اگر کوئی ادیب شعوری طور پر کسی مخصوص صنف ادب سے جڑا ہو تو اس کی تحریر یا تخلیق میں ایک قسم کا فنی وموضوعاتی توازن ضرور نظر آئے گا‘ کیونکہ کسی بھی کام کی کامیابی میں تجربہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ ڈاکٹر عشرت ناہید کا بیشتر علمی وادبی کام صنف افسانہ سے جڑا ہوا ہے‘جس کا اندازہ ان کی تصانیف”حیات اللہ انصاری کی کہانی کائنات“ ”ایک لفظ کی موت“اور ”اردو افسانے کی نسائی آواز“ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔اب ان کے تخلیقی کام کا جائزہ لیں تو ان کے افسانوی مجموعے”منزل بے نشاں“ میں شامل افسانوں ’سنگ تراش‘’منزل بے نشاں‘سہیلی‘’ذرا اعتبار پا لے‘’لہو لہو افسانہ‘’آج کی حوا‘’کتاب چہرہ‘’کسک‘’گواہ‘’چاند گرہن‘ ’ہجر نا تمام‘’گلچیں‘’مجھے یقین ہے‘’سائبان‘’کچھ ایسے بہار ائی“فیصلے دل کے‘’صحافی رنگ چہرہ‘’آنکھیں‘’مہذب درندہ‘کے مطالعہ سے ظاہر ہے کہ انہیں نہ صرف فن افسانہ نگاری پر گہری نظر ہے بلکہ عملی طور پر بھی وہ موضوع کو افسانوی قالب میں ڈھالنے کے ہنر سے باخبر ہیں۔چونکہ افسانہ فکروفن(Art and thought) کے تخلیقی امتزاج سے بنتا ہے‘نہ کہ خیالات کو بے ربط انداز سے پیش کرنے کا نام ہے کہ کہیں پر مضمون تو کہیں پر انشائیہ یا صرف واقعہ نگاری کی عکاسی ہورہی ہو۔اس تناظر میں دیکھیں تو عشرت ناہید کے کئی افسانوں میں فن اور موضوع کادلچسپ تخلیقی برتاؤ (Creative treatment)نظر آتا ہے۔جس کی مثال افسانہ”سنگ تراش“”منزل بے نشاں“ ”کسک“ ”سہیلی“ ”گلچیں“ ”مجھے یقین ہے“وغیرہ ہیں۔
معیاری افسانے کی ایک اہم نشانی یہ ہوتی ہے کہ اس میں فسوں انگیز تصوراتی صنعت گری موجود ہو‘جو کہ دورانِ قرأت قاری کی سوچ کو جکڑ کر رکھے اور وہ کہانی کے لمس سے محظوظ ہوتا رہے۔اگر افسانہ فنی ہیئت کے مطابق ایسا کرنے میں کامیاب نظر آئے تو وہ افسانہ کہلانے کا مستحق قرار پائے گا۔افسانے میں سائنٹفک ریسرچ یا تاریخی واقعہ کی اصلیت کا ہونا ضروری نہیں کہ ہم افسانے کے برعکس اس میں منطقی طور پر حقائق کی کھوج کرنے کی کوشش کریں‘بلکہ یہ پڑھنے اور سمجھنے کی چیز ہوتی ہے اور اس کے بعد تفہیم وتوضیح کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ تنقیدی نقطہ نگاہ سے پھر تفہیم وتوضیح کے دوران متن کے تخلیقی تاروپود (Creative Tissues) کے درمیان ا دبیت (Literariness) کے پیش نظر اپنی رائے یا مباحثہ آغاز کرنا ہوتا ہےاگر ان بنیاد چیزوں کو چھوڑ کر متن کو ریاضی کے مائنس پلس اصول کے مطابق موضوع بحث بنایا جائے تو پھر متن کی بنیادی ساخت اور مقصد کو صرف نظر کرکے اسے محدود اور غیر اہم نکتوں کے الجھاؤ میں پھنسانے کا کام ہی قرار پائے گا نہ کہ علمی وادبی مباحثہ کا عمل۔اگر ایسا ہی کلیہ صحیح مانا جائے پھر تو اردو یا انگریزی کے کئی شاہکار افسانے بھی اپنی افسانویت کے رچاؤ کے برعکس کچھ اور ہی نظر آئیں گے۔