کتاب والوں کا شہر، لاہور
کیا پاکستان میں لوگ کتاب کم پڑھنے لگے ہیں؟ یہ سوال دو حوالوں سے اٹھایا جاتا ہے۔ ایک طبقہ یہ اس لیے کہتا ہے کہ شاید اب پڑھنے کو زوال ہے اور دوسرا طبقہ اس لیے اس بات کا یقین رکھتا ہے کہ الیکٹرانک کتابوں کے سبب کاغذ پر چھپی کتابوں کے پڑھنے کا رحجان کم ہوا ہے۔ میرا مشاہدہ اور ذاتی رائے یہ ہے کہ پہلے لوگوں میں پڑھنے کا اس قدر رحجان نہیں تھا۔ اب یہ بھی فیشن Statement ہے کہ آج کتاب پڑھنے کا رحجان کم ہوگیا ہے۔ آبادی کے تناسب سے نہ کتاب کا رحجان کم ہوا ہے اور نہ ہی بڑھا ہے۔ البتہ یہ ضرور ہوا ہے کہ ہمارے ہاں اچھے محقق، ادیب، مفکر اور سکالرز اس تعداد میں جنم نہیں لے رہے جس رفتار سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں زیادہ تر شائع ہونے والی کتابیں فرقہ پرستی، جادوئی معاملات اور سازشی تصورات پر مبنی ہوتی ہیں۔ اگر اس دلیل کو مان لیا جائے کہ کتابیں پڑھنے کا رحجان کم ہوا ہے تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ دنیا جس رفتار سے سائنس، تحقیق، تخلیق، ادب اور دیگر فنون میں ترقی کر رہی ہے، اس رفتار میں ہم بہت پیچھے جاتے جارہے ہیں۔ اگر معیاری پڑھنے والے کم ہوتے جا رہے ہیں تو اس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں معیاری لکھنے والے بھی کم ہوتے جارہے ہیں۔ مغرب میں رہنے والے جن پاکستانی نژاد نوجوانوں کی تحریروں نے عالمی شہرت حاصل کی ہے، اس کا کریڈٹ ہمارے سماج کو نہیں، اُن معاشروں کو جاتا ہے جہاں پل بڑھ اور پڑھ کر وہ جوان ہوئے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سچ لکھنے والوں کو سچ پڑھنے اور سچ سننے والا سماج درکار ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں روز بروز جس طرح تنگ فکر بڑھتی جا رہی ہے، اسی قدر لکھنے والے اپنی آزادی اور تخلیق کاری کو محدود کرنے پر مجبور ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ ناول جو ترکی میں لکھا جا رہا ہے، اگر ان ناول نگاروں کو پاکستان میں رہ کر لکھنا پڑے تو ’’لگ پتا جائے‘‘۔ حقائق بڑے تلخ ہیں۔ ہاں، میرے تجربات اور مشاہدے کے مطابق سب سے معیاری اور زیادہ پڑھنے کا رحجان سندھیوں میں ہے۔ سیاست، فلسفہ، تاریخ، تصوف، تمدن، عالمی امور، چاہے کوئی بھی شعبہ ہو۔ وسطی پنجاب میں پڑھنے کا رحجان اس تناسب سے بہت کم ہے۔ پڑھنے کا تعلق خوش حالی سے نہیں، ’’خوش فکری‘‘ سے ہے۔سندھی سرزمین میں لکھا جانے والا ادب شاید پاکستان میں لکھے جانے ولاے ادب میں بہت زیادہ شان دارا ور گہرا ہے۔ اس کی وجہ سندھی سماج میں برقرار وسعت القلبی کے رحجانات ہیں۔ اگر ہم سندھ کے وڈیرے اور پنجاب کے جاگیردار حتیٰ کہ پنجاب کے صنعت کار کا ہی مقابلہ کریں تو سندھی وڈیرہ علم وادب کے حوالے سے پنجاب کے جاگیردار و صنعت کار سے کہیں زیادہ باذوق ثابت ہوا ہے۔ پنجاب کے ایسے امرا کی تعداد سندھی امرا یا وڈیروں کے مقابلے میں بہت کم ہے کہ جن کے ہاں بے مثال ذاتی لائبریریاں موجود ہوں۔
