کسی دانشور کا قول ہے کہ جب کتاب سڑکوں پر اور جوتے کانچ کے شوروم میں بکنے لگیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس قوم کو علم کی نہیں جوتوں کی ضرورت ہے ۔ بدقسمتی سے ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں وہاں آج نہیں بلکہ کئی برس پہلے کتب بینی یا کتاب پڑھنے کا رجحان ختم ہو گیا ہے اور ان کی جگہ جوتوں و دیگر اشیاء نے لے لی ہے ۔ ہم اپنے آپ کو اور اپنے ارد گرد دوسرے لوگوں کو دیکھیں تو کتاب ہماری ترجیح اور ضرورت میں شامل ہی نہیں ہے لیکن اس کے برعکس ہم اپنے موبائل فون ، کپڑوں اور جوتوں پر خصوصی توجہ دیتے ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے پاس کم از کم 20 ہزار روپے والا سمارٹ فون ہو اکثر لوگ تو 50 ہزار سے کم قیمت والے موبائل فون کو حقیر اور اپنی شان/ اسٹیٹس کے خلاف ہی سمجھتے ہیں ۔ کپڑوں کے فی جوڑے کی کم از کم قیمت 3 ہزار روپے اور جوتوں کے فی جوڑے کی قیمت بھی کم از کم اتنی ہی ہوتی ہے جبکہ عام طور پر خواتین کے لباس کے فی جوڑے کی کم از کم قیمت 4 ہزار روپے اور اس سے اوپر 5 سے لے کر 10 ہزار روپے فی جوڑے کی قیمت ہوتی ہے اور ایسی خواتین بھی ہیں کہ ان کے فی جوڑے کی کم از کم قیمت 20 ہزار روپے اور اس سے اوپر 50 ہزار روپے تک ہوتی ہے ۔ خواتین کے پرس کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کرتی نظر آتی ہیں ۔ حالانکہ 200 روپے میں بھی اچھا پرس مل جاتا ہے اور وہ 2 سال تک بھی چل سکتا ہے لیکن اکثر خواتین کے فی پرس کی کم از کم قیمت 2000 ہزار روپے اور اس سے اوپر 5سے 10 ہزار روپے تک بھی ہے اور وہ اس پرس کو ایک سال سے زیادہ استعمال نہیں کریں گی یہی حال ان کے لباس، موبائل فون اور جوتوں کا ہے ۔
موبائل فون، کپڑوں اور جوتوں کے شوق میں مرد حضرات بھی کم نہیں ہیں لیکن اکثر خواتین کا شوق ہی نرالا ہوتا ہے ۔ اس خیال کی خواتین میچ یعنی مماثلت کو زیادہ ترجیح دیتی ہیں وہ یہ دیکھتی ہیں کہ ان کے موبائل فون ، لباس، پرس اور جوتوں کا آپس میں میچ ہے یا نہیں جب ان سب کا میچ نظر آئے تب جا کر وہ مطمئن ہوں گی اور پھر گھر سے باہر نکلنے کو آمادہ ہوں گی ۔ کسی ماڈرن دانشور نے تو یہاں تک بھی پیشنگوئی کر دی ہےکہ اگر " میچ " کی ترجیح اسی طرح برقرار رہی تو وہ وقت بھی دور نہیں کہ جب عین نکاح کے وقت کوئی دلہن اپنے دولہا کو یہ کہہ کر مسترد کر دے گی کہ دولہا کا رنگ مجھ سے میچ نہیں کر رہا ۔ پیسوں کے بے دریغ خرچ کرنے کی خواتین کی یہ سوچ بھی قابل ذکر ہے کہ ہر ایک تقریب خواہ وہ شادی کی ہو، میلاد کی ہو، دفتر کے کسی موضوع پر کوئی اجلاس ہو ، خدانخواستہ کوئی تعزیتی نشست یا اجتماع ہو ہر ایک تقریب میں شرکت کے لیے نئے نئے لباس، جوتوں اور پرس کی نمائش کی جائے گی ۔ مرد حضرات پرس کی بجائے گاڑی کے میچ کو اہمیت دیں گے یعنی لباس، موبائل فون، جوتے اور گاڑی ایک ہی کلر کے ہوں تب جا کر بات بنے گی ۔ اس کے برعکس ان مرد و خواتین کی اس سوچ اور شوق کا جائزہ لیں کہ وہ تعلیم یا علم کو کتنی اہمیت دیتے ہیں کتاب پر کتنا خرچ کرتے ہیں ۔ میرے خیال میں 98 فیصد مرد و خواتین کتاب کو فضول اور کتاب پڑھنے والوں کو پاگل اور بیوقوف سمجھتے ہیں ۔ کتاب یا کتب بینی ان کی ترجیح، شوق اور بجٹ میں شامل ہی نہیں ہے کتاب ان کے لیے غیر ضروری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کتاب دوست افراد کتاب دوستی اور کتب بینی کے شوق کو بڑھانے کے لیے ہزارہا جتن کرتے ہیں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں اور کتاب میلہ کا انعقاد کرتے ہیں اور نہایت کم قیمت پر کتابیں دستیاب کرتے ہیں لیکن سوال ہی ہیدا نہیں کہ سال میں اپنے میچ کرنے والے جوتوں، لباس ، سمارٹ فون، پرس اور گاڑی پر لاکھوں روپے خرچ کرنے والے کتاب میلہ میں شرکت کریں بلکہ وہ کتاب میلہ میں شرکت کو اپنی شان اور شوق کے خلاف سمجھتے ہیں اگر وہ وہاں آ بھی جائیں تو ان کو ایک بہترین کتاب کی 200 یا 500 روپے کی قیمت بھی بہت زیادہ محسوس ہوگی اور "یہ بہت مہنگی ہے" کہہ کر اس کتاب کو مسترد کر دیں گے لیکن اس کے برعکس ان ہی مرد و خواتین کو ہزاروں روپے کی قیمت کے حامل جوتے اور سینڈل قیمت کے لحاظ سے مناسب بلکہ" سستے" محسوس ہوں گے ان کو خرید کرتے ہوئے ہاتھوں میں اٹھا کر فخر محسوس کریں گے لیکن اس کی جگہ ان ہاتھوں میں کتاب اٹھاتے ہوئے شرم اور جھجھک محسوس کریں گے ۔ اس رجحان سے ہم یہ ثابت کر چکے ہیں کہ ہمیں کتاب کی نہیں بلکہ "جوتوں " کی ضرورت ہے ۔