1979ء میں کم ازکم چھ ایسے واقعات پیش آئے جن کے عالمی سیاست پر دور رس اثرات مرتب ہوئے :
1.۔۔۔۔۔۔ پہلا واقعہ ایرانی انقلاب کی کامیابی کا تھا۔فروری1979ء میں جناب خمیی اپنی انقلابی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے،ایران میں ”شیطانِ بزرگ“(یعنی امریکہ) کے خلاف نفرت کے جذبات عروج پر تھے اور امریکی سفارت خانہ پر انقلابیوں نے قبضہ کرکے امریکیوں کو یرغمال بنا لیا تھا۔
2.۔۔۔۔۔۔۔ مصر-اسرائیل امن معاہدہ مارچ1979ء میں ہوا،جس نے عرب ممالک میں اورمشرق وسطیٰ میں خصوصیت کے ساتھ بہت کچھ بدل دیا۔یہ امن معاہدہ وائیٹ ہاؤس کے لان میں ہوا۔مصری صدر انوار سادات اور اسرائیلی وزیر اعظم بیگن فریق تھے جب کہ امریکی صدر کارٹر نے معاہدہ ٔامن پر بطور گواہ دستخط کیے۔
3.۔۔۔۔۔۔۔ تیسرا بڑاواقعہ اپریل1979ء میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کاتھا۔جنہیں ضیاء الحق کے دور میں(1977ء-1988ء)سزائے موت دی گئی،جسے بعد میں”عدالتی قتل“ کہا گیا۔
4.۔۔۔۔۔۔جولائی 1979ء میں عراق میں صدام حسین کی حکومت کا آغاز ہوا۔عرب دنیا اورمشرق وسطیٰ کے لیے یہ ایک بڑی سیاسی تبدیلی تھی۔
5.۔۔۔۔۔۔۔ 20 /نومبر 1979ء کو خانہ کعبہ پر باغیوں نے قبضہ کرلیا۔ یہ قبضہ پندرہ دن تک جاری رہا بالخصوص عرب اوراسلامی ممالک پر امریکہ مخالف جذبات کے حوالے سے گہرےاثرات مرتب ہوئے۔
6.۔۔۔۔۔۔۔ دسمبر1979ء میں سوویت یونین نے افغانستان پرحملہ کیا۔یہ اُس دس سالہ جنگ کاآغاز تھا جس نے بالاخر روس کوشکست فاش سے ہمکنار کیا۔
آخری واقعہ کو چھوڑ کر یہ وہ منظر نامہ ہے جس کی روشنی میں سانحہ ٔخانہ کعبہ کودیکھنے کی ضرورت ہے۔
اس حوالے سے حال ہی میں منظر عام پر آنے والی کتاب ”سانحہ خانۂ کعبہ1979ء“ کا ایک جائزہ مطلوب ہے۔ یہ کتاب دو ہفتے قبل جب ریحان عمر اور محمد تنزیل حسینی میرے غریب خانے پر تشریف لائے تو میں نے وصول کی۔ اپنے موضوع پر بزبان اردو چونکہ یہ پہلی کتاب ہے، لہذا اسے پڑھنے کا موقع نکال ہی لیا۔
اس کتاب کے مصنّف کمانڈر اقبال رشید فاروقی ہیں اور مرتب تنزیل صدیقی حسینی ہیں،یہ کتاب انہی کے ادارے”دارالاحسن“نے2021ء میں شائع کی ہے۔اس کتاب کا پہلا ایڈیشن مارچ2011ء میں ایک ہزار کی تعداد میں شائع ہوا تھا۔دوسراا یڈیشن بھی گیارہ سو کی تعداد میں شائع کیا گیا ہے اور قیمت بہت مناسب ہے یعنی تین سوروپے۔کتاب 176 صفحات کو محیط ہے۔
کتاب کے ابتدائی 51 صفحات پیش لفظ،سخن ہائے گفتنی،مصنف کے تعارف کے علاوہ سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ بن باز کی تحریر کے ترجمے پر مبنی ہے۔مصنف پاکستان نیوی کے شبعہ تعلیم سے وابستہ رہے۔زیر نظرکتاب اُن کی دوسری کتاب ہے۔پہلی کتاب”سمندر کی سسکیاں“ہے۔ زیر نظر کتاب ”سانحہ خانہ کعبہ1979ء“ کا عنوان پہلے ”خانہ کعبہ کی توہین“ تھا جسے مرتب نے مصنف کی اجازت سے موجودہ عنوان دیا جو زیادہ مناسب ہے۔
