(Last Updated On: )
گزشتہ ہفتے کی شام ہمارے بہت ہی محترم بزرگ دوست اور افسانہ نگار و شاعر جناب معراج جامی صاحب کے ساتھ ٹیلی فونی گفتگو کے دوران اگلے دن اتوار کے لیے اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ کتاب یاترا کا پروگرام بن گیا۔ جامی صاحب نے فرمائش کی کہ اس یاترا میں ساجد بھائی کو بھی شامل کیا جائے۔ میں نے ان سے کہا کہ ساجد بھائی کو نہ کتاب پڑھنے سے دلچسپی ہے اور نہ ہی کتاب خریدنے سے۔ اس پر جامی صاحب نے فرمایا؛ ارے اُن کے بغیر کیا خاک مزہ آئے گا۔وہ تو ہماری محفل کے ثریا بھوپالی ہیں۔
قصہ مختصر اتوار کی صبح سات بجے ہم اپنے کالے رنگ کے ویگو ڈالے میں ملیر کینٹ سے روانہ ہوئے۔ ہمارا پہلا پڑاؤ “ایوب منزل” پر واقع ساجد بھائی کا گھر تھا۔ ہم نے ساجد بھائی کو اپنے ویگو ڈالے میں ڈالا اور جامی صاحب کو لینے “خلیج ٹاور” کی طرف روانہ ہو گئے۔ اُن کے گھر کے قریب پہنچ کر راستے کے بارے میں کچھ کنفیوژن سا ہو گیا۔ ہم نے کہا کہ “خلیج ٹاور” تو ہمارے اور جامی صاحب کے درمیان ایک “خلیج” کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ ایسے موقعے پر “گوگل مائی” ہی کام آتی ہے۔ اس کے ذریعے آخرکار ہم “خلیج ٹاور” پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ تھوڑی ہی دیر میں جامی صاحب کا خوش و خرم چہرہ نمودار ہوا۔ اسی دوران ہمارے ایک اور دوست، پرانی کتابوں کے رسیا جناب قیصر کریم صاحب بھی تشریف لے آئے۔ جنہوں نے پچھلے ماہ ہی اپنے دل کی رگوں میں “ٹبّہ ہسپتال” سے برینڈ نیو سٹنٹ ڈلوایا ہے۔ اب ہماری اگلی منزل جناب شجاع الدین غوری صاحب کا ٹھکانہ تھا۔ وہ اپنے فلیٹوں کی بلڈنگ کے سامنے تھڑے پر براجمان تھے۔ ہمارا کالا ویگو ڈالہ دیکھ کر پہلے تو وہ ٹھٹکے لیکن پھر جامی صاحب کا روشن چہرہ اور میٹھی آواز سُن کر مسکرائے۔ ان کو لینے کے بعد اب ہمارا ویگو ڈالہ صدر کے علاقے “ریگل” کی جانب دوڑنے لگا۔
ریگل الیکٹرانک مارکیٹ کی گلی میں پرانی کتابوں کا یہ بازار ہر اتوار کو پابندی سے صبح آٹھ بجے سے شام تک لگا رہتا ہے۔ یہ سن 1960 کی دہائی سے اسی طرح لگتا آیا ہے۔ ہمارے معاشرے کی بدقسمتی کہیے یا پرانی کتابوں کے شوقین خریداروں کی خوش قسمتی کہ یہاں بڑی بڑی نامور شخصیات کے ذاتی کتب خانوں کے ذخائر اُن کی وفات کے بعد فروخت ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ راجہ صاحب محمود آباد جیسی شخصیت کے کتب خانے کی کتابیں بھی اس فُٹ پاتھ کی زینت بن چکی ہیں۔
ساجد بھائی کے علاوہ ہم سب تو کتابوں کے ذخیروں پر بھوکے بھیڑیوں کی طرح جھپٹ پڑے۔ انہوں نے اس صورتحال کو دیکھ کر ہم سب کی خریدی ہوئی کتابوں کو لادنے کے لیے اپنا کندھا پیش کر دیا۔ ساجد بھائی کی اس پیشکش کو دیکھ کر میں نے اپنے دوستوں سے عرض کیا کہ سن 1953 میں دنیا کی سب سے بلند چوٹی کو سب سے پہلے جب Edmund Hillary نے سر کیا تو اس کے ساتھ ایک اور آدمی بھی تھا جس کا نام Tenzing Norgay تھا جو نیپال کی شرپا نسل سے تعلق رکھتا تھا اور وہ بطور شرپا Edmund کے ساتھ اس تاریخی سفر میں اس کا سامان اٹھائے ساتھ ساتھ چلتا رہا تھا۔ متفقہ طور پر کتابوں کے اس کھیل میں ساجد بھائی کو آج کے دن کا “شرپا” قرار دے دیا گیا۔ ساجد بھائی نے اس فرض کو کماحقہ نبھایا۔ جس کا اندازہ آپ ان کی ایک عدد منسلک شدہ تصویر سے بھی بخوبی لگا سکتے ہیں۔
اس فُٹ پاتھ پر خوش قسمتی اور جامی صاحب کی مدد سے ہمیں بھی کچھ گوہرِ نایاب ہاتھ آگئے جس میں سے ایک کتاب “تاریخ ادب اردو، با مصور” جو رام بابو سکسینہ کی انگریزی زبان میں لکھی ہوئی کتاب A History of Urdu Literature کا ترجمہ ہے۔ یہ ترجمہ جناب مرزا محمد عسکری نے سن 1929 میں کیا تھا اور یہ مشہور تاریخی چھاپہ خانہ منشی نولکشور واقع لکھنو میں چَھپ کر شائع ہوا تھا۔ اس نایاب ترجمے کی کتاب کے علاوہ ایک پرانا ششماہی رسالہ جو ڈھاکہ سے شائع ہوتا تھا اس کا جنوری 1961 کا شمارہ صحیح سالم حالت میں مناسب قیمت میں مل گیا اور کچھ فلمی نغموں کی پرانی کتابیں بھی ملیں جو 1963 سے 1966 کے برسوں میں شائع ہوئی تھیں۔ ان فلمی نغمات کی کتابوں میں عظیم گلوکاروں کے گائے ہوئے نغمے شامل تھے۔ ان گلوکاروں میں مکیش، محمد رفیع، لتا منگیشکر اور طلعت محمود شامل تھے۔
