مصنف۔ گستاو لیبان
مترجم۔ عبدالسلام ندوی
مآخذ از۔ اظہر ملک
ماہرین طبیعات کے نزدیک نسل انسانی میں تفریق و تضاد رنگ، نسل، جسمانی ساخت اور کلچر کی وجہ سے ہے، مثلا سفید رنگت والےانگریز، زدر رنگ والے چینی، کالے رنگ والے افریقی وغیرہ،لیکن ڈاکٹر لیبان جسمانی حیثیت سے فرق کو کافی اور موثر نہیں سمجھتا، لیبان کے مطابق ہر قوم دوسری قوم سے اپنی عقلی اور اخلاقی وصف سے متفرق حیثیت رکھتی ہے اور عقلی و اخلاقی خوبی کی بنیاد پے ہی ہر قوم کا ضابطہ حیات، فنون لطیفہ دوسری قوموں سے جدا ہے، اور یہی اخلاقی مزاج قوموں میں اتحاد و یگانگت کا باعث ہے۔ مثلا آپ ایک ہزار انگریز، ایک ہزار فرانسیسی، ایک ہزار افریقی اور ایک ہزار چینی باشندوں کے گروہوں کو ایک جگہ اکٹھا کریں تو جسمانی اوصاف کے ساتھ ساتھ ان کے اخلاقی اوصاف، رہن سہن، اخلاقیات، خیالات و جذبات بھی واضح طور پر مختلف و متضاد ہونگے۔ ڈاکٹر لیبان کے مطابق ایک شخص کے اخلاقی اوصاف کی بناوٹ میں تین عناصر کا اہم کردار ہوتا ہے۔
1۔آباو اجداد یعنی گزشتہ سلسلہ خاندان کا اثر (یہ سب سے زیادہ متاثر کرتا ہے)
2۔ماں باپ کا اثر
3۔ ملک، جغرافیانہ حدود، آب و ہوا اور گرد و پیش کی چیزوں کا اثر
انسان کا اخلاقی نظام تشکیل دینے میں آباو اجداد کا اثر بدرجہ اتم ہوتا ہے کیونکہ ایک فرد نہایت محدود زندگی رکھتا ہے لیکن اس کی کلی زندگی جو اس مجموعہ قوم کی زندگی سے عبارت ہے نہایت طویل اور غیر فانی ہے، اس بنا پر قوم کو ایک ابدی ذات سمجھنا چاہیئے جو زمانے کی قیود و حدود سے آزاد ہے اس لیئے قوم کے حقیقی مفہوم کو سمجھنے کیلیئے ماضی کے لوگوں یعنی جو زندگی گزار کر جا چکے ان کا اثر زیادہ قوی ہوتا ہے۔یوں کہنا بے جا نہ ہو گا کہ زمانہ کی حرکت کا مبداء مردوں کی ہڈیاں ہوتی ہیں، کیونکہ قوم صرف مادیات میں اپنے اسلاف کی پیروی نہیں کرتی بلکہ وہ ان کے جذبات و احساسات سے بھی متاثر ہوتی ہے۔ بسا اوقات قومی اخلاقیات میں وقتی طور پر تبدیلی رونما ہوتی ہے، اگرچہ بنیادی اخلاقی اقدار غیر تغیر پذیر ہوتی ہیں یا ان کے بدلنے میں صدیاں درکار ