پردیس میں رہنے کا ایک عذاب یہ بھی ہے کہ کوئی بھی ٹھکانہ مستقل نہیں ہوتا۔ ملازمت کے مقام اور جیب کی حالت کے مطابق گھر بدلتے رہتے ہیں۔ یہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوا۔ پچیس سال شارجہ میں رہنے کے بعد اب پھر دوبئی لوٹ آیا ہوں۔ گھر کی تبدیلی آپ تو جانتے ہی ہیں کس قدر جان جوکھوں کا کام ہے۔ سو طرح کے جھنجھٹ ہوتے ہیں ۔ یہ تو خیر ہر ایک کے ساتھ ہوتا ہے لیکن اگر آپ کتابوں کے بھی شوقین ہیں تو آپ کا سردرد ، دو چند ہوجاتا ہے۔ کتابوں کی جھاڑ پونچھ، موضوعات کے مطابق کتابوں کی ترتیب ، پھر کتاب کی حالت اور تقطیع کے مطابق انہیں الماری/ الماریوں میں رکھنا ، اچھا خاصا محنت طلب کام ہے۔
یہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوا۔ کتابوں کی جھاڑ پونچھ اور موضوعات کے مطابق چھان پھٹک سے اندازہ ہوا کہ کچھ کتابیں صرف چکھنے کے لیے ہوتی ہیں تو کچھ نگلنے کے لیے۔ کچھ چبانے اور ہضم کرنے کے لیے ہوتی ہیں ۔ کچھ کتابوں کے صرف چند حصے پڑھنے کے قابل ہوتے ہیں تو کچھ ایسی بھی ہوتی ہیں کہ پوری کی پوری پڑھنے کے لائق ہوتی ہیں۔ لیکن میرا مسئلہ ایک اور تھا۔
میرا مسئلہ ہمارے ایک سابق کرکٹر کی طرح تھا۔ یہ ہمارے بہت مشہور قومی ہیرو ہیں جن کا شمار ، لیجینڈ ز ، میں ہوتا ہے اور شکل سے بھی بہت پڑھے لکھے لگتے ہیں کہ عینک بھی لگی ہوئی ہے۔
ہوا یوں کہ میرے ایک کزن نے اپنے زمانہ طالبعلمی میں غالباً گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ یا انسائکلوپیڈیا برٹانیکا کے ایک سے زیادہ والیوم ان صاحب کو بیچنے کی کوشش کی جس کے عوض انہیں کچھ کمیشن وغیرہ ملتا تھا۔ موصوف نے کتاب یا کتابوں کو ہاتھ میں لے کر دائیں بائیں ، اوپر نیچے ، آگے پیچھے سے دیکھا، پھر اٹھ کر ایک خوبصورت سے وال یونٹ ( الماری) کے پاس گئے اور وہاں دو تین جگہ رکھ کر ، چند قدم پیچھے ہٹ کر مختلف زاویوں سے دیکھا۔ پھر اپنی ( دوسری) بیگم سے پوچھا کہ کیسی لگ رہی ہیں۔ ساتھ ہی بھی فرمایا کہ ہمارا گھر بھی پڑھے لکھوں کی طرح لگے گا۔
اور میں بھی یہی کچھ کررہا تھا کہ نئے گھر کی آرائش میں کتابیں چاہے کوئی پڑھے یا نہ پڑھے، دیکھنے میں ضرور اچھی لگیں۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ میرے گھر میں اوّل تو ایسی کچھ نمائشی چیزیں ( شوپیس، اینٹیکس، کرسٹل وغیرہ) اور فرنیچر ہیں ہی نہیں ، اور اگر ہوں بھی تو مجھے سب سے خوبصورت فرنیچر کتابوں کی الماری لگتا ہے۔ میں نے ایسے گھر بھی دیکھے ہیں کہ محل کا گمان ہوتا ہے، جہاں دنیا بھر کا قیمتی سامان آرائش بھرا رہتا ہے لیکن کتابوں کے نام پر کاغذ کا ٹکڑا بھی نظر نہیں آتا، ایسے گھروں میں اگر چند گھنٹے گذارنے ہوں تو دم گھٹنے لگتا ہے۔
گھر کی اسی تبدیلی کے سلسلے میں ایک اور بات کا احساس شدّت سے ہوا۔ جن لوگوں نے یہاں کے جدید رہائشی علاقے دیکھے ہوں تو وہ گواہی دیں گے کہ اپنی طرز تعمیر، جدیدیت، سہولیات اور خوبصورتی میں یہ علاقے دنیا کے بڑے بڑے خوبصورت شہروں کو شرماتے ہیں ۔ یہاں خوبصورت مکانات کے ساتھ خوبصورت گلیاں اور سڑکیں، پارکس، ریستوران ، ہوٹل، دکانیں، بچوں کے کھیلنے کی جگہیں، سوئمنگ پول، کمیونیٹی سینٹرز، پارٹی ہال غرض ایک پرتعیّش طرز زندگی کے لیے ضروری ہر چیز یہاں ملے گی، نہیں نظر آئے گی تو کسی بھی علاقے میں کوئی لائبریری یا ریڈنگ روم۔ شاید کتاب اب کسی کی ضرورت نہیں رہی کہ موبائل فون، آئی پیڈ، لیپ ٹاپ کے دور میں بھلا کتاب کو کون پوچھتا ہے لیکن جنہیں کتابوں اور کاغذ کی خوشبو بھاتی ہے وہ اب بھی کتاب ہی کو اپنی تنہائی کا ساتھی پاتے ہیں۔ یورپ اور برطانیہ وغیرہ اس لحاظ سے بہتر ہیں کہ وہاں اب بھی کتب بینی کا شوق اسی طرح موجود ہے جو ان الیکٹرانک بدعات کے ظہور سے قبل تھا۔
دوسروں کو کیا کہوں ، میرا اپنا یہ حال ہے کہ کتاب خریدنے سے پہلے یہ دیکھتا ہوں کہ مصنف کا اپنا چال چلن کیسا تھا ، ہندو تھا یا مسلمان، دیندار تھا یا دنیا پرست، ترقی پسند تھا یا رجعت پسند ، شرابی زانی تھا یا پرہیزگار اور متقی۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ پہلے جن نیکو کار مصنفین کی کتابیں خریدی تھیں وہ آج بھی ویسی ہی نئی نکور الماری میں سجی ہوئی ہیں اور ان کے ورق بھی نہیں کٹے ہوئے۔ دوسری طرف ذرا “ ایسے ویسے “ قسم کے ادیب ہیں جن کی کتابیں بار بار پڑھنے کے باعث ورق بھی مڑ گیے ہیں تو کئی صفحے بھی پھٹ گئے ہیں۔
لیکن سچ پوچھیں تو اچھی اور یاد گار کتابیں وہی ہیں جو لڑکپن میں پڑھیں، پھر جوانی میں بھی پڑھیں، ادھیڑ عمری میں بھی انہیں پڑھتارہا اور اب بڑھاپے میں بھی پڑھنے کا جی چاہتا ہے۔ بس یوں سمجھئے کہ ایسی کتاب ایک خوبصورت عمارت کی طرح ہوتی ہے جو صبح کی روشنی میں ایک خوشگوار تاثر دیتی ہے تو دن کی دھوپ میں اس کا روپ اور نکھر آتا ہے، تو شام کو اس کا کچھ اور ہی رنگ ہوتا ہے اور رات کے نیم اندھیرے اور ملگجی روشنی میں اس کا فسوں کچھ اور طرح کا ہوتا ہے۔ اچھی کتاب پڑھ کر یوں لگتا ہے کے گذرے زمانوں کے بہترین لوگوں سے گفتگو ہورہی ہے۔
آج کل میرے شہر میں بھی کتابوں کی نمائش لگی ہوئی ہے اور خوشی اس بات کی ہے کہ کتاب کے چاہنے والے صرف ایک دن نہیں بلکہ ہرروز وہاں جارہے ہیں ، کتابیں دیکھ رہے ہیں اور خرید بھی رہے ہیں ( ویسے میری بھی کتاب وہاں رکھی ہے لیکن کسی دوست کی خریداری کی فہرست میں اس کا نام نظر نہیں آیا)۔ یوں بھی کچھ لوگ کتابیں اس شیخ کی طرح خریدتے ہیں جنہیں میں نے شارجہ کی کتابوں کی نمائش میں دیکھا جو بڑی سی ٹرالی لیے ایک بک اسٹال کے سامنے کھڑے تھے اور سیلزمین سے کہہ رہے تھے “ اور پانچ کلو، وہ نیلی جلد والی” ۔
بہرحال کتاب بہترین ساتھی ہے جو زندگی کو پرلطف نہ بھی بنائے تو اسے قابل برداشت ضرور بناتی ہے۔ میری کتاب کوئی لے جائے تو دل مشوش رہتا ہے کہ کب واپس ملے گی اور کس حال میں ملے گی۔ لیکن کسی اور سے کوئی اچھی کتاب مل جائے تو واپس کرنے کا جی نہیں چاہتا اور جب بہت عرصہ گذر جاتا ہے تو یہ سوچ کر کہ اگر یہ کتاب انہیں پسند ہوتی تو ضرور تقاضا کرتے ، اس کتاب کو اپنے لیے ، حلال، کرلیتا ہوں۔
کتاب سے زیادہ عجیب شے بھی بھلا کیا ہوگی کہ اسے چھاپتے وہ ہیں جو اسے سمجھتے نہیں۔ نہ ہی جو اسے بیچتے ہیں وہ اسے سمجھتے ہیں ، پھر وہ ہیں جو تنقید و تبصرہ کرتے ہیں بلا سمجھے، بلکہ آج کل تو یہ بھی ہورہا ہے کہ لکھ بھی وہ لوگ رہے ہیں جو سمجھتے نہیں۔
یقین نہ آئے تو مجھے دیکھ لیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...