اوکاڑہ مزارعیں کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کرنے کی ایک نئی مثال قائم کی ہے۔ ایک ایک راھنما کے خلاف درجنوں مقدمات ہیں۔ سلیم جکھڑ جب 95 مقدمات میں گرفتاری کے بعد ضمانتوں پر رھا ہوا، اس کو تو چند روز کی آزادی مل گئی اسے مذاکرات کے لئے اوکاڑہ تھانہ میں بلایا گیا،تو اسے بتایا گیا وہ ایک دفعہ پھر سرکاری "مہمان" ہے۔
مہر عبدالستار کے خلاف 36 مقدمات ہیں۔ اکثر میں اس کی ضمانت یا رھائی ہو گئی ہے۔ مگر اس کے خاندان کو ڈر ہے کہ وہ اگر رھا ہوا تو اسے بھی ندیم اشرف کی طرح ایک نئے مقدمے میں ڈال کو گرفتار رکھا جائے گا۔ اوکاڑہ ملٹری فارمز یونین کونسل کا منتخب چئرمین نور نبی کی تمام مقدمات میں ضمانت ہے، مچلکے نہیں دئے جا رھے کہ وہ بھی پھر گرفتار ہو جائے گا۔ دیپال پور آرمی ویلفئیر سٹیٹ کا مزارع راھنما چوھدری شبیر ساجد دو سال کے بعد جب ضمانتوں پر رھا ہوا تواب اس کی کئی مقدمات میں ضمانت کینسل ہو چکی ہے کہ اگر عدالت جائے گا تو اسے پھر گرفتارکر لیا جائے گا۔ وہ عدالت جانے سے بجا طور پر گبھراتا ہے۔
مہر عبدالستار، نوربنی اور ندیم اشرف تمام یونیورسٹی گریجویٹس ہیں۔ تینوں اپنے علاقوں کے منتخب ناظم یا چئیرمین رہ چکے ہیں نورنبی تو اب بھی منتخب چئرمین ہیں۔ مہر ستار تو صوبائی اور قومی اسمبلی کا نتخاب بھی لڑ چکا ہے اورایک دفعہ تو اس نے 35000 سے زائد ووٹ لئے تھے۔
نور نبی اور ندیم اشرف تو اس لیبر پارٹی کے ممبر تھے جو 2012 میں دوسری دو پارٹیوں کے ساتھ ضم ہو گئی تھی اور عوامی ورکرز پارٹی کی تشکیل پائی تھی۔ نور بنی تو عوامی ورکرز پارٹی کی پہلی فیڈرل کمیٹی کے ممبر ھی منتخب ہوئے تھے۔
اوکاڑہ ملٹری فارمز کے مزارعین راھنماؤں کے خلاف جھوٹے مقدمات کی ایک طویل لسٹ ختم ہونے کو نہیں آتی کہ انہیں ایک عبرت ناک مثال بنا کر پیش کرنے کا پیغام زندہ رھے۔ وہ مثال بنائے جا رھے ہیں کہ اگر آواز اٹھاؤ گے تو تمہارا بھی یہی حشر ہو گا۔
مگر وقت کب کس کا ہوا ہے؟ وقت بدلتے وقت نہیں لگتا۔ وقت بدلے گا اور جیلوں سے پاکستانی محنت کش طبقات کے یہ نئےہیروز باھر آئیں گے۔ جھوٹ بالآخر جھوٹ ہوتا ہے۔ اس کے پاؤں نہیں ہوتے۔ اوکاڑہ مزارعیں تحریک کا ایک ہی نتیجہ نکلے گا بالآخر، یہ زمینیں ان کو ملیں گیں۔ اور زمینیں بھی ایک خاندان کے پاس صرف بارہ بارہ ایکڑ ہیں جو چوتھی نسل کے پاس ہیں۔ کبھی تو عقل چھائے گی۔ اورملٹری حکام یہ فیصلہ کریں گے کہ ان مزارعوں سے ھماری کوئی لڑائی نہیں۔ زمینیں یہ آباد رکھیں۔ ہم اپنا کام کریں گے یہ اپنا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