اردو ادب میں آج بھی پنجاب یا پنجابی ’’اہلِ اردو زبان‘‘ سے کہیں آگے ہیں۔ پنجاب کی دھرتی نے اقبالؒ سے لے کر آج تک ہزاروں اردو میں لکھنے والے ادیب اور دانشور پیدا کیے۔لاہور ہی ہے جس نے کئی نامور ادیبوں اور شاعروں جن کا جنم چاہے کسی اور شہر میں ہوا ہو، انہیں لاہور نے پہچان دی۔ اسی طرح پاکستان کے دوسرے علاقوں اور شہروں سے تعلق رکھنے والے لکھاریوں کی خواہش ہوتی ہے کہ اُن کی کتاب لاہور سے شائع ہو۔کتابوں کی اشاعت کے حوالے سے لاہور آج بھی پاکستان کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ یہ روایت دوسو سال سے بھی زائد عرصے سے چلی آرہی ہے۔ آج بھی لاہور میں قرآنِ کریم جیسی مقدس الہامی کتاب جس شان وشوکت سے شائع کی جاتی ہے، ملک کے شاید ہی کسی دوسرے شہر میں ایسے شائع کی جاتی ہو۔ پاکستان کے بڑے اشاعتی ادارے بھی لاہور ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ادب، سیاست، تاریخ، فلسفہ، عالمی امور، معیشت اور دنیا بھر کے ہر موضوع پر پاکستان میں شائع ہونے والی کتابیں لاہور ہی میں جنم لیتی ہیں۔ دلچسپ بات دیکھیں، لاہور کے دفتری یعنی جِلدساز اپنی مثال آپ ہیں۔ پاکستان کے شاید ہی کسی دوسرے شہر میں لاہور جیسی اس قدر شان دار روایتی اور جدید جِلد سازی ہوتی ہو۔پرانے لاہوریوں کا ایک عام پیشہ پرنٹنگ اور جِلدسازی ہے۔ اگر ہم لاہور کے جِلد سازوں کو دیکھیں تو زیادہ تر وہ لوگ اس کام سے وابستہ ہیں جو جدی پشتی لاہوری ہیں۔ جیسے کتابت کرنے والے مشہور کاتب لاہور ہی میں ہوئے ہیں۔ آج بھی کمپیوٹر آجانے کے بعد بچ گئے کاتبوں کا تعلق لاہور ہی سے ہے۔ اس سارے میں تناظر میں یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ لاہور، پاکستان میں جہاں باغوں، پارکوں اور دانشوروں کے شہر کے طور پر جانا جاتا ہے، وہیں لاہور کتابوں کا شہر بھی ہے۔
پاکستان میں اب تقریباً ہر شہر میں تعلیمی ودیگر ادارے کتاب میلے منعقد کرتے ہیں اور اسی کے ساتھ چند عالمی ادارے ادبی میلے (Literary Festivals) کا انعقاد بھی کرواتے ہیں جہاں ملک اور بیرون ملک سے دانشور اور ادیب بھی مدعو کیے جاتے ہیں۔ اگر میں یہ کہنے کی جسارت کروں تو غلط نہ ہوگا کہ عالمی اداروں کے تحت منعقد کیے جانے والے ان ادبی میلوں کا رنگ ڈھنگ Cat Walk جیسا ہوتا ہے۔ اپنی زمین سے جڑت (تعلق) کم اور اندازوبیان کا اظہار زیادہ۔ اس کے مقابلے میں کتاب میلے حقیقی عوامی میلوں کا سا رنگ رکھتے ہیں۔ زمین، تہذیب، روایات اور اقدار سے جڑے۔ ان کتاب میلوں کی حوصلہ افزائی درحقیقت آج سے اکتیس سال پہلے شروع ہونے والے ’’لاہور انٹرنیشنل بُک فیئر‘‘ سے ہوئی۔یہ لاہور کے روایتی پبلشروں کا ذاتی Initiative تھا۔ آج یہ کتاب میلہ ’’لاہور انٹرنیشنل بُک فیئر‘‘ لاہور کا سب سے بڑا ایونٹ بن چکا ہے اور اس برس یہ روایت اپنے 32ویں سال میں داخل ہوچکی ہے۔ یکم سے پانچ فروری تک لاہور ایکسپو سینٹر میں برپا ہونے والا یہ کتاب میلہ واقعی ہی دیگر کتاب میلوں کا روایت ساز ہے۔ اس میں بچے، بوڑھے، جوان، عورتیں، مرد، درمیانے طبقے حتیٰ کہ نچلے طبقے سے بھی لوگ جس طرح جوق درجوق آتے ہیں، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ لاہور کتاب والوں کا شہر ہے۔ لکھنے، شائع ہونے اور کتاب کی مکمل تیاری تک لاہور آج بھی اپنی مثال آپ ہے۔ یکم فروری سے شروع ہونے والا یہ کتاب میلہ زندہ دلانِ لاہور کی زندہ دلی اور کتب دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ دانش، ثقافت اور کتاب کا مرکز، لاہور۔