جیسا کہ ایک کتاب میں منٹو کے مشہور افسانے ”بو“ پر ایک جگہ یہ نکتہ ابھارا گیا تھا کہ کرداروں نے جتنا وقت ایک ساتھ گزارا‘ اس دوران کھانے پینے کا کہیں پر کچھ ذکر نہیں ہے تو کیا وہ ہوا پر زندگی گزارتے تھے۔ منطقی بنیاد پر سوال یا اعتراض اپنی جگہ بظاہر ٹھیک معلوم ہوتا ہے لیکن نفس مضمون کے برتاؤ کے پیش نظر کوئی بھی اہمیت نہیں رکھتا ہے کیونکہ اگر یہ کوئی کچن کہانی ہوتی تو پھر سوال ابھارنا یا ابھرنا صحیح قرار پاتا۔ اصل چیز افسانے یا شعر کو افسانہ یا شعر سمجھ کر پڑھنا نہ کہ کوئی سائنسی یا میڈیکل ریسرچ سمجھ کر چند چیزوں کو استفہامیہ کے دائرے میں لاناہے۔بہرحال‘اور بھی کئی باتیں ہیں۔سردست افسانہ”سنگ تراش“ کی فسوں خیز کہانی پر ہی ارتکاز کریں تویہ افسانہ اپنے عنوان”سنگ تراش“ سے لیکر کہانی کے اختتام تک فنی و فکری‘ہیئتی و لسانی اور موضوعاتی واسلوبیاتی لوازمات کے پیش نظر ایک عمدہ فسوں خیز افسانہ ہے۔عنوان”سنگ تراش“ بذات خود ایک تخلیقی تصور کو ظاہر کرتا ہے یعنی ایک فن کار اور اس کا کہانی کے موضوع پر اطلاق کریں تو یہاں پر مناسب فن کاری کا ثبوت فراہم کرکے عنوان کو موضوعاتی اور کردار نگاری کی تخلیقی بنت گری میں بخوبی برتا گیا ہے اور تخلیقی اور اسلوبیاتی بنیاد پر کہانی کو فسوں خیز بنانے کی ایک کامیاب افسانوی کوشش کی گئی ہے۔کہانی کا کینڈا تخیل اور میتھ کے ملے جلے اشتراک سے کھڑا کیا گیا ہے او رساتھ ہی نیم علامتی اسلوب کے توسطہ سے کہانی کو تھوڑا بہت داستانی رنگ میں رنگا گیا ہے۔ یعنی سنگ تراش کے فطری عشق کا کرب‘محبوبہ…جس کی جدائی اب عشق مجازی سے عشق حقیقی (یہاں پر عشق کی شاعرانہ اصطلاحوں کے برعکس ہے)… کافطری روپ اختیار کرگئی ہے۔یہاں پر سنگ تراش کا فن صرف فن نہیں رہتا ہے بلکہ وہ مقدس عبادت بن جاتا ہے اور اس کی پاکیزہ روح یعنی وہ ہوس پرست نہیں تھا کہ اگر ایک محبوبہ مر گئی تو دوسری عورتوں کے پیچھے پڑکر سفلی جذبات کا مظاہرہ کرتا رہتابلکہ وہ اپنی محبوبہ کے مرنے کے بعد بھی اسی کے عشق میں اور اس کی جدائی میں تڑپتارہتا ہے اور تصوراتی طور پر اپنی روح کو مورتی میں ڈال دیتا ہے یعنی ایک طرح سے جدائی کے کرب کو سکون میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔لیکن اس کا یہ محبوبہ کے ساتھ وجدانی قسم کا عشق ایک اور کردار مینکا کے لئے حسد کی آگ بن جاتا ہے اور وہ اسے راستے سے بھٹکانے کا حربہ استعمال کرتی ہے‘اس کو اپنی مسحور کن آواز سے متاثر کرکے اسے تصوراتی عالم سے نکال کر اپنی محبت میں رنگ لیتی ہے۔لیکن اس دوران کہانی کو فسوں خیز بنانے کے لئے میتھ کی تکنیک استعمال کی گئی ہے اور چند کردار برہما(ہندومت کے مطابق خالق کائنات)‘ وشو امتر(ایک ریشی جو کشتری ہونے کے باوجود ریاضت سے برہمن کے مرتبے تک پہنچ گیا تھا۔ ا س کی برہما سے عشق کی تپسیادیکھ کر دیوتا جل بھن گئے تھے اور اس کی مراقبانہ فکر توڑ نے کے لئے مینکا کو معمور کیا گیا تھا۔وہ نہ صرف اس میں کامیا ب ہوگئی تھی بلکہ بعد میں دونوں شادی کے بندھن میں بھی بندھ گئے تھے۔)۔ایک طرح سے میتھ میں وشوامتر کے قصہ کوردتشکیل کرکے ایک نئی کہانی کا روپ دیا گیا ہے تاہم یہاں پر کہانی اپنی تخلیقی اور فنی کینوس برقرار رکھنے میں کامیاب نظر آتی ہے نہ کہ میتھ کی نقالی بلکہ میتھ کو ایک فنی ٹول کی طرح کامیاب اسلوب میں کہانی کا حصہ بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے افسانہ اسطور اور افسانوی حقیقت نگاری (Fictional realism)کا خوبصورت فن پارہ بن گیا ہے۔ افسانے میں مرکزی کردار یعنی سنگ تراش کی ذہنی کیفیت اور سوچنے کی صلاحیت کو فکری طور پر راوی بہتر انداز سے بیانیہ کا حصہ بنا نے میں کامیاب نظر آتاہے۔راوی افسانے میں قصہ گو (Story narrater) ا کی حیثیت سے موجود ہے اور مناسب ڈھنگ سے پلاٹ سازی میں اپنا رول نبھا رہا ہے:
”سادھنا میں‘وہ یہ بھول گیا تھا کہ تپسیا جب آخری مرحلے پر پہنچنے کو ہوتی ہے تو دیوتا بھی حسد کا شکار ہو اٹھتے ہیں اور برہما سے وشوامتر کا ملن ناممکن ہوجاتا ہے۔“
اورسنگ تراش عشق کی اس سرحد پر پہنچ گیا تھا بقول شاعر:
زباں پہ لفظ‘ بدن میں لہو محبت ہے
تجھے خبر ہی نہیں ہے کہ تو محبت ہے
لیکن اس کے باوجود مینکا کے عشق کی جادو گری اپنا کام کرجاتی ہے اور اس کے حواس کو اپنے عشق کی سحرانگیزی سے متاثر کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے:
”وہ کہتی ”محبت ایک پیارا سا موسیقی کا ردھم ہے جو دل کے تاروں کو ہولے سے چھیڑ کر کہے ’مجھے تم سے محبت ہے۔‘اور پھر دوسرے کے دل کی دھڑکنیں منتشر ہو جائیں اور مسکراہٹیں لبیک کہہ دیں وہی محبت ہے بت ساز“
اس کی آواز کی جھنکار سچ میں اس کی دھڑکنوں میں ارتعاش پیدا کرنے لگتی۔“
مینکا کے اسی عشق کا ارتعاش سنگ تراش کی وجدانی کیفیت پر اثر انداز ہوکر اسے عشق حقیقی کے تصور سے نکال کر عشق مجازی کی رنگین دنیا میں پہنچا دیتا ہے۔مجموعی طور پر افسانہ فنی صنعت گری‘تخلیقی موضوعیت‘ اسلوبیاتی جدت اور افسانویت کی فسوں خیزی کے خصائص کے پیش نظر ایک بہترین فن پارہ ہے‘ جس کے متن اور کہانی کو کھولنے اور بحث کرنے کے لئے فن ایک تکنیک(Art as technique) کا تصور ذہن میں رکھنا پڑتا ہے تو ہی اس قسم کے فن پارے سے لطف اندوز میں لطف آتا ہے۔ افسانے پر اور بھی باتیں لکھنے کی ضرورت ہے‘تاہم فی الحال اتنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ان خوبیوں کے باوجود ساختیاتی طور پرافسانے کے درمیاں میں خیالات کی طوالت اور کہیں کہیں پر جملوں کی ساخت کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔
افسانہ”کسک“ کی کہانی پڑھ کر راقم چند لمحات تک لکھنو کے تاریخی مقام''امام باڑہ ''کی بھول بھلیوں میں جیسے کھو ساگیا۔کیونکہ ایک دفعہ راقم کو ایک انٹرنیشنل سمینار کی وجہ سے چند روز لکھنو میں ٹھہرنے کا موقع نصیب ہوا اور وہاں کی شاہکار کاری گری کا نمونہ ''بھو ل بھلیاں '' دیکھنے سے محظوظ ہوا۔ امام باڑ ہ مسلم تہذیب و ثقافت کی داستانِ پارینہ کی یاد دلاتا ہے اور اس کے سحر انگیز مناظر انسان کے ذہن پر ایک قسم کی فینٹیسی طاری کردیتے ہیں۔فینٹیسی کا یہی سحر پیش نظر افسانے کی مرکزی کردار”ثنا“ کے حواس پر چھایا ہوا محسوس ہوتا ہے اور افسانہ گومتی ندی جوکہ لکھنو کی مشہور ندی ہے‘سے شروع ہوکر لکھنو کی تہذیبی شان وشوکت اور مذہبی و ثقافتی ماحول بصورت امام باڑہ کی خوبصورت منظر کشی کرتا ہے۔افسانے کے بنیادی کردار ”ثنا“ اور اس کا شوہر”عامر“ ہے۔اس کے بعد فینٹیسی کی صورت میں دادی کاکردار نمودار ہوتا ہے جو ثنا کے نفسیاتی کرب اور روحانی بے چینی کا مداوا ثابت ہوجاتا ہے۔افسانے میں دو تہذیبوں یعنی ہندو اور مسلم تہذیب کا بھی تھوڑا بہت عکس ظاہر ہورہا ہے۔مجموعی طور پر افسانے کو فسوں خیز بنانے میں فینٹیسی کے اثر نے اہم رول ادا کیا ہے جوکہ افسانے کی ترسیل اور تفہیم میں لطف پیدا کردیتا ہے اور کردار کی کسک کا پورا قصہ سناتا ہے۔ افسانے کے کئی تخلیقی جملے دل کو چھو جاتے ہیں:
”ارے بٹیا تم پھرسو نے لگیں کیا میرے دیس میں آکر بھی کہانی نہ سنو گی؟“ آواز سنتے ہی اس کی چیخ نکل گئی”دادی“
مجموعی طور پر افسانہ ”کسک“ فینٹیسی اور تخلیقی بیانیہ کی عمدہ عکاسی کرتا ہے اور تانیثی نوعیت کے درد وکرب کو تخیل آمیز کشش سے سحر انگیز تاریخی تاثر چھوڑجاتا ہے۔
ڈاکٹر عشرت ناہید کے بیشتر افسانے تانیثی فکشن کے زمرے میں آتے ہیں۔تانیثی ادب‘ جس میں نسائی موضوعات ومسائل کو زیر تحریر یا زیربحث لایا جاتا ہے‘چاہئے وہ مضامین کی صورت میں ہوں یا تخلیقی پیرائیے میں۔ اس میں عورت کے سماجی‘ عائلی‘ اقتصادی اور جنسی مسائل و موضوعات کا فکری و تخلیقی اظہار ہوتا ہے۔عشرت ناہید کے افسانوں میں ”کسک“ کے علاوہ”منزل بے نشان“”سہیلی“”آج کی حوا“”چاند گرہن“وغیرہ میں تانیثی مسائل پر قابل غور کہانیاں پیش ہوئی ہیں۔عام مشاہدہ ہے کہ نفسیاتی اور فکری طور پر ایک عورت ہی عورت ذات کے مسائل کو صحیح ڈھنگ سے تخلیق کا حصہ بنا سکتی ہے کیونکہ اس میں احساسات وتجربات ا و رجذبات کی فطری عکاسی ہوتی ہے۔افسانہ ”منزل بے نشاں“ ایک وفاشعار بیوی اور بے وفا شوہر کی کہانی سنا تا ہے۔ افسانے کی ابتدا خوبصورت تخلیقی منظر نگاری سے ہوئی ہے اور اس کے بعد بنیادی موضوع کو دلچسپ انداز سے کہانی کا روپ دیا گیا ہے۔ افسانے کا یہ حصہ پوری کہانی کا تھیم محسوس ہوتا ہے جو کہ آدھامنظوم پیرائیہ میں پیش ہوا ہے:
”اور یہ زمین کا مجازی خدا
سفاکیت کا علمبردار
محبت سے عاری
بے رحمی کی علامت
جس کے سامنے ہر التجا بے کار
ہر مسئلہ بے معنی
آج پھر اسے چھوڑ کر اپنے آبائی شہر چلا گیا تھا‘ اپنی خوبصورت رنگین دنیا آباد کرنے…. ہاں رنگین ہی تو ہے اس کی دنیا جسے اس نے سب سے چھپا کر سجا رکھاہے۔“
اب افسانہ ”سہیلی“ کی نیم علامتی کہانی کی بات کریں تو اس میں ایک ایسی عورت کے درد وکرب کو موضوع بنایا گیا ہے جوکہ طبی طور پر بانجھ نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کے شوہر میں ہی طبی نقص ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود عورت کو ہی بانجھ پن کے طعنے سہنے پڑتے ہیں۔کہانی میں بڑی ہنری مندی سے سوکھی ندی اور عورت کے کرب کو علامت کا روپ دیا گیا ہے کہ ندی بھی بارش نہ ہونی کی وجہ سے سوکھ چکی ہے اور عورت بھی شوہر کے طبی نقص کے باوجود بانجھ پن کی سولی پرچڑھائی گئی ہے۔
تانیثی موضوعات کے علاوہ عشرت ناہید کے چند افسانے دیگر سماجی موضوعات کی اچھی فنی عکاسی کرتے ہیں جن میں خصوصی طور پر ”مجھے یقین ہے“ فکرانگیز افسانہ ہے۔فکرانگیز اس لئے کہ یہ صرف افسانہ ہی نہیں بلکہ کشمیر کے لوگوں کی وہ دردانگیز کہانی ہے جو کئی دہائیوں کی دکھ بھری روداد سناتی ہے اور جس کا اصلی حلیہ جھوٹا میڈیا مصنوعی اداکاری کرکے اسکرین پر بگاڑتا رہتا ہے۔افسانے کی مرکزی کردار”ردا“ہے۔ جو فیس بک پر ایک کشمیری کی ادبی دوست ہوتی ہیں۔یہ لوگ زیادہ تر ادبی موضوعات پر ہی گفتگو کرتے رہتے ہیں لیکن اچانک کشمیر پر زمینی کریک ڈاون کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ کریک ڈاون بھی کردیا جاتا ہے اور انڈیا کی طرف سے پورے کشمیر کو فوجی چھانی میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ پھر کشمیر کے اندر کیا ہوا‘باہر کی دنیا کو کچھ بھی پتہ نہیں چلا۔ردا کشمیری دوست کی وال کو ہمیشہ دیکھتی رہتی لیکن وہاں پر بھی کرفیو جیسا سناٹا ہوتا۔پھر آہستہ آہستہ اسے دوست کے سنائے گئے روح فرسا واقعات یاد آنے لگے کہ کس طرح کشمیری لوگ موت کے سائے میں زندگی گزارتے رہتے ہیں۔ان پر سرکاری وردی پوش کس کس قسم کے مظالم دھاتے رہتے ہیں:
”وہ بڑی حسرت سے کہتا ”یہ جو زندگی تم لوگ جیتے ہونا ہمارے یہاں اس کا تصور نہیں ہے،پیڑھیاں گزر چکی ہیں ہم سکون کی زندگی نہیں جی پائے ہیں۔ ہر دوسرے دن،دوسرے دن کیا ہر دن ہی ایسی دلدوز خبریں ہمارے آس پاس ہوتی ہیں کہ جن کی وجہ سے خوشی کے معنی ہی بدل گئے ہیں۔ جانتی ہو ردا اب یہاں کسی موت پر ماتم نہیں ہوتا، کسی گھر سے نوحے اور بین کی آواز بلند نہیں ہوتی، کسی جوان لاش کو اٹھا کر لانا،غسل دینا اور دفنانا ہمارے روزمرہ کے کاموں میں شامل ہوگیا ہے۔"
یہ اقتباس اور افسانے کا باقی حصہ دردکشمیر کو اس انداز سے پیش کرتا ہے کہ قاری مبہوت ہوکر رہ جاتا ہے کہ کشمیر جسے جنت نظیر کہا جاتا ہے وہاں کے لوگوں کے لئے یہ تو جہنم زار بن چکا ہے۔
چند فنی اور لسانی سقم کو چھوڑ کر…..ڈاکٹر عشرت ناہید کے افسانوی مجموعہ”منزل بے نشاں“ میں شامل افسانے فنی برتاؤ اور فکری وموضوعاتی پیش کش کا اچھا تاثر چھوڑ جاتے ہیں۔خصوصی طور پر تانیثی نقطہ نگاہ سے دیکھیں تو جو افسانے تانیثی مسائل وموضوعات پر تخلیق ہوئے ہیں وہ موضوع‘پلاٹ اورکردارنگاری میں کامیاب افسانے دکھائی دیتے ہیں۔