کتاب کا مصنف ہونا ایک خوش قسمتی ہے وہیں یہ ایک المیہ بھی ہے۔
اپنی پہلی اور اب دوسری کتاب کی اشاعت کے بعد میں ان باکس کے زریعہ تواتر کے ساتھ تحفتاً کتاب وصولنے والوں کی شدید اور پُراصرار فرمائشوں بلکہ "ضدی فرمائشوں" کی زد میں آ گیا ہوں۔
آج ایک صاحب نے پہلے بطور ورکنگ جرنلسٹ، اخباری نمائندے اور ایک عدد جریدے کے ایڈیٹر کے طور پر اپنا تعارف کروایا اور پھر جریدے میں اپنی کوئی تحریر یا خبر شامل کروانے کی "فرخدلدانہ" پیشکش کی اور ساتھ ہی مشہور شخصیات کے ہمراہ اپنی تصاویر دھڑا دھڑ ان باکس کرنا شروع کر دی۔
جس پر میں عرض کیا کہ اگر چاہیں تو میری نو مطبوعہ کتاب کی خبر شائع کر دیجئے۔ انہوں نے خبر اور میری تصویر مانگی۔ میں نے پہلے سے ہی تیار شدہ پریس ریلیز جو کہ میں متعدد اخبارات کو روانہ کر چکا ہوں مع کتاب کے عکس کے روانہ کردی۔
تھوڑی ہی دیر بعد مجھے انہوں نے اپنی کتاب تحفتاً روانہ کرنے کی فرمائش یہ کہتے ہوئے ارسال کی کہ آپ نے میرے فلاں دوست کو بھی تو کتاب بطور تحفہ روانہ کی ہے۔
میں نے عرض کی کہ جناب میں نے اُنہیں کوئی کتاب نہیں روانہ کی۔
کچھ دیر بعد انہوں نے بے حد اصرار کے ساتھ کہا کہ نہیں آپ نے کی ہے اور میں نے پوسٹ بھی دیکھی ہے۔
یہ پڑھ میری ناگواری کا احساس دوچند ہو گیا اور میں نے انہیں کہا کہ ایک چھوٹی سی کتاب کی خاطر اتنی باتیں۔ وہ تو آپ کے دوست ہیں ناں آپ اُنہیی سے پوچھ لیں اور براہ مہربانی مجھے معاف فرمائیں۔
کچھ دیر بعد اُن کا ایک اور اسی نوعیت کو جواب موصول ہو گیا کہ میری لائبریری میں اُردو کے بڑَے بڑے مصنفین کی کتب موجود ہیں جو مجھے تحفتاً دی گئی ہیں۔
جس پر میں نے کہا کہ اگر مجھے اس کے بعد آپ کی طرف سے کوئی ایسی بات موصول ہوئی تو میں فیس بک پر پوسٹ لگا دوں گا۔
فوری طور پر جواب موصول ہوا کہ میں تو آپ کو آزما رہا تھا۔ آپ کا تو دل بہت چھوٹا ہے۔
اور پھر ان باکس کو بلاک کر دیا۔
واہ صاحب،
کیا لوگوں نے خدا کا منصب سنبھال لیا ہے اور لوگوں کے دل کی کشادگی اُن کی کتابوں کے مفت حصول سے ناپنا شروع کر دی ہے۔
اول تو یہ میری مرضی اور صوابدید پر ہے کہ میں جسے چاہے اپنی طرف سے کتاب تحفتاً ارسال کروں یا نہیں۔ دوسرے وہ جن صاحب کو حوالہ دے رہے تھے میں یا میری جانب سے اُنہیں کسی نے کوئی کتاب روانہ نہیں کی تھی۔ مگر وہ صاحب مصر تھے کہ چونکہ آپ نے انہیں کتاب تحفتاً دی ہے تو مجھے بھی دیں
فی الحال تو میں نے اُن کا اسمِ گرامی ظاہر نہیں کیا۔ امید ہے کہ مجھے اس پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔
یہ تو صرف ایک ہی واقعہ ہے۔ میری پچھلی کتاب کے حوالے سے کئی افسوسناک واقعات ہیں جن کا میں نے کبھی تذکرہ تک نہیں کیا۔ مگر جی چاہتا ہے کہ کسی مضمون کی صُورت اُن تمام تر واقعات کو منظرِ عام پر لایا جائے۔
خدارا، کپڑوں، جوتوں سنیما بینی، پان و سگریٹ اور ہوٹلنگ میں ہزاروں روپے بے دریغ و مسکراتے ہوئے خرچ کرنے کے ساتھ ساتھ کتابوں پر بھی دو چار سو خرچ کرنے کا جگر پیدا کیجیئے اور خرید کر کتاب پڑھنے کے کلچر کو فروغ دیں۔
بخدا اس واقعے نے رنجیدہ کر دیا ہے 🙁
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