اصل کتاب صفحہ نمبر52 سے شروع ہوتی ہے ۔20نومبر1979ء کو 1400ھ کاپہلا دن یعنی یکم محرم تھا۔نماز فجر کے فوراً بعد مسلح باغیوں کے دستوں نے خانہ کعبہ پر قبضہ کرلیا۔امام حرم امام سُبیّل کو الگ دھکیل کر مائک پر قبضہ کرکے ہدایات دینے لگے ۔یہ لوگ خانہ کعبہ کے 51 دروازوں پر تعینات سرکاری اہل کاروں کو مار کر یا بھگا کر ان دروازوں پر قابض ہوگئے تھے،حرم کے میناروں پر چڑھ کر پوزیشنیں سنبھال لی تھیں اورہروردی والے پر گولی چلائی جارہی تھی ۔اس کے بعد ان پندرہ دنوں کی تفصیلی روداد بتائی گئی ہے جب کہ خانہ کعبہ پران فسادیوں کاقبضہ تھا جن کاقائد یا سرغنہ جہیمان عُتیبی تھا،مصنّف نے جہیمان عُتیبی کاپوراتعارف بھی دیا ہے اوراس کے سالے محمد بن عبداللہ قحطانی کے کردار پر بھی روشنی ڈالی ہےجس کو مہدی بنا کر پیش کیاگیا،ان باغیوں نے حرم میں موجود ہزاروں زائرین کو بتایا کہ مہدی کا ظہور ہوچکا ہے لہذا سب کو قحطانی کی بیعت کرلینی چاہیے۔وہ اس طرح کی تبلیغ کرتے کہ ریڈیو،ٹی۔وی،سرکاری ملازمت اورفوجی وردی سب حرام ہے۔
حرم میں غیر عرب زائرین کی بہت بڑی تعداد تھی۔ان کوسمجھانا مشکل تھا کیونکہ انھیں عربی زبان نہیں آتی تھی۔لہذا انہیں حرم سے جانے دیا گیا ،عربی بولنے والے،خصوصاً جوانوں کوروک لیا گیا،انہیں مہدی کی بیعت پر مجبور کیا گیا اوراپنے ساتھ ہی رکھا گیا۔
اس کے بعد سنسنی خیز تفصیلات کاسلسلہ شروع ہوتاہے ۔مصنّف واقعات کے بیان میں اپنا جو تجزیہ پیش کرتے ہیں وہ ان کی بالغ نظری اور وسعت معلومات کاثبوت ہے۔ان تجزیوں سے معلوم ہوتاہے کہ عالمی منظرنامے سے مصنّف پورے طورپر باخبر ہیں۔ مثلاً امریکہ کی یہ کوشش کہ اس سانحہ کی ذمہ داری ایران پر ڈالی جائے،کیونکہ خمینی کے انقلاب کے بعد ایرانی انقلابیوں نے امریکہ کے سفارت خانے پر قبضہ کررکھا تھا جہاں امریکیوں کویرغمال بنایا ہواتھا اورایران کی یہ کوشش تھی کہ امریکہ کواس سازش کاماسٹر مائنڈ باور کروایا جائے۔
مصنّف نے یہ بھی بتایا ہے کہ اس سانحے کے رد عمل میں دیگر اسلامی ممالک میں کیا ہوا؟ہندوستان،پاکستان،ایران،بنگلہ دیش اورترکی وغیرہ کی صورت حال کیا رہی۔اور وہاں امریکہ مخالف جذبات کا آتش فشاں کس طرح لاوا اگل رہا تھا ۔
فاضل مصنّف نے بڑی تفصیل سے پندرہ دنوں کی کارروائی بتائی ہے۔باغیوں نے کہاں کہاں پوزیشنیں لی ہوئی تھیں،جوزائرین حرم سے نکل نہیں سکے ان کی کیا حالت تھی،جولوگ حج وعمرے کے لیے حرم جاچکے ہیں اور صحنِ حرم ،راہداریوں،تہہ خانوں،زمزم کے کنویں اورصفا ومروہ کے مقامات اور مختلف 50 سے زائد چھوٹے بڑے ابواب سے بخوبی واقف ہیں ،وہ اس کتاب میں بیان کی گئی تفصیلات سے زیادہ متاثر ہوں گے۔کتاب پڑھتے ہوئے خود میری کیفیت یہ تھی کہ جس مقام کا ذکر ہوتا، میں اپنے آپ کو اس مقام پر پاتی۔(دوحج اور چھ عمروں کی وجہ سے حرم کعبہ کے چپے چپے سے واقفیت کی وجہ سے کتاب میں دلچسپی آخر وقت تک قائم رہی۔)
