ایک کتاب جو میں نے کچھ سال پہلے خریدی تھی اس کو کتابوں کے زخیرے خانے کے انبار میں رکھ کر بھول گیا تھا۔ کچھ دن قبل یہ کتاب ہاتھ لگی تو اسے قرات کی۔ بہت لطف آیا۔ میں نے ویسے تو ماضی میں ابیبسریٹی یا لایعنیت پر کئی مضامین لکھے ہیں۔ مگر پھر بھی اس پرانی کتاب کا مطالعہ کرکے اچھا لگا۔ اس کتاب کا نام "لایعنیت کی قرات "{Reading the Absurd} ہے اور اس کو جوانا گیونس {Joanna Gavins} نے لکھا ہے۔ زیر نظر کتاب 2013 میں ایڈن برگ پریس نے شائع کیا ہے۔ کتاب 224 صفحات پر محیط ہے۔
فکری سطح، فنکارانہ اور ادبی سطح پر یہ سوال ہمیشہ اہم رہا ہے کہ "لایعنیت" کیا ہے؟ اور اس کی ماہیت اور فکری قدر کیا ہے؟اور اس کی کی کلیدی متنی یا نصوص کی خصوصیات کیا ہیں؟ اس کا تجزیہ کیسے کیا جاسکتا ہے؟ اس نظام فکر کا جواب بیہودہ اور تذلیل بھرے اور خشک انداز میں کیون دیا جاتا ہے۔ جس سے قاری لایعنیت کے فکری وظیفے سے کیوں متنفر ہوگیا ہے؟
اسلوبیات کے نظریات اور طریق کار کو اس کے بنیادی تجزیاتی فریم ورک کے طور پر زبان میں لایعنیت کا جائیزہ لیتے ہوئے اس کا مطالعہ اور مقابلہ کرتا ہے۔ انگریزی ادب میں منتخب کلیدی کاموں اور اس کی لفظیات کی گہرائی سے جانچ پڑتال کی گئی ہے تاکہ وہ بہیودہ انداز کے اہم پہلوؤں کو سامنے لاسکیں۔ اس کے تجزیاتی انداز میں اسلوبیاتی تشخیص کو زبان، ادب اور پڑھنے سے متعلق علمی تناظر کے ساتھ ملایا گیا ہے جو ادب کی قرات کر کے انسانی تجربے پر نئی روشنی ڈالتا ہے۔
ادبی لایعنیت کو لسانی اور تجرباتی مظاہر کی حیثیت سے دریافت کرتے ہوئے، جبکہ اسی کے ساتھ ساتھ اس کے ضروری تاریخی اور ثقافتی صورتحال پر بھی غور کرتے ہوئے، جوانا گیونس نے لایعنی جمالیاتی نظام کے لئے ایک نیا تناظر پیش کیا۔ جو اپنے طور پر اچھوتا ہے اور دلچسپ بھی ہے۔
لایعنی ادب روایتی دانش کو چیلنج کرتا ہے اور قارئین کو استحقاق دیتا ہے اور اس صنف کی طرز کے کارنامے ادبی متن کی وسیع صفات اور بہت ساری دانش وفکرنے لایعنی ز افسانے کے فلسفیانہ اور موضوعاتی خدشات پر توجہ مرکوز کی ہے، لیکن ادبی تنقید اسلوبی، عمومی اور دنیاوی پر اتفاق کرنے میں ناکام رہی ہے۔ یہ حجم ایک متبادل نقطہ نظر اختیار کرتا ہے: اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اس کتاب کی خصوصیات کا ایک ہم آہنگ، لسانی اعتبار سے سخت آزمائش فراہم کرنا ہے جو ادب میں لایعنیت کو نمایاں کرتی ہے۔ اس کتاب کے مطالعے کے دوران مجھے یہ احساس ہوا کہ انسانی وجود لایعنی ہے اور لایعنیت کی اصطلاح منطق کے اصولوں کے منافی ہے۔ اور اس کے اکتساب کا پھیلاو محدود ہے۔ اور فن کے علاوہ الہیاتی یا ایقانی فکر سے یکسر مختلف ہے۔ جہان روایت کی کھوکھلی اقدار میں فرد کے روحانی اور جذباتی رشتوں کو تلاش کیا جاتا ہے۔ جس میں تناقص کی خاموش جمالیات ہوتی ہے جس زیرک قاری ہی محسوس کرسکتا ہے۔ اور لایعنیت میں زندگی کے تضادات کی تفھیم کے لیے فرد کا تجربہ ضروری ہے جو انسان اپنی آنکھ سے دیکھ رہا ہے۔ مگر لایعنیت اپنی کسی حتمی تعریف سے محروم ہے۔