قاضی جاوید کا شمار پاکستان کے اُ ن اہل علم میں ہوتا ہے جنھوں نے فلسفے اور سماجی و فکری تحریکوں کو اپنے مطالعہ کا موضوع بنایا ہے۔ انھوں نے فلسفے پر متعدد کتابیں لکھی اور ترجمہ کی ہیں۔ پاکستان میں فلسفے پر لکھنے والے بہت ہی کم ہیں اور جو ہیں وہ زیادہ تر انگریزی کو ذریعہ اظہار بناتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے خیالات عام پڑھے لکھے فرد تک نہیں پہنچ پاتے۔ قاضی جاوید نے اس کے برعکس فلسفے جیسے ادق موضوع کو اردو بیان میں کیا ہے جس کی وجہ سے وہ قارئین کا ایک وسیع حلقہ بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔ انھوں نے برٹرینڈرسل کی خود نوشت سوانح عمری، اس کے مضامین اور سارتر کی خود نوشت کو اردو میں ترجمے کرنے کے ساتھ ساتھ یونانی فلسفہ کی اہم اورنامور شخصیات کے سوانح خاکے لکھے ہیں جس میں ان کی زندگی کے ساتھ ان کے فلسفے کے اہم اور بنیادی نکات کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ فلسفے کے علاوہ قاضی جاوید نے شمالی ہند کے مسلمانوں کی فکری تاریخ پر بھی خاصا کام کیا ہے۔ ’ہندی مسلم تہذیب‘ ’شاہ ولی اللہ کے افکار‘،’سرسید سے اقبال تک‘ اور ’پنجاب کے صوفی دانشور‘ جیسی کتابیں ان کے شمالی ہند کی فکری اور نظریاتی تحریکوں پر علمی و تحقیقی کام ہی کا نتیجہ ہیں۔ انھوں نے ’منڈلی‘ کے عنوان سے دانشوروں اورادیبوں کے خاکے بھی لکھے ہیں۔ اپنے خاکوں میں انھوں نے اپنے ممدوح ادیبوں اور دانشوروں کی فکری اٹھان اور پہچان کو بیان کیا ہے۔
’تاریخ و تہذیب‘ قاضی جاوید کے مضامین کا مجموعہ ہے جو انھوں نے مختلف اوقات میں لکھے تھے۔ یہ مضامین تاریخ و تہذیب کے مختلف موضوعات اور پہلووں سے تعلق رکھتے ہیں اور اسی مناسبت سے کتاب کا نام تجویز کیا گیا ہے۔یہ مضامین گو اپنے موضوعات کے اعتبار سے مختلف ہیں لیکن ان میں داخلی وحدت ضرور پائی جاتی ہے اور وحدت اور اشتراک روشن خیالی اور انسان دوستی ہے جو قاضی جاوید کی فکر کا بنیادی پتھر ہے
’ہندوستان میں رواداری کی تاریخ پر ایک نظر میں‘ قاضی جاوید نے ہندوستان میں رواداری، روشن خیالی اور فکری کشادگی کی تحریک اور اس کے محرکین کا تاریخی تسلسل میں جائزہ لیا ہے۔ قاضی جاوید نے ہندوستان کے مختلف علاقوں، دھرموں، زبانوں اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے صوفیا، سنتوں اور بھگتوں کے پیغام کو تاریخی سیاق و سباق میں بیان کیا ہے۔قاضی جاوید کہتے ہیں کہ مذہبی قانون کی نمائندگی کرنے والے علمائے دین نے رواداری کی تحریک میں کم ہی حصہ لیا ہے۔ ا ن کی کوششوں کا محور اگر طرف ہندو مسلم تضاد کو ابھارناور مزید گہرا کرنا تھا تو دوسری طرف مسلمانوں کے مابین فرقہ ورانہ اختلافات کو شدت عطا کرنے تک محدود تھا۔ چشتی سلسلے سے تعلق رکھنے والے صوفیا اوربھگت کبیر، راما نج، گورونانک جیسی بھگتی کے گیت گانے والے سنتوں اور شاعروں کو رواداری اور روشن خیالی کا پیامبر قرار دیتے ہیں
سرسید پر اپنے مضمون میں قاضی جاوید نے سرسید کی تعلیمی خدمات کے ساتھ ساتھ روشن خیالی کی تحریک میں ان کے کردار پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ وہ جہاں روشن خیالی اور خرد افروزی کے حوالے سے سرسید کی خدمات کی تحسین کرتے ہیں وہاں وہ ان کے داخلی تضادات کی بھی نشاندہی کرتے ہیں۔سرسید کی تعلیمی مساعی صرف یوپی اور بہار کی ابھرتی ہوئی مسلم اشرافیہ کے لئے تھی وہ چھوٹی جاتیوں کے مسلمانوں کو تعلیم دینے کے مخالف تھے اور تو اور وہ عورتوں کو نہ صرف تعلیم نہیں دینا چاہتے تھے بلکہ وہ انھیں ترجمے کے بغیر قرآن مجید پڑھانے کے حق میں تھے کیونکہ وہ عورتوں کو باترجمہ قرآن پڑھانے کے حق میں نہیں تھے۔
مضامین کے اس مجموعہ میں شامل سارتر پر شامل مضمون بہت جامع ہے اور قاری کو سارتر کی شخصیت اور فلسفے سے عام فہم زبان اور انداز میں متعار ف کراتا ہے۔تاریخ و تہذیب میں شامل کچھ مضامین مختلف ملکی اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں پڑھے گئے تھے اس لئے قاضی صاحب نے مختصر طور پر اپنے اسفار، کانفرنسوں اوران میں شریک دانشوروں کا بھی احوال لکھ دیا ہے جن میں یہ مضامین پڑھے گئے تھے ٭٭
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...