یہ1979ء کاسانحہ ہے جب نہ سیل فون ہوتے تھے اورنہ ہی دوسری سہولیات جوآج میسّر ہیں۔تاہم کتاب پڑھنے سے بہت سی باتیں سامنے آگئیں،ایک تویہ کہ اس معرکہ میں پاکستانی فوج نہیں بلائی گئ تھی۔شاہ خالد ،جوشاہ فیصل کے بعد حکمران تھے ان کی ترجیح یہ تھی کہ اس مسئلہ کوسعودی پولیس ،فوج اورنیشنل گارڈخود نبٹے ورنہ دنیا میں ان کی جگ ہنسائی ہوگی کہ خادمین حرمین شریفین سے حرم کعبہ کادفاع ہی نہ ہوسکا۔ باغیوں کے خلاف
یہ آپریشن وزارت داخلہ کے کمانڈو دستے ، سعودی فوج اورنیشنل گارڈ کی مشترکہ کارروائی تھی ۔جس کی کمان ایک میجر جنرل کررہا تھا ۔سعودی فوج Non professional army مانی جاتی ہے،خود شاہ خالد کا اپنی فوج کے بارے میں یہ کہنا کہ ـــــ یہ سیدھے سادھے بدّو ہیں،یہ تیرنا بھی نہیں جانتے ــــــ سعودی فوج کے تعارف کے لیے کافی ہے۔
بہرحال سعودی فوجیوں کواسی وجہ سے شدید نقصان اٹھانا پڑا۔انہیں یہ تک پتانہیں تھا کہ آنسو گیس ،تہہ خانوں میں نہیں چھوڑنی چاہیے کیونکہ یہ ہواسے ہلکی ہونے کی وجہ سے اوپر اٹھ جاتی ہے،ان کے وزارتِ داخلہ کی عقل مندی کایہ عالم تھا کہ ان کے پاس خانہ کعبہ کا کوئی اندرونی نقشہ بھی نہیں تھا۔ بعد میں بن لادن نے وہ نقشہ حکام کوفراہم کیا۔اس غیر پیشہ وارانہ طرز عمل کی وجہ سے خانہ کعبہ سے باغیوں کا قبضہ چھیڑانے کے لیے ان کو پندرہ دن لگ گئے ۔
سعودی حکومت کی ایک پریشانی یہ بھی تھی کہ اگر فوج ہتھیار لے کر خانہ کعبہ میں گھسے گی تورعایا بگڑ سکتی ہے ۔رعایا سے زیادہ علماء کی ناراضگی مسئلہ بن سکتی تھی،دوسری طرف نیشنل گارڈ کےدستے بغیر کسی مفتی کے فتوے کے حرم میں لڑنے کے لئے تیار نہیں تھے۔
کئی عوامل باغیوں کی مدد کررہے تھے جب کہ انہیں کئی مشکلات بھی درپیش تھیں۔ اسی طرح کئی عوامل سعودی فوج کی مدد کر رہے تھے توکئی عوامل مشکلات بھی پیدا کررہے تھے ۔ان سب کا تذکرہ فاضل مصنّف نے کیا ہے گوکہ ان کا اسلوب علمی وتحقیقی نہیں ۔عام فہم انداز میں پندرہ دنوں کی تفصیلات بتائی گئی ہیں۔مصنّف جگہ جگہ اپناتجزیہ بھی پیش کرتے ہیں اوراپنی اسلامی معلومات کا بھی اظہار کرتے ہیں۔مصنّف کا ذہن عالمی سیاسی حالات کے حوالے سے بہت واضح ہے۔عالمی حالات پران کی گہری نظر ہے جس کااظہار ان کے تجزیات میں ہوتاہے۔
مصنّف نے ان تمام واقعات کاگہری نظر سے جائرہ لیا اور 20 نومبر 1979ء تانومبر1980ء تک کےمختلف اخبارات سے مواد کو اکھٹا کیا، چند انگریزی کتب سے استفادہ کیا جو شائع ہوچکی تھیں۔اگر ان ماخذ کے استناد کاسوال اٹھایاجائے تو بآسانی فیصلہ کیا جاسکتا ہے کیونکہ اب تک اس واقعہ کے بارے میں غیر ملکی یا آزاد ذرائع سے جو کچھ سامنے آچکا ہے ،ان سے کتاب کے مندرجات کی تائید ہوتی ہے اوریہی اس کتاب کا استناد ہے۔
مرتب نے کتاب میں حواشی لگائے ہیں جن کی وجہ سے کتاب کی تفہیم میں آسانی رہے گی خصوصاً اُن قارئین کے لیے جوتاریخ اورعصری احوال کا زیادہ علم نہیں رکھتے۔
جہاں تک میری معلومات ہیں اس موضو ع پر اردو میں یہ پہلی کتاب ہے جس کاکھلے دل سے استقبال کرناچاہیے۔
“