سگتونا (Sigtuna)اسٹاک ہولم کا ایک چھوٹا سا کمیون (میونسپلٹی) ہے۔ یہاں ایک چھوٹی سی لایئبریری ہے۔ آبادی تھوڑی ہے لہذا یہ لایئبریری روز نہیں کھلتی تھی۔ سگتونا کمیون کا ایک بڑا محلہ ہے مارشٹا(Marsta)۔ وہاں موجود لایئبریری روز کھلتی ہے اور کافی بڑی ہے۔ مارشٹا البتہ سگتونا سے بارہ کلومیٹر دور ہے۔ بچوں اور پنشنر حضرات کے لئے وہاں جانا سب کو ناگوار گزرتا تھا۔ پچھلے سال سے انہوں نے ایک نیا حل نکالا ہے۔
اگر آپ کے
پاس لایئبریری کا ممبر شپ کارڈ موجود ہے تو یہ لایئبریری آپ کے لئے 24 گھنٹے کھلی ہے۔ آپ اپنا کارڈ اسکین کریں اور لایئبریری کے اندر چلے جائیں۔ کون کب اندر گیا تھا، اسکینگ کی مدد سے ریکارڈ محفوظ رہے گا۔ کتاب نکلوانی ہے تو کتاب کمپیوٹر سے اسکین کر کے گھر لے آئیں۔
ایک اور بات۔ لایئبریری چھوٹی ہے یا بڑی، اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا ۔ سویڈن کے کسی بھی کونے میں، کسی بھی لایئبریری میں کتاب پڑی ہے، آپ اپنی مقامی لایئبریری کے ذریعے من چاہی کتاب منگوا سکتے ہیں مگر آپ کو ڈاک خرچ دینا ہو گا۔ مقامی لایئبریری آپ کو خود رابطہ کر کے بتاتی ہے کہ بذریعہ ڈاک آپکی مطلوبہ کتاب پہنچ چکی ہے۔
میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ سگتونا کی طرح دیگر جگہوں پر بھی 24 گھنٹے کھلی رہنے والی کویئ لایئبریری ہے یا نہیں۔ اگر نہیں ہے تو یہ ماڈل جلد ہی دوسری جگہوں پر بھی نظر آنے لگے گا۔ لایئبریری کے علاوہ سگتونا (جو ایک مقبول ٹورسٹ ٹاون ہے) یہاں کی ایک ٹورسٹ اٹریکشن یہاں کا بُک بُوتھ ہے۔ اس کے بارے میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں۔
ایک پرانا ٹیلی فون بُوتھ تھا جسے مقامی لایئبریری اور ٹورسٹ آفس نے بُک بوتھ میں بدل دیا۔ آپ یہاں سے کتاب لے جائیں ، کتاب کا تبادلہ کر لیں،یا کتاب دان کرنا چاہیں تو بس وہاں کتاب چھوڑ جائیں۔ اس بُک بُوتھ کو اب چار پانچ سال ہو چلے ہیں لیکن میری اس پوسٹ کی وجہ وہ بُک شیلف ہے جو اس سال میں نے سگتونا کمیون کے مرکزی سومنگ پُول کی ریسیپشن میں دیکھی۔ گرمیوں کے دنوں میں یہاں خوب بھیڑ لگتی ہے۔ لوگ پورا پورا دن یہاں گزار دیتے ہیں۔ یہاں اِن ڈور پُول بھی ہے اور آوٹ ڈور بھی۔ ایک طرح سے پکنک اسپاٹ ہے۔ سگتونا کے بُک بُوتھ کی طرز پر، یہاں آپ کتابیں دان کر دیں، لے جائیں، تبادلہ کر لیں۔ کتابیں ہر وقت موجود رہتی ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ سویڈن جہاں انٹرنیٹ کی گھس بیٹھ بہت زیادہ ہے، وہاں کتب بینی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ سویڈن کے مشاہدے سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں (جو یقیناً حتمی نہِیں ہے) کہ کتب بینی کا کلچر پروان چڑھانا پڑتا ہے۔ مندرجہ بالا مثالیں شائد علامتی زیادہ تھیں، عملی کم۔ کتب بینی کے کلچر کو پروان چڑھانے میں یہاں کے نظامِ تعلیم کا ایک بنیادی کردار ہے۔ میری بیٹی سگتونا کے ایک اسکول میں تیسری جماعت میں پڑھتی ہے۔ ابھی وہ پہلی جماعت میں تھی جب انکی کلاس ٹیچر انکی پوری جماعت کو سگتونا لایئبریری لیکر گئی اور سب بچوں کے لایئبریری کارڈ بنے۔ مہینے میں ایک آدھ دفعہ پوری جماعت لایئبریری ضرور جاتی ہے۔ یہاں پیدا ہونے والے ہر بچے کو چھ مہینے کی مر میں اور پھر پانچویں سالگرہ پر ریاست کی طرف سے ایک کتاب تحفے میں ملتی ہے جو بذریعہ ڈاک بچے کے گھر پہنچ جاتی ہے۔
یہاں جب سویڈش دوستوں کے ہاں جانا ہوتا ہے تو پاکستانی گھروں کے مقابلے پر دو چیزوں کا فرق واضح ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ دیواروں پر آہت الکرسی او سورۃ یسین کی بجائے پینٹنگز آویزاں ہوں گی۔ دوم، بیٹھک میں کتابوں سے بھری کم سے کم ایک الماری تو ضرور دکھائی دے گی۔
میرے ایک پاکستانی دوست کا کہنا ہے کہ یہ کتب بینی اور کتابوں کی یہ فراوانی ان کافروں کی سزا ہے، جو قوم ایک کتاب پر یقین نہیں رکھتی پھر اسے بہت سی کتابیں پڑھنی پڑتی ہیں اور یہ کتابیں نہ دنیا میں کام آتی ہیں نہ آخرت میں۔ میرا دوست بلاکل درست کہتا ہے مگر ان کافروں کو کون سمجھائے۔
“