کتابوں کی تلاش سے فرصت ملی تو صحرائے تھر کے شہر “اسلام کوٹ” کے اشرف سموں سے بھی ہماری ملاقات ہو گئی۔ اشرف صاحب نے تھر کے ریگستان میں کتب خانے کی شکل میں علم کا ایک نخلستان قائم کیا ہوا ہے۔
اشرف صاحب بتاتے ہیں کہ انہوں نے 1987 میں آٹھویں پاس کی اور جب سے ہی ان کو کتابیں پڑھنے اور کتابیں جمع کرنے کا شوق ہوا۔ آج ان کے ذاتی کتب خانے میں آٹھ ہزار سے زائد کتب اور رسائل موجود ہیں۔ اس ذخیرے میں اب بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان آٹھ ہزار کتابوں میں سے پانچ سو سے چھ سو کتابیں صرف سیرت النبی پر ہیں جبکہ بارہ سو سے پندرہ سو کتابیں آب بیتی، سوانح عمری اور شخصیات پر مشتمل ہیں جس میں شبلی نعمانی، مرزا غالب، ابوالکلام آزاد وغیرہ شامل ہیں۔ سموں صاحب کم سے کم مہینے میں ایک مرتبہ اس بازار کا لازمی چکر لگاتے ہیں اور اس طرح وہ اپنے کتب خانے میں مزید اضافہ کر لیتے ہیں۔ ابھی ان سے گفتگو چل ہی رہی تھی کہ ہمیں جناب عباس رضوی صاحب چہرے پر ماسک لگائے ہوئے نظر آئے۔ عباس صاحب ایک ایوارڈ یافتہ مصنف اور شاعر ہیں۔ ان کا شعری مجموعہ “خوابوں سے تراشے ہوئے دن” کے نام سے منظرِ عام پر آچکا ہے جبکہ مضامین پر مبنی کتاب “نقدِ امروز” کے نام سے شائع ہوئی ہے۔
تقریباً ڈیڑھ دو گھنٹے کی مشقت کے بعد جب ہماری جیبیں خالی ہونے لگیں اور تھیلے کتابوں سے بھر گئے تو ہم نے اس جذباتی مہم کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس دوران ہمارے ساتھ بائیس سال سے جڑے ہوئے ذیابطیس کے مرض نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا اور ہمیں پیشاب کرنے کی حاجت ہوئی۔ اب سو ملین ڈالر کا سوال پیدا ہوا کہ اس فطری خواہش کی تکمیل کہاں پر کی جائے۔ معلوم ہوا کہ قریب ہی مسجد خضرا ہے جہاں پر ٹوائلٹ کی سہولت دستیاب ہے۔ شومئی قسمت مسجد کے دروازے ہر طرف سے بند نظر آئے اور ہمیں فوراً کوئی متبادل انتظام کرنے کی ضرورت پڑ گئی۔
ہمارے قافلے کی دوسری منزل “ایکسپو سینٹر” میں ہونے والا “کتابوں کا بین الاقوامی میلہ” تھا۔ درمیان میں ہم “کوئٹہ رنگین ہوٹل” میں بھی رک گئے اور وہاں پر انڈے و پراٹھے کا ناشتہ تناول کیا۔ جب ہم “ایکسپو سینٹر” پہنچے تو صبح کے ساڈھے گیارہ بج چکے تھے۔ اتوار کا دن تھا لیکن عوام کا ایک اژدہام تھا۔ اس ہجوم کو دیکھ کر ایک گوناں قلبی طمانیت حاصل ہوئی کہ باوجود الیکٹرانک میڈیا کی بےانتہا مقبولیت کے کتابوں کا شوق رکھنے والے افراد کی بہتات ہے۔ ہال کے اندر داخل ہوتے ہی پاکستان کی ممتاز شاعرہ اور محقق ڈاکٹر فاطمہ حسن سے ملاقات ہو گئی جو آرٹس کونسل کے ترتیب کردہ بُک اسٹال پر تشریف فرما تھیں۔ ذرا آگے بڑھے تو “اٹلانٹس” کے روح رواں پیارے دوست جناب فاروق احمد صاحب سے مذبھیڑ ہو گئی۔ معلوم ہوا کہ آج کل یہ اسٹیبلشمنٹ کو پنچ پہ پنچ مار رہے ہیں اور اب انہوں نے “پنچ نامے” کے نام سے ان مُکّوں کی بارش کو دستاویزی شکل بھی دے دی ہے۔ خدا خیر کرے یہ مُکّوں کی بارش اُن کے لیے مزید مقبولیت کا باعث بنتی ہے یا ۔۔۔۔۔۔؟
ہم نے اس کے بعد گھر کی طرف روانہ ہونے میں ہی عافیت جانی اور تمام احباب کو فرداً فرداً باحفاظت ان کے گھروں تک پہنچایا کہ خدا نخواستہ ان میں سے کوئی “مسنگ پرسنز” نہ بن جائے اور اہلِ محلہ یہ کہتے ہوئے نہ پائے جائیں کہ علی الصبح ایک ویگو ڈالہ آیا تھا اور ان کو اٹھا کر لے گیا۔
((انور اقبال))