بچوں کا اسلام کے قریبی شمارے میں خط شائع ہوا ہے جس میں تبصرہ نگار نے ایک لکھاری کو’’ کہنی‘‘ مشق لکھاری قرار دیا ہے۔
ہماری خوش گمانی ہے کہ لکھاری صاحب یہ منفرد اور یکتائے روزگار اعزاز پانے پر پھولے نہ سما رہے ہوں گے کہ ’’کہنی‘‘ سے لکھنا یقینا ایسا اعزاز ہوسکتا ہے جو کسی اور کے پا س نہ ہوگا۔ انہیں مکمل اعتماد کے ساتھ اپنا نام گنیزبک آف دی ورلڈ ریکارڈ میں درج کروانے کی بھی کوشش کرنی چاہیے۔
بہر حال، گمان غالب ہے کہ خط میں ’’کہنہ مشق‘‘ ہی لکھا گیا ہو گا۔ کمپوزنگ کی غلطی سے کہنہ، کہنی ہو گیا اور چھپ بھی گیا۔ اخبارات و جرائد میں ایسی غلطیاں نئی ہیں نہ انوکھی نرالی۔
ایک بار ہم ایک بہت معروف ومقبول ڈائجسٹ کی نہایت دلچسپ اور سنسنی خیز کہانی میں کھوئے ہوئے تھے کہ ایک جگہ چونک گئے، لکھا تھا:
’’(مارٹن) ٹانگیں پھیلائے، دونوں ہاتھ کمر پر ٹکائے کھڑا مونچھوں کو بل دے رہا تھا۔‘‘
جملہ دوبارہ پڑھا۔ سہ بارہ پڑھا… یقین ہوگیا کہ جو پڑھا، لکھا بھی وہی ہے تو لکھنے والے پر ہنسی آگئی جسے لکھتے وقت خیال ہی نہ آیا تھا کہ
مارٹن صاحب کے دونوں ہاتھ گر کمر پر دھرے ہوں گے تو وہ مونچھوں کو بل دینے کے لیے تیسرا ہاتھ کہاں سے لائیں گے!؟
اخبارات اور جرائد میں ایسی بدحواسیاں جنہیں عموماً کتابت یا پروف کی غلطیاں کہا جاتا ہے عام ہیں جو اکثر دلچسپ ہوتی ہیں لیکن کبھی کبھار سنگین بھی ثابت ہوتی ہیں جیسا کہ اس وقت ہوا جب اردو کے ایک معروف روزنامے میں پرنس کریم آغا خان کے حوالے سے’’اسماعیلیوں کے روحانی پیشوا‘‘ کی جگہ ’’اسرائیلیوں کے روحانی پیشوا‘‘ چھپ گیا۔ اسماعیلی حضرات کی ایک بہت بڑی تعداد مذکورہ اخبار کے دفتر جا پہنچی اور سخت احتجاج کیا۔ انہیں بتایا گیا ایسا غلطی سے ہوا ہے اور اگلے شمارے میں وضاحت اور اعتذار شائع کردیا جائے گا، مگر غضب ناک احتجاجی کچھ سننے کو تیار نہ تھے ، وہ اس سہو کوسہو ماننے کو تیار نہ تھے بلکہ دانستہ شرارت قراردے رہے تھے، بڑی مشکل سے معاملہ سنبھالا گیا۔
ایک خبر کی سرخی تھی:’’حکومت نے پبلک ما ر کیڑوں کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کرلیا۔‘‘
سوچا… یہ حکومت نے خود کو کس کام پر لگا دیا… مگر! پبلک مار کیڑے!!…اف یہ کیڑے کی کون سی قسم ہے بھلا… نہ پہلے سنی نہ دیکھی…!
متن پڑھا تو معلوم ہوا کہ حکومت نے جن کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ہے، وہ پبلک مار کیڑے نہیں… بلیک مار کیٹر ہیں… کاتب صاحب نے ’’بلیک مار کیٹروں‘‘ کو پبلک مار کیڑوں بنادیا… جو خیر معنوی اعتبار سے کچھ ایسا غلط بھی نہ تھا۔
اسی طرح انتخابات کے دنوں میں جانے کتنے ہی کاتب حضرات نے جانے کتنے ہی ’’نامزد‘‘ حضرات کو نامرد بنایا ہو گا… مگر یہ کیا؟… فلاں پارٹی کے ’’دُم دار‘‘ رہنما!
یہ سرخی پڑھ کر طبیعت صاف ہوگئی۔ متن سے معلوم ہوا کے ایک سیاسی پارٹی کے ذمہ دار رہنما سے ’’ذمہ‘‘ واپس لے کر ’’دم‘‘ لگادی گئی ہے… جی ہاں باقاعدہ پیش کے ساتھ۔
پنجاب یونیورسٹی کے ایک استاد ہوتے تھے پروفیسر عثمان غنی، کسی جلسے / سیمینار وغیرہ کی خبر تھی جس سے پروفیسر صاحب نے خطاب کیا تھا۔ وہ خبر اِن کاتب صاحب کے ہتھے چڑھ گئی… پروفیسر صاحب کے خطاب والے حصے کا آغاز کرتے ہوئے، کتابت فرمایا:
ایک کثیر الاشاعت رسالے میں شاعر مشرق علامہ اقبال پر ایک مضمون شائع ہوا، ایک جملہ تھا: ’’اور یہی وہ کارہائے نمایاں ہیں جنہوں نے علامہ اقبال کو شہرت دوام عطا کردی۔‘‘
کاتب صاحب کی کرشماتی جنبشِ قلم نے علامہ صاحب کو جو کچھ عطا فرمایا ہم نہیں جانتے کہ خود علامہ صاحب کا اس پر کیا ردعمل ہوتا، بس اتنا عرض کیے دیتے ہیں کہ اس جنبش قلم سے شہرت کی ’’ر‘‘…’’و‘‘ ہوگئی تھی۔
شاید کچھ زیادہ تعجب نہ ہوتا اگر وہ سرخی کسی ’’روشن خیال اور اعتدال پسند‘‘ دور میں سامنے آئی ہوتی مگر ان دنوں کہ جب ٹی وی پر خبر پڑھنے والی خاتون سے لے کر اداکارائوں تک کسی کو سر سے دوپٹا تک اتارنے کی اجازت نہ تھی۔ یہ سرخی پڑھ کر دیدے حلقہ ہائے چشم سے ابل پڑے۔ لکھاتھا: ’’گلوکارہ… تن کا مظاہرہ کریں گی۔‘‘
خبر کے متن سے معلوم ہوا کہ گلوکارہ صاحبہ ’’تن ‘‘ کا نہیں ’’فن‘‘ کا مظاہرہ کرنے والی تھیں۔
اور ابھی بہت زیادہ دنوں کی بات نہیں ہے، ایک روزنامہ کے سٹی پیج پر پریس کلب کے سامنے ہونے والے کسی مظاہرے کی خبر شائع ہوئی، ایک جملہ تھا: بینروں اور پلے کارڈز پر ’’فلک شگاف نعرے‘‘ درج تھے۔
“