بیسویں صدی میں سرزمینِ ہند پروقتاً فوقتاًسینکڑوں رسائل و جرائد کی اشاعت عمل میں آئیں۔تقسیم سے پہلے بالعموم اور آزادی کے بعد بالخصوص رسائل و جرائد کی اشاعت کے عمل میں شدت سے اضافہ دیکھنے کو ملا۔تقسیم سے قبل جن ادبی جریدوںکے ناموں کی گونج بہت سنائی دیتی تھی، ان میں مخزن،زمانہ ،اردوئے معلی،زبان، عصمت،ہمدرد، الناظر،الہلال، معارف،علی گڑھ میگزین،ہمایوں ،اردو، نگار،ادبی دنیا، نیرنگِ خیال،ساقی، شاعر،ادبِ لطیف،شاہکار،سب رس،آجکل، کتاب، افکار،نیا دور وغیرہ خاص طور پر نمایاں تھے۔آزادی کے فوراً بعد منظر عام پر آنے والے ادبی جریدوں میںسحر،فانوس،کائنات، چراغ راہ،سویراوغیرہ ایسے رسائل تھے جنھوںنے ملک کی تخلیق کے ساتھ ساتھ اپنا تخلیقی سفر بھی جاری کیا اور ادبی حلقوں میںخاصی مقبولیت حاصل کی۔۱۹۶۰ء کی دہے کے بعد ہندوستان میں ادبی رسائل کی اشاعت میں قابلِ قدر اضافہ ہوا۔ خاص کر ۱۹۶۰ء اور ۱۹۷۰ء کی دہائی کے درمیان نہایت کثیر تعداد میں رسائل و جرائد کا اجراء ہوا۔جن میں کتاب نما،فکرو نظر،شعور،پیام تعلیم،نیا شعور،صبح،انیس ادب،شہپر،شاخسار،آذر،شب خون،خاتون،شبستان ڈائجسٹ،تحریر،نگینہ،شجر،ادبیات، گفتگووغیرہ کا شمار ہندوستان کے معروف رسائل میں ہوتا ہے۔ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ مذکورہ رسائل و جرائد میں اکثر وبیشتر اب موقوف ہوچکے ہیں۔ لیکن بعض رسائل آج بھی نہایت تسلسل ،کامیابی اور بے حدطمطراق کے ساتھ اشاعت پذیر ہی نہیں بلکہ مقبولِ عام بھی ہیں۔’’کتاب نما‘‘ کا شمار معروف رسائل میں ہوتا ہے۔جو سب سے زیادہ اہمیت کا حامل رسالہ بن کر اُبھرا ہے۔ ’’کتاب نما‘‘ دہلی سے شائع ہونے والا ہندوستان کاایک اہم اور مؤقر ادبی جریدہ تصور کیا جاتا ہے۔جو پچھلے چھیالیس سالوں سے اردو ادب کے تخلیقی اورتحقیقی و تنقیدی میزان کی عمدہ پہچان بن گیا ہے۔
مکتبہ جامعہ لمٹیڈ(مرکزی دفتر) نئی دہلی ایک اشاعتی ادارہ ہے۔ جس کی شاخیں ہندوستان کے مشہور شہروں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ ادارہ اشاعت کے ضمن میں سالہاسال سے اردو زبان و ادب کی خدمت کرتا آیا ہے۔اس ادارے کا قیام ۱۹۲۲ء میں عمل میں آیا تھا۔اب تک اس ادارے کی جانب سے ہزاروں کی تعداد میںکتابیں شائع ہوئی ہیں۔جن میں شعروادب، تنقید و تحقیق اور تخلیق و ترجمہ وغیرہ ہر نوع کی مطبوعات شامل ہیں۔ ’’کتاب نما‘‘ کے نام سے اس ادارے سے ۱۹۶۰ء میں ادبی پرچہ چہ جاری ہوا۔جس کے اوّل مدیر ریحان احمد عباسی تھے۔مشہور شاعر غلام ربانی تاباں کی زیر سرپرستی اس ادبی مجلہ نے بال و پر نکالے۔وہی اس کے منیجنگ ایڈیٹر تھے۔اس کے صفحہ اول کے ٹائٹل کے اوپر لکھا ہے’’نظریاتی تنازعوں کے دور میں ایک غیر جانب دارانہ روایت کا نقیب‘‘۔ ظاہر ہے کہ نظریاتی اوراصولی اختلاف کے شور شرابے میںاپنی غیر جانبداری کومحفوظ رکھنا سہل نہیں ہے۔’’لیکن ’’کتاب نما‘‘ نے اس سلسلے میں بڑی جگر کاوی کا ثبوت دیا۔کتابی سائز میں علمی و ادبی مضامین کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے عرصۂ دراز سے اردو ادب کی خدمت کرنا ہی اس مجلہ کا شیوہ رہا ہے۔ابتدا میں یہ رسالہ نئی مطبوعات سے روشناس کرانے کا مقصد لئے ہوئے تھا۔ بعد میںیہ پرچہ کتابوں کی دنیا میں قطب نما بن کر سامنے آیا تھا۔اس کی بساط برسوںمحض کتابوں پر تبصرے تک محدود رہی یا پھرمکتبہ یا دیگراداروں کی جانب سے شائع ہونے والی کتابوں کے بارے میں اطلاعات کی فراہمی تک۔ لیکن بعد میں اس نے ایک باقاعدہ ادبی ماہنامے کی صورت اختیار کر لی، اور اس میں تنقید و تحقیق اور شعروادبی تخلیقات جیسے مضامین،گفتگو، خاکے،طنزو مزاح،انشائیہ، شاعری،افسانے،خطوط،یادیں، مانگے کا اجالااور جائزے کے عنوانات کے تحت،مختلف النوع تحریریںاور تخلیقات شائع ہوتی رہی ہیں۔ اس کے قلم کاروں میں نئے ناموں کے ساتھ ساتھ کہنہ مشق شاعروں،ادیبوںاور نقادوں کے نام بھی شامل رہے ہیں۔’’کتاب نما‘‘ میں شائع ہونے والے مضامین نے قارئین کے ادبی ذوق کی صرف تسکین ہی نہیں کی۔ بلکہ تحقیق کے طالب علموں کے لئے راستہ ہموار کیا اور تنقید کے شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ تنقید نگار ادیب اور تخلیق دونوں کے قدو قامت کا جائزہ لیا۔
اس معیاری مجلہ کو عظیم شاعر،ادیب اور صحافی وغیرہ کا تعاون حاصل رہا ہے۔مذکورہ بالا منیجنگ ایڈیٹر اورمدیر کے علاوہ اس کے منیجنگ مدیران میں مندرجہ ذیل حضرات شامل رہے ہیں۔شاہد علی خاں،حامد علی خاںاور مدیران میںولی شاہجہان پوری،شاہد علی خاں ،ظفر ہمایوں ادیب،خالد محمود اور عمران احمد عندلیب وغیرہ۔’’کتاب نما‘‘ میں ایک اور خوشگوار تبدیلی اس وقت آئی جب۱۹۸۷ء سے اس میں’’ مہمان ادارے‘‘ کاسلسلہ شروع کیا گیا۔اس سلسلے کے تحت بعض نامورادیبوں کو مہمان مدیرکا اعزاز دیا گیا ۔رسالے کو ترتیب دینے کے علاوہ اداریہ کے طور پر ابتدائی مضمون بھی مہمان مدیر ہی تحریر کرتا تھا۔پہلے پہل اداریہ کو ’’اشاریہ‘‘ کے عنوان سے تحریرکیا جاتا تھا۔لیکن اب اداریہ ہی لکھا جاتا ہے۔ چند مہمان مدیران کے نام یوں ہیں:آلِ احمد سرور،علی سردار جعفری،حامدی کاشمیری،رفعت سروش،آفاق حسین صدیقی، عبدالقوی دسنوی،خلیق انجم،ظہیر احمد صدیقی،وارث علوی،عبدالمغنی،صغریٰ مہدی،شمیم حنفی،ابولکلام قاسمی وغیرہ۔مہمان مدیران کی تصویریں بھی متعلقہ پرچوں کے سرورق کی زینت بنیں۔
’’کتاب نما‘‘ رسالہ آجکل، نقوش،نگار،سب رس، علی گڑھ میگزین،ایوانِ اردو،شیرازہ وغیرہ کی راہ پر چلتے ہوئے خصوصی شماروں میں ان سے بھی آگے نکل گیا ہے۔’’کتاب نما‘‘ کے خصوصی شمارے دیگر رسالوں کی بہ نسبت اس لحاظ سے قدرے اہمیت رکھتے ہیں کہ ان کو صرف رسالے تک محدود نہیں رکھا گیا بلکہ مکتبہ جامعہ لمٹیڈ نے انہیں الگ سے کتابی شکل میں بھی شائع کر دیا ہے۔ اس کے برعکس اگر قاری باقی رسالوں کے کسی مخصوص شمارے کو حاصل کرنا چاہے تو اسے بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے کیونکہ اوّل تو کسی بھی رسالے کی پوری فائلیں ایک جگہ مل پانا بہت زیادہ مشکل ہوتاہے۔ دوّم یہ کہ اگرشمارہ مل بھی جاتا ہے تو نہایت ہی بوسیدہ حالت میں۔جس کی فوٹو کاپی کرنا تک محال ہوتا ہے۔اس لحاظ سے’’ کتاب نما‘‘ کو بہت بڑی وقعت اور اہمیت حاصل ہے۔کیونکہ مکتبہ جامعہ نے اس رسالے کے تمام خصوصی شماروں کو جو بوسیدہ حالت میں تھے ساتھ ہی نایاب بھی ہوچکے تھے۔ ان کی قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے اشتراک سے ازسرِنو اشاعت کو ممکن بنایا۔
’’کتاب نما‘‘میں اب تک پچاس سے زائد خصوصی شمارے شائع کیے گئے ہیں۔ماہنامہ آجکل کے بعد ’’کتاب نما‘‘ کو ہندوستان میںدیگر رسالوں کے اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ خصوصی شمارے شائع کر نے کااعزاز حاصل ہے۔اس میں شائع شدہ خصوصی شماروں میں چند کے نام اس طرح ہیں۔نئی نظم نمبر،یادگارجوش ملسیانی نمبر،سلامت علی دبیر نمبر، محمد خان شہاب مالیر کوٹلوی نمبر،عرش ملسیانی نمبر،پریم چند نمبر،سید عابد حسین نمبر،لغت نویسی کے مسائل نمبر،محمود احمد ہنر نمبر،اجمل اجملی نمبر،آل احمد سرور نمبر،خلیق انجم نمبر،فرمان فتحپوری نمبر،اختر سید خاں نمبر، نثار احمد فاروقی نمبر،عابد علی خاں نمبر،خواجہ احمد فاروقی نمبر،اردو افسانہ ممبئی میں ۱۹۷۰ء کے بعد،مغیث الدین فریدی نمبر،صالحہ عابد حسین نمبر،محبوب حسین جگر نمبر،علی سردار جعفری نمبر،حامدی کاشمیری نمبر، جمنا داس اختر نمبر،ابوسلمان شاہجہانپوری نمبر،رشید حسن خان نمبر،حنیف ترین نمبر،خواجہ حسن نظامی نمبر،قرۃ العین حیدر نمبر،شاد عظیم آبادی نمبر،صوفیا کا بھگتی راگ نمبر،شمس الرحمٰن فاروقی نمبر، ابولکلام قاسمی نمبر،مشفق خواجہ نمبر،عبدالستار دلوی نمبر،مجتبیٰ حسین نمبر،غلام ربانی تاباں نمبر،جگن ناتھ آزاد نمبر،عبدالطیف اعظمی نمبر،عبدالوحید صدیقی نمبر،شاد عارفی نمبر وغیرہ۔
سطور بالا میںرسالہ ’’کتاب نما‘‘ میں شائع شدہ خصوصی نمبرات میں اردو کی جن باوقار شخصیات پرزیر نظر مضمون میں ذکر کرنا مقصود ہے ۔ ان میں ڈاکٹر سید عابد حسین، ڈاکٹر اجمل اجملی، پروفیسر خواجہ احمد فاروقی اور شاد عارفی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔یہ سبھی شخصیات اردو زبان و ادب کے مختلف شعبۂ ہائے جات میں کارہائے نمایاں انجام دے چکے ہیں۔
’’ڈاکٹر سید عابد حسین نمبر ‘‘ماہنامہ’’کتاب نما‘‘ کی ایک اہم اور کار آمد پیش کش ہے۔کرنل بشیر حسین زیدی کی نگرانی میں مہمان ایڈیٹر ڈاکٹر صغرا مہدی نے صالحہ عابدحسین،ڈاکٹر شمیم حنفی اور ولی شاہجہانپوری جیسے صلاح کاروں کے تعاون سے اس خصوصی نمبر کو پورے خلوص اور انہماک کے ساتھ ترتیب و تزئین کا عملی جامہ پہناکر خوبصورت بنا دیا ہے۔ اُس وقت’’کتاب نما‘‘ کے منیجنگ ایڈیٹر ڈاکٹر شاہد علی خاں تھے۔یہ نمبر ۸ اگست ۱۹۸۱ء کو شائع ہوا تھا اور اس کے بعد اسی سال نومبر ۱۹۸۱ء میں اس کو کتابی صورت میں الگ سے شائع کیا گیا۔ تاکہ ہر ادب کے ہرخاص عام قاری کی اس تک رسائی حاصل ہوسکے۔اس خاص نمبر میں ڈاکٹرسیدعابد حسین پر ۱۵ مشاہیر ِ ادب کے مضامین کو شامل کیا گیا ہے۔چونکہ یہ رسالہ مکتبہ جامعہ سے شائع ہوتا ہے اور موصوف اس ادارے سے کافی عرصے تک منسلک رہے تھے۔ مکتبہ جامعہ ۱۹۲۲ء میں قائم ہو چکا تھا اورعابد صاحب کا براہِ راست تعلق مکتبے سے ۱۹۲۶ء میں شروع ہوا ۔ اس طرح مکتبے کی تقریباً تمام وکمال تاریخ سے عابد صاحب کا رشتہ رہا ہے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ مکتبے کی تاریخ بنانے میں اُن کا رول بہت نمایاں اور ممتازرہا ہے۔۱۹۴۷ء میں جب مکتبے کو ایک المناک حادثے سے گذرنا پڑا اوراس سے ایک زبردست تباہی کا سامنا تھا تب عابد صاحب کے مشوروںاور مساعی نے مکتبے کو ایک نئی لمٹیڈ کمپنی کی شکل عطا کرنے میں غیر معمولی رول ادا کیا۔آپ اُس وقت کے اوّلین ڈائرکٹروں میں شامل تھے اور مکتبے کے اشاعتی منصوبوں نیز علمی اور تعلیمی مقاصد کا بہت وسیع شعور رکھتے تھے۔حامد علی خاں، غلام ربانی تاباں اور شاہد علی خاں وغیرہ مکتبے کے اشاعتی، دیگر سرگرمیوں اور مقاصد کے سلسلے میں عابد صاحب سے ہمیشہ ہی گفت و شنید کرتے تھے۔موصوف اپنی زندگی کے آخری وقت تک جو کہ باوّن برسوں پر محیط ہے ،متواترمکتبہ جامعہ کے ساتھ ذہنی اور جذباتی وابستگی قائم رکھی۔اس ادارے سے شائع ہونے والے دونوں ماہناموں’کتاب نما‘‘ اور ’’پیامِ تعلیم‘‘ کے ساتھ ان کا ربط ہمیشہ قائم رہا۔جامعہ ملیہ اسلامیہ سے عابد صاحب کا جو رشتہ تھا، وہ جامعہ ملیہ کی قابلِ فخر تاریخ کا ایک شان دار باب ہے،جس سے سب ہی واقف ہیں لیکن اس کا علم کم ہی لوگوں کو ہوگا کہ مکتبہ جامعہ سے بھی انھیں گہرا تعلق تھا جو جامعہ ملیہ سے ان کی وابستگی سے کم نہیں تھا۔مکتبے نے اپنے ادبی ترجمان’’کتاب نما‘‘ کا ’’ڈاکٹر سید عابد حسین نمبر ‘‘شائع کر کے فرض شناسی کا ثبوت پیش کیا ہے۔
ڈاکٹر سید عابد حسین اردو کے ان بزرگ مصنفین میں تھے جن کی ادبی و علمی خدمات کا دائرہ تقریباًنصف صدی پر محیط ہے۔ ادبی مسائل پر لکھنے کے علاوہ انھوں نے قومی و ملی مسائل پر جس استدلالی انداز میں اظہار خیال کیا ہے اس کی مثال اردو میں اب تک کمیاب ہے۔ تعلیمی مسائل پر بھی ان کی گہری نگاہ رہی ہے۔ اور ذاتی زندگی میں بھی وہ بلند کرداری، اخلاق اور حسنِ سلوک کی اعلا قدروں کے مالک رہے ہیں۔ پیش نظر نمبر میں ان تمام موضوعات کا احاطہ دیدہ ریزی سے کیا گیا ہے۔
’’کتاب نما‘‘ کے اس خصوصی نمبر میں عابد صاحب کے دیرینہ رفیقوں، نئے ہم سفروں اور جدید نیاز مندوںکے علاوہ ان کے شاگردوں کے مضامین بھی نظر آتے ہیں۔کرنل بشیر حسین زیدی کے ’’عرض حال‘‘تحریر کرنے کے بعد پہلا مضمون پروفیسر محمد مجیب نے ’’عابد صاحب :چند یادیں‘‘ کے عنوان سے رقم کیا ہے۔مضمون نگار کی ملاقات عابد صاحب سے یورپ میں طالب علمی کے زمانے میں ہوئی تھی۔ملاقاتوں کا یہ سلسلہ یورپ میں ہندوستان واپس آنے تک مسلسل جاری رہا۔جہاں دونوں ایک دوسرے کے رفیق رہے اور پھرزندگی کے آخری لمحہ تک ان کا رشتہ اٹوٹ رہا۔مجیب صاحب نے صرف قیام یورپ ہی کے زمانے کی یادیں قلم بند کی ہیں، جو اس اعتبار سے اہم اور قابلِ قدر ہے کہ ان کی وساطت سے عابد صاحب کے ابتدائی دور کی اس انسان دوستی اور مرنجامر نجی کا ہمیں علم ہوتا ہے ۔ جو ان کی شخصیت کا طرۂ امتیاز بن گئی تھی۔چونکہ دونوں کی علمی ،ادبی ،اصلاحی اور تعمیری جدوجہد کا سفر ہندوستان میں جامعہ ملیہ اسلامیہ بھی جاری و ساری رہا۔ جس کا مذکورہ مضمون میں ذکر نہیں کیا گیا ہے۔عبدالسلام قدوائی ندوی نے’’ڈاکٹر سید عابد حسین مرحوم‘‘کے عنوان سے دوسرا مضمون تحریر فرمایا ہے۔ انھوں اس مضمون میں عابد صاحب کے تئیں اپنی عقیدت اور ان کی شفقت کا والہانہ اور فرحت بخش انداز میں تاثرات بیان کیے ہیں۔عابد صاحب کی تحریری خوبیوں کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’وہ محض مترجم نہ تھے ،بلکہ انھوں نے بہت سی کتابیں خود بھی لکھی ہیں۔ ان کی تحریر میں زبان کی صحت و شستگی،روانی و برجستگی اور لطافت و حلاوت کے ساتھ زورِ بیان اور قوتِ استدلال بھی بہت ہے۔ وہ معلم بھی رہے ہیں، اس لئے ان کے اندر تفہیم کی غیر معمولی صلاحیت ہے۔ وہ اپنی بات کو دل میں اُتارنے اور ذہن نشین کرنے کا ڈھنگ خوب جانتے ہیں۔زبان پر ایسی قدرت ہے کہ مشکل سے مشکل مسائل کو عام فہم بنا دیتے ہیں، مگر عامیانہ انداز کو پاس نہیں آنے دیتے۔ ان کی سلاست رکاکت سے پاک ہوتی ہے اور لطفِ بیان کہیں سے کلام کے وزن اور وقار کو گرنے نہیں دیتا بلکہ دل آویزی میں اضافہ کر دیتا ہے۔‘‘(’’ڈاکٹر عابد حسین نمبر‘‘،کتاب نما، نومبر۱۹۸۱ء،ص۱۱۔۱۲)۔
عبدالسلام قدوائی نے اس میں ڈاکٹر ذاکر حسین،پروفیسر محمد مجیب اورحکیم اجمل خاں کے ساتھ عابد صاحب کے تعلقات،ان کے ذاتی صفات اور ان کے ادبی اور سیاسی افعال کا خوب جائزہ لیا ہے،اور مذکورہ شخصیات کی روشنی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی تاریخ پر ہلکی پھلکی روشنی ڈالی ہے۔اس مضمون میں عابد صاحب کی اپنے دوستوں، رفیقوں، قرابت داروں، مقرب اور اہل ِ خانہ کے ساتھ لی گئی تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں۔ عابد صاحب ملک و ملّت کی خدمت سے کبھی غافل نہیں رہے بلکہ اس کی بقا کے لئے اپنا تن،من اوردھن سب کچھ مصرف کر دیاتھا۔زبان و قلم کے ذریعے تو عمر بھر اصلاح حال کی تدبیر کرتے رہے۔اپنی تصنیفات و تراجم اوررسائل’’جامعہ‘‘ ،’’نئی روشنی‘‘ ’’اسلام اور عصر جدید‘‘ اورانگریزی میں ’’اسلام اینڈ موڈرن ایج‘‘ کے ذریعے انھوں نے باشندگانِ ملک اور ابنائے ملّت کے ذہن کی تعمیر اور خیالات کی اصلاح کے لئے بڑا کا م کیا۔اس مضمون میں موصوف کی پیدائش سے وفات تک سرسری طور پر پوری سوانحی کوائف سے روشناسی حاصل ہوتی ہے۔ضیاء الحسن فاروقی اپنے مضمون’’مرحوم عابد صاحب(۱۸۹۶۔۱۹۷۸ء)‘‘میںان کی ادبی خدمات اور ذاتی صفات کوتحسین آمیز الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ موصوف لکھتے ہیں کہ عابد صاحب اپنی تقریر اور تحریر میں دہراتے رہتے کہ ملک و ملّت کی سچی خدمت یہ ہے کہ نوجوانوں کی ذہنی واخلاقی تربیت اس نہج پر کی جائے کہ ان میں خود اعتمادی اور خودداری پیدا ہو اور وہ اُن اعلا اخلاقی اقدار کے حامی اور مبلغ بن جائیں جنھیں حکمائے حق، صداقت، حسن اور عدل سے تعبیر کیا جائے اور جنھیں انبیاء علیہم الصلواۃ والسلام نے’’خیر کثیر‘‘ کہا ہے۔مراز ادیب کا مضمون’’ایک صاحب ِ بصیرت اور صاحبِ کردار شخصیت‘‘ مختصر ہونے کے باوجود اہم ہے۔ چونکہ عابد حسین نے گوئٹے کے مشہور ڈرامے فاؤسٹ کا اردو ترجمہ کیا تھا جس کی انفرادیت اور افادیت یہاں پرواضح کی گئی ہے۔معین الدین حارث کا مضمون ذاتی تاثرات پر مشتمل ہے جس میں جامعیہ ملیہ اسلامیہ سے عابد صاحب کے تعلقات کو بیا ن کیا گیا ہے۔’’اسلام اور عصرِ جدید کے اداریے ‘‘ کے عنوان سے پروفیسر مشیرالحسن نے معلوماتی اور بھرپور مضمون لکھا ہے۔جس میں عابد صاحب کے ذہن و فکر کے بہت سے گوشے نمایاں ہوئے ہیں۔اس رسالے میں مشیر الحسن عابد صاحب کے معاون بھی رہے ہیں۔انور صدیقی کامضمون’’نثر کا عارف‘‘ بھی ایک پُر مغز اور فکر انگیز مقالہ ہے جس میں صنفِ نثر پر عابد صاحب کی دسترس کے ثبوت پیش کیے گئے ہیں۔موصوف اردو نثر کوشعری اظہار کے وسائل اور مزاج سے آزاد کرانے کی چاہت رکھتے تھے اور اس کے شعوری جدوجہد کی بیداری پر ذور دیتے رہے۔نثر کے اسلوب نگارش میں ان کی بیشتر خوبیوں کا اس مضمون میں ذکر کیا گیا ہے۔
خواجہ احمد عباس نے مختصر سا تاثراتی نوعیت کا مضمون بعنوان’’ڈاکٹر عابد حسین مرحوم۔ایک اور انسان مر گیا‘‘ تحریر کیا ہے۔’’عابد صاحب کی یاد میں ڈاکٹر شمیم حنفی کا مضمون عالمانہ ہے اور انھوں نے عابد صاحب کے مخصوص اندازِ فکروعمل کو واضح کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔اس خاص نمبر میں سید عابد حسین کی رفیق زندگی صالحہ عابد حسین کا مضمون’’دِگر دانائے رازآید کہ ناید‘‘شامل ہے۔موصوفہ نے اس مضمون نے عابد صاحب کے زندگی کے آخری دور کی تصویر کھینچی ہے۔’’ڈاکٹر عابد حسین بحیثیت طنزو مزاح نگار‘‘ ڈاکٹر مظفر حنفی کا ایک بسیط مقالہ ہے۔انھوں نے اس مضمون میں عابد صاحب کے مضامین میں طنزو مزاحیہ عناصر کا بڑی عرق ریزی سے جائزہ لیا ہے اور طنزو مزاح سے متعلق ان کے مخصوص نظریے کی بھی نشاندہی کی ہے۔احمد علی علوی کا مضمون’’استاذی ڈاکٹر سید عابد حسین‘‘ بھی تاثراتی نوعیت پر ہی مبنی ہے۔جبکہ ڈاکٹرصغریٰ مہدی اپنے مضمون’’توڑا جو تونے آئینہ تمثال دار تھا‘‘میںخود اپنے ہی الفاظ میں عابد صاحب کی رحلت پر آئے ان کے رشتہ داروں،عزیزوں، شاگردوں،عقیدت مندوں اور چاہنے والوں کے خطوط کا ایک ایسا انتخاب پیش کیا ہے جس سے عابد صاحب کی ہمہ جہت شخصیت کی کچھ اہم جھکیاں سامنے آسکیں۔حیات لکھنوی اور سیدہ فرحت نے اپنی نظموں بالترتیب ’’ڈاکٹر سید عابد حسین ‘‘اور اشکِ عقیدت‘‘ سے انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔اس خاص نمبر کے آخر میںعابد صاحب کی طالب علمی کی کچھ تخلیقات کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔جس میں ان کے خطوط اور بعض اہم مضامین کو جگہ دی گئی ہے۔اس خصوصی اشاعت میں جو کمیاں راہ پاگئے ہیں وہ یہ کہ صرف دو ایک مضامین کو چھوڑ کر باقی سب کے سب تاثراتی نوعیت کے ہیں۔ جبکہ عابد صاحب کی علمی ، ادبی،تعلیمی اور قومی و ملی خدمات کا دائرہ محدود نہیں بلکہ بہت وسیع اور متنوع ہے ،جس کے حوالے سے بات ہونا ضروری تھی۔جیسے ان کی حیات پر بھرپور مضمون تحریر کیا جانا چاہیے تھا۔ان کے رسائل پر ایک نظر ڈالنی چاہیے تھی وغیرہ۔الغرض عابد صاحب پر ’’کتاب نما ‘‘میں شائع کیا گیا یہ خصوصی نمبر ان کی شخصیت کا آئینہ ہے۔اب یہ نمبر خصوصی دستاویز کی اہمیت اختیار کر چکاہے۔
ماہنامہ ’’کتاب نما‘‘ نے۱۹۹۲ء میں ڈاکٹر اجملؔ اجملی پر ایک خصوصی نمبر شائع کیا۔جس کو بعد میں اسی سال نومبر ۱۹۹۲ء میں کتابی صورت میں بھی شائع کیا گیا۔اس خاص نمبرکے مہمان ایڈیٹرعلی احمد فاطمی تھے جس میں ان کے معاون محترمہ عذرا نقوی تھیں۔جبکہ اس خصوصی شمارے کے ایڈیٹر بھی شاہد علی خاں ہی تھے۔جب مذکورہ شمارہ شائع کیا گیا تب اجملؔ اجملی بستر علالت پرتھے اور شب و روز کے لمحات موت و زیست کی کشمکش میں گذار رہے تھے۔شاہد علی خاں نے اپنے زیر سرپرستی رسالے میں کئی ادباء کی خدمات کو نمایاں کرنے میںہمیشہ کوشاں رہے۔اجمل ؔاجمل کی اصل پہچان ادب میں شاعری کی وجہ سے ہیں۔اگرچہ ان کی تخلیقی اور فنی مہارت دیگر اصناف میں نمایاںہے لیکن شاعری ان کے پورے فن کا آئینہ دار ہے۔زندگی بھر ترقی پسندی کی حمایت کی اور اس کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے رہے۔یہاں تک ان کا پورا تخلیقی سرمایہ ترقی پسندتحریک کا مظہر ہے۔مر تبہ خصوصی شمارہ علی احمد فاطمی اداریہ میں لکھتے ہیں کہ’’وہ ایک عالی قسم کے ترقی پسند مفکّر اور ساتھ ہی تحریک کے اتنے بڑے مجاہد اور سپاہی ہیں کہ ان کو شاعر کم انجمن ترقی پسند مصنفین کا سرگرم رُکن اور متشددترقی پسند دانشور زیادہ سمجھا گیا۔‘‘انھوں نے اداریہ میں اجملؔ اجملی کی ترقی پسند تحریک سے وابستگی ،ان کی شاعری میں ترقی پسندی کی نمائش و افزائش اور ترقی پسند تحریک کے خصوصی عناصر سے متعارف کرانے کی قابلِ سراہنا کوشش کی ہے۔اس نمبر میں ابتداً اجمل ؔ اجملی کی سوانحی کوائف کا مختصر سا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔جس سے محسوس ہوتا ہے کہ موصوف اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کئی اسناد کے مالک تھے۔ صحافی رہے،استاذی کے فرائض انجام دیے، کئی ممالک کی اسفار کیے۔ انعام و اکرامات سے نوازے گئے،شاعری ،ترجمہ اور صحافت میں انہیں فنی استعداد حاصل ہے۔پروفیسر عنوان چشتی’’کتاب نما‘‘ کے’’ اجملؔ اجملی نمبر‘‘ میں ان کی شخصیت پر یوں تبصرہ کرتے ہیں۔
’’اجملؔ اجملی اردو کے اُن جیالے فن کاروں میں شامل ہیں۔ جنھوں نے واقعی زندگی اورادب کی خدمت میں اپنی زندگی کا بیشتر حصّہ صرف کردیا ہے۔ ان کے کارنامے ترجمے،صحافت اور شاعری پر مشتمل ہیں۔اگرچہ انھوں نے ہر جگہ اپنی بصیرت کا ثبوت مہیّا کیا ہے، لیکن’’ شاعری‘‘میں ان کا تخلیقی جوہر کھِلتا اور کھُلتاہوا نظر آتا ہے۔‘‘(کتاب نما،مارچ۱۹۹۳ء،ص۶۵)۔
اس خصوصی نمبر کے مشمولات میں کل پندرہ مضامین شامل کیے گئے ہیں۔اکثر مضامین تاثراتی نوعیت کے ہیں اور کچھ میں موصوف کے فکروفن پر اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔پہلا مضمون غلام ربانی تاباں کا’’ڈاکٹر اجمل اجملی ‘‘ تحریر کردہ ہے۔جس میں انھوں نے اجملؔ اجملی سے اپنے تعلقات اور ان کی نظم و نثر پر ہلکی پھلکی روشنی ڈالی ہے۔بھیشم سا ہنی کا مضمون’’اجملی میرے دوست میرے رفیق‘‘میں مضمون نگار نے اجمل اجملی سے اپنے دوستانہ اور ادبی مراسم کے تعلقات کا ذکر کیا ہے۔اس کے علاوہ انھوں نے موصوف کی زندگی کے حالات و واقعات،روزگار و معاش اور غیر موزوں طبیعت کے بارے میں سرسری طور پر تذکرہ کیا ہے۔پروفیسرسید محمد عقیل کا لکھا ہوا مضمون’’سفرزاد۔ایک تجزیہ‘‘ اور ڈاکٹر صغرا مہدی کا مضمون’’سفر زاد ۔ایک جائزہ‘‘ دونوں قابلِ مطالعہ ہے۔اوالذکر مضمون میں اجمل اجملی کے شعری موضوعات کے علاوہ نظموں اور غزلوںکا بڑی جاذبیت سے تجزیہ کیا گیا ہے۔پروفیسر موصوف ان کی شاعری کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں:
’’اجمل اجملی کے اس مجموعے میں ترقی پسنددورِ شاعری کی تقریباً تمام خوبیاں موجود ہیں۔ رومانیت اور اس کی تلخیاں، فکر میں خارجی اظہاریت،عزم اور آہنگِ انقلاب،سماجی ناانصافیوں کے خلاف جدوجہد اور پھر صبح کا انتظار جس میں انسانوں کی دنیا بدلے گی اور ان صورتوں کے اظہار کے لئے نظم کا سانچہ۔ میرا خیال ہے کہ اجمل کی شاعری کی یہی محبوب صورتیں ہیں۔ان کی شعری کیفیات کو بلندی ان کی نظموں سے ہی ملتی ہے۔‘‘(’’ڈاکٹر اجمل اجملی نمبر‘‘،کتاب نما،نومبر ۱۹۹۲ء،ص۱۸۔۱۹)۔
متذکرہ بالا مضمون کے علاوہ صغرا مہدی نے بھی اپنے مضمون میں انہیں بنیادی طور پر نظم کا شاعر قرار دیا ہے۔دونوں مضامین میں اجمل اجملی کی مسلسل نظم’’بازگشت‘‘ پر سیر حاصل روشنی ڈالی گئی ہے۔’’اجمل اجملی:اک شعلہ آگہی‘‘میںقمر رئیس نے موصوف شاعر کے متفکر ذہن،سادگی و صفائی،درویشانہ وصوفیانہ اطوار،دانشمندی و اخلاص مندی اورتخلیقی وجدان پر مدلل تبصرہ کیا ہے۔مزید ان کے تراجم کی خوبیوں اور نظموں و غزلوں پر اپنی ناقدانہ اور بصیرت افروز آرا سے بھی سرفراز کیا ہے۔اجمل اجملی کی متعالی اور متّصف شخصیت کا خاکہ عبداللہ ولی بخش قادری نے مضمون’’اجمل اجملی: توفیقِ اضطراب کو ایماں بنا دیا‘‘میںکھینچا ہے۔’’اجمل اجملی: چند تاثرات‘‘ کے بعنوان علی احمد فاطمی کا اس خصوصی نمبر میں سب سے مبسوط اور بلیغ مضمون ہے۔جس میں اجمل اجملی کے خاندانی پسِ منظر،دورانِ طالب علمی کا زمانہ،اساتذہ،ان کی شعری فکر انگیزی،انسان اور وطن دوستی،ادبی انجمنوں،کالج کی تنظیموں اور ترقی پسند تحریک سے ان کی وابستگی،سجاد ظہیر کے ساتھ مل کر صحافتی سرگرمیوں میں ان کی شمولیت،ان کے افتاد طبع خیالات اور ان کی شعری و فکری عظمت کو بیان کرتا یہ مضمون جاذبِ توجہ ہے۔سراج اجملی نے ان کی غزل گوئی پر لکھا ہے، تو وہیں خود موصوف نے ’’میری شاعری‘‘ کے عنوان سے مضمون قلمبند کیا ہے۔جس میں انھوں نے ایمانداری ،بیباکی اور منصفانہ انداز میں اپنی شاعری کے حوالے سے قارئین کوکئی گوناگوں پہلوؤں سے روشناس کرایا ہے۔ اس نمبر کے دیگر مضمون نگاروں میں جوگندر پال، ڈاکٹر جاوید اشرف،عذرا نقوی بھی شامل ہیں۔آخر میںڈاکٹر اجمل اجملی سے علی احمد فاطمی کی گفتگو کے علاوہ ان کی نظموں اور غزلوں کے انتخاب کو بھی شامل ِ اشاعت کیا گیا ہے۔
فروری۱۹۹۳ء میں’’کتاب نما‘‘ میں’’ خواجہ احمد فاروقی نمبر‘‘ کی اشاعت عمل میں لائی گئی۔خواجہ صاحب بھی بقیدِ حیات تھے،جب اس خصوصی نمبر کا ہتمام کیا گیا۔اس نمبر کو بعد میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے اشتراک سے بھی ۲۰۱۱ء میںنہایت ہی آرائش و پیرائش کے ساتھ دوبارہ شائع کیا گیا۔اس خصوصی شمارے کے مرتبہ ڈاکٹر خلیق انجم ہیں جب کہ مکتبہ جامعہ کے اس وقت کے منیجنگ ڈائریکٹر خالد محمود تھے۔اس خصوصی نمبر میں خواجہ احمد فاروقی کی شخصیت اور فکرو فن پراردو زبان کی ممتاز اورمعروف ترین شخصیات نے جو کہ ان کے معاصرین بھی رہے ہیں، بسیط اور بلیغ مضامین رقم کر کے خواجہ صاحب کو گلہائے عقیدت پیش کیا ہے۔خواجہ احمد فاروقی(۱۹۱۷ء تا اعلیٰ پایہ کے محقق،نقاد،خاکہ نگار،صفِ اول کے انشا پردازاور مکتوب نگارتھے۔ میرؔ’’میرتقی میر:حیات اور شاعری‘‘ پراردو میں باقاعدہ پہلا تحقیقی مقالہ انہی کا لکھا ہواہے،جس کے بعد سے میر شناسی کی روایت نے طول پکڑا۔ غالبؔ کی فارسی کتاب’’دستنبو‘‘ کی پیچیدہ نثر کا انگریزی میں فاروقی صاحب نے ہی بہت شاندار ترجمہ کیا۔ وہ اعلا درجے کے منتظم اور اردو تحریک کے علمبردار تھے۔پروفیسر امیر عارفی سابق صدر،شعبۂ اردو ،دہلی یونی ورسٹی اردو کی بقاکے تئیں ان کی کاوشات کو ان الفاظ میں سراہتے ہیں:
’’جب اردو کے خلاف تیز تند آندھیاں چل رہی تھیں اور اردو کے چاروں طرف اندھیراں ہی اندھیرا تھاتو فاروقی صاحب نے دہلی یونی ورسٹی میں اردو کی بقا کے لئے ایک ننھا سا دیا روشن کیا،جس نے ان کے خلوص،لگن اور غیر معمولی جدوجہد سے بہت جلد مہر نیم روز کی شکل اختیار کر لی۔‘‘(بیسویں صدی کی ممتاز شخصیت:خواجہ احمد فاروقی،مرتبہ از خلیق انجم،انجمن ترقی اردو ہند،نئی دہلی،۲۰۰۰ء،ص۹)۔
ایک وقت تھا جب پوری اُردو دنیا میںدو تین ہی نام گونجتے تھے۔ان میںپروفیسر خواجہ احمد فاروقی کا نام بھی شامل تھا اور دانش گاہوں کی دنیا میں تو یہ نام سرفہرست تھا۔دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے لئے ان کی خدمات اور کاوشات کو کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔پہلے اس یونی ورسٹی میں اردو،فارسی اور عربی کا مشترکہ ڈیپارٹمنٹ تھا،بعد میں اُردو کو الگ ڈیپارٹمنٹ کی حیثیت دلانے میں ان کا ہی پورا یوگدان رہا ہے۔پیلیو گرافی (مخطوطہ شناسی )کا ایک سالہ کورس انھوں نے ہی شروع کیا تھا اور آج بھی ہندو پاک میں صرف اسی شعبے کو یہ فخر حاصل ہے۔متنی تنقید پر پہلی باضابطہ ،باقاعدہ اور معتبرکتاب لکھنے کی تحریک خلیق انجم میںخواجہ صاحب نے ہی پیدا کی تھی۔اس کے علاوہ تحقیقی،طباعت اور ترجمے کے کاموں کی ابتدا،رسالہ اردوئے معلی کا اجرا،عظیم الشان سمیناروں،کانفرنسوں،پُر وقار تقریبوںکا انعقاد ان کی زیر سرپرستی میں عروج پر تھا۔دہلی یونی ورسٹی کا شعبۂ اردو واحد شعبہ ہے جس کے سمیناروں میں اس وقت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو اور ڈاکٹر ذاکر حسین نے شرکت کی۔’’خواجہ احمدفاروقی نمبر‘‘مرتبہ ازڈاکٹر خلیق انجم ’’کتاب نما ‘‘ کے اداریہ میں ایسی بہت سی باتوں کا نہایت ہی عمیق انداز میںتذکرہ کرتے ہیں۔
پروفیسر ارتضیٰ کریم خواجہ احمد فاروقی پر ماہنامہ’ ’ادبی دنیا‘‘ میں شائع شدہ اپنے ایک مضمون’’اردو کے خواجہ :خواجہ احمد فاروقی‘‘میں ان کی شخصیت کے متعلق یوں تحریر کرتے ہیں:
’’خواجہ کے لفظی معنی خداو ند، صاحب،مالک، آقا،سردار کے ہوتے ہیں۔غور کیجئے تو خواجہ احمد فاروقی کی’خواجگی‘ان کی حیات میں اور مرنے کے بعد بھی باقی ہے۔لیکن ان کو یہ مقام یا مرتبہ اس لئے نہیں ملا کہ وہ کسی متمول خاندان میں پیدا ہوئے تھے یا پوتڑوں کے رئیس تھے بلکہ انھوں نے اپنی قوم، زبان اور ادب کے لئے ایسے پائیدار اور مستحکم کام کیے جنہیں’صدقہ جاریہ‘ کی حیثیت حاصل ہے جن سے تادور آفتاب ان کا زندہ رہے گا۔‘‘(ماہنامہ ’’ادبی دنیا،نئی دہلی،جلد ۱،شمارہ ۲،ص۶)
اسی مضمون میں پروفیسر ارتضیٰ کریم ایک اور جگہ تحریر فرماتے ہیں:
’’خواجہ احمد فاروقی عملی انسان بھی تھے اور علمی وقار کے حامل بھی۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اگر ایک طرف اردو زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے لئے ٹھوس کام بھی کیے تو دوسری جانب کئی یادگار تصنیفات اور تالیفات، مضامین اور دیگر تحریریں بھی دیں۔‘‘
اس خصوصی نمبر میںکل پندرہ مشاہیرِ ادب کے مضامین شامل ہیں۔اداریہ کے بعد خواجہ صاحب کے سوانحی کوائف کا اندراج کیا گیا ہے۔جس میں ان کی پیدائش،تعلیم(اردو،انگریزی،عربی،فارسی میں ایم۔اے،بعد میںاردو میں پی۔ایچ۔ڈی)،درجنوںتصنیفات،تالیفات جیسے’’مرزا شوق لکھنوی‘‘،’’کلاسیکی ادب‘‘،’’مکتوبات اردو کا ادبی و تاریخی ارتقا‘‘،’’ذوق و جستجو‘‘،’’نئی شاعری‘‘،’’چراغِ راہ گذر‘‘ وغیرہ۔مخطوطات کی تریب و تدوین میں’’تذکرۂ سرور یا عمدۂ منتخبہ‘‘،’’کربل کتھا:فضلی کی قدیم نثر‘‘،’’گنج خوبی‘‘،’’دیوان بقاؔ‘‘،’‘’دیوان میرؔ‘‘وغیرہ۔کتابوں کے لئے خاص ابواب،انعام و اکرام،درجنوںبین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت،خصوصی اور توسیعی خطبات،درجنوںعلمی و ادبی انجمنوں سے تعلق،علمی اسفار،تحقیقی اور تنقیدی مقالے جو ان کے متعلق لکھے گئے وغیرہ کا اس میں مفصل ذکر کیا گیا ہے۔ اردو کے پہلے پروفیسر ایمی ری ٹس ہونے کا فخریہ اعزاز بھی انہیں حاصل ہے۔موصوف اپنی زندگی میں کئی معزز عہدوں پر فائز رہے۔ہندوستانی ادب کے مہمان پروفیسر کی حیثیت سے انھوں نے کئی بیرونی ممالک ماسکو، تاشقند،فرانس،مغربی جرمنی وغیرہ کا سفر کیا۔
’’خواجہ احمد فاروقی نمبر‘‘ کا پہلا مضمون پروفیسر خلیق احمد نظامی کا بعنوان’’خواجہ احمد فاروقی‘‘ہیں۔خواجہ صاحب ان کے معاصرین میں بھی شامل تھے اور ان سے بہت قربت بھی رکھتے تھے۔خلیق احمد نظامی صاحب نے ان کے بچپن، دورانِ طالب علمی کے زمانہ کا ذکر، ان کی تعلیمی قابلیت، ذہنی اور علمی ذکاوت، تحقیقی اور تنقیدی صلاحیت،خیالات اور فکرو احساسات وغیرہ سے خوش اسلوبی سے روشناس کرایاہے۔خلیق احمد نظامی لکھتے ہیں:
’’خواجہ صاحب ماضی کے سرمایے کے قدردان اور حال کے صحت مند رجحانات کے ہمدرد ہیں۔ان کی آنکھوں میں حال کا عزم اور مستقبل کا نور ہے۔جو لوگ ماضی سے خفا اور حال سے بیزار ہیں۔ ان کے لیے خواجہ صاحب کی تنقید صبح عید کی نوید ہے۔‘‘(’’خواجہ احمد فاروقی نمبر‘‘،کتاب نما،فروری ۱۹۹۳ء،ص۱۶)۔
پروفیسرخلیق صاحب کا مضمون مختصر لیکن بے حدمفید ، کارآمداور مامع ہے۔جس میں انھوں نے خواجہ صاحب کی تعمیری کاموں کا سرسری جائزہ لیا ہے۔دوسرا مضمون’’شائستگی کے ڈھانچے میں ڈھلا انسان‘‘ سید حامد کا تحریر کردہ ہے۔اس میں بھی خواجہ صاحب کی بحیثیت ایک منتظم ، ایک ادیب اورایک استاد کے ان کی خدمات اور کاوشات کا ذکر ملتا ہے۔پروفیسر محمد حسن کا مضمون’’اردو خواجہ‘‘ معنی آفرین مضمون ہے۔جس سے خواجہ صاحب سے متعلق بہت سی نجی باتوں کا علم ہوتا ہے۔انھوں نے خواجہ صاحب سے دوسروں دوستوں کے توسط سے ملاقاتیں اور کبھی براہِ راست ہوئی ملاقاتوں کا ذکر،دلی کالج سے اپنی وابستگی، ان کے تحقیقی اور تنقیدی کارناموںکامنظرنامہ،ان کے اسلوب،ان کی برگ و بار شخصیت کا حوالہ،ان کے حیرت انگیز تجربات،ان کی وسیع النظری اور کشادہ دلی اوراردو کے فروغ کے تئیں ان کی جدوجہد وغیرہ کے متعلق اثرانگیز تحریر مرقوم کی ہیں۔ پروفیسر محمد حسن کے مضمون کا ایک اقتباس خواجہ صاحب کے آفاقی نظریہ کو سمجھنے میںہماری بھرپوررہنمائی کرتا ہے:
’’خواجہ صاحب کے یوں تو بہت سے کارنامے ہیں لیکن سب سے بڑا اور سب سے اہم کارنامہ یہی ہے کہ انھوں نے اوّل تو ۱۹۴۷ء کے بعد کی خون آشام دہلی میں اردو کے برگ و بار پھر سے لگا ئے اور انھیں پروان چڑھایا اور دوسرے انھوں نے اردو کو عالمی پیمانے پر دیکھے دکھانے کی کوشش کی اور اسے عالمی سیاق سباق اور آفاقی نظر بخشی اور یہ کام جس طرح ان سے سرانجام پایا اور کسی سے نہیں ہو سکا۔‘‘(’’خواجہ احمد فاروقی نمبر‘‘، کتاب نما،فروری ۱۹۹۳ء،ص۲۷)َ۔
’’خواجہ احمد فاروقی نمبر‘‘نمبر کا اگلا مضمون’’یاد نامہ:ایک مطالعہ،ایک تجزیہ‘‘ پرفیسر ظہیر احمد صدیقی کے نوکِ قلم کا نتیجہ ہے۔ پروفیسر ظہیر احمد صدیقی محتاج تعارف نہیں ہے۔خواجہ صاحب کے ساتھ دلّی کالج کے ابتدائی اساتذہ میں ان کا نام سرفہرست ہے اوران کے پہلو بہ پہلوشعبہ کے کاموں میں مصرفیت اور مشغولیت کاشرف بھی انہیں حاصل ہے۔ اپنے معاصرین میں خواجہ صاحب کی اس قدر قربت شاید ہی کسی دوسرے استاد سے رہی ہو، جتنی کہ ظہیر صاحب کے ساتھ تھی ،موصوف انہیں بہت عزیز تھے۔خواجہ صاحب مہمان پروفیسر کی حیثیت سے بدیش گئے تو صدر شعبہ کی بھاگ ڈورانہی کے ہاتھوں میں تھی۔انھوں نے خواجہ صاحب پر ایک قابلِ تعریف خاکہ قلمبند کیا ہے جوان کتاب’’فکری زاویے‘‘ میں بھی شامل ہیں ۔قومی کونسل کے ماہنامہ رسالہ’’اردو دنیا‘‘ کے دسمبر ۲۰۱۵ء شمارے میں خواجہ صاحب کو یاد کرتے ہوئے اس خاکے کو دوبارہ شائع کیا گیا۔زیرِ نظر مضمون میں انھوں نے خواجہ صاحب کے خاکوں پر مشتمل کتاب’’یادیار مہرباں‘‘ کا بہترین مطالعہ اور تجزیہ کیا ہے۔اس کتاب کے دوسرے حصے بعنوان’’یاد نامہ‘‘ میں ستّرہ مرحومین کے خاکے لکھے گئے ہیں۔ظہیر احمد صدیقی نے اپنے مضمون میںابتداًصنفِ خاکہ کے اوصاف پر روشنی ڈالی ہے اور بعد میں خاکہ نگار کے فن اوراسلوب کے ذیل میں آنے والی جابجا خوبیوں پر اپنی مدلل آرا سے مستفید فرمایا ہے۔چونکہ موصوف کو خود بھی فن خاکہ نگاری پر دسترس حاصل ہے۔اس لئے خاکے میں پائے جانے والی خوبیوں اور خامیوں پر ان کی بصیرت افروز نظر ہے۔’’یاد یار مہرباں‘‘ میں خواجہ صاحب کی خاکہ نگاری کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’یاد یار مہرباں‘ میں جو گرفت کردار نگاری اور حسن بیان پر ہے وہ اس عہد میں نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔ اس میں جو خاکے ہیں ان کو اگر چہ خواجہ صاحب نے قریب سے دیکھا ہے مگر ان کی بزرگی نے بے تکلفی کی بجائے کو درمیان میں لاکھڑا کیا ہے۔مگر اس عقیدت میں غیریت اور اجنبیت نہیں بلکہ محبت اور خلوص شامل ہے۔ اس کے برخلاف’یاد نامہ‘ کے تمام کردار خواجہ صاحب کے لئے ہم نشین کی حیثیت رکھتے ہیں اور خواجہ صاحب کو ع’جمال ہم نشیں درمن اثر کرد‘ کا اعتراف بھی ہے۔مگر ان کرداروں پر وہ گرفت نظر نہیں آئی جو’یادیارمہرباں‘ کا طغرائے امتیاز ہے۔‘‘(’’خواجہ احمد فاروقی نمبر‘‘،کتاب نما،فروری۱۹۹۳ء،ص۴۰)
متذکرہ بالا میں پیش کیے گئے اقتباس کی روشنی میں قارئین پروفیسر ظہیر احمد صدیقی کی ناقدانہ اور فنکارانہ مہارت قارئین بخوبی واقف ہوگئے ہونگے۔کہ کس طرح اور کس زاویے سے انھوں نے خواجہ صاحب کے فنِ خاکہ کی خصوصیت کو سنجیدگی سے پرکھا ہے۔ ڈاکٹر کمال احمد صدیقی کا مضمون’’خواجہ احمد فاروقی کی ادبی خدمات پر ایک نظر‘‘ تین صفحات پر مشتمل ہے۔جس میں مضمون نگار نے سوادوصفحات میں خواجہ صاحب کے ساتھ آزادی کے فوراً بعد اپنی پہلی ملاقات، تقسیم کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال، دلی میں اردو پر پنجابی کے اثرات،اردو اخباروں کی صورتِ حال،ہندوستانی دستور میں اردو کا مقام،ادیبوں،صحافیوں اور سیاست دانوں کا اردو کی بحالی میں رول،مرحوم دلی کالج کا سرسری ذکر اور اس سے معروف ہستیوں کے تعلق وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔ جبکہ آخرکی بیس سطروں میں خواجہ صاحب کی ادبی خدمات کے طور پر صرف چند کتابوں کے نام گنوائے ہیں۔یقین کے ساتھ ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اس مضمون سے خواجہ صاحب کی ادبی خدمات کے ساتھ مکمل انصاف نہیں کیا سکا ہے۔
’’پروفیسر خواجہ احمد فاروقی :جیسا میں نے انہیں پایا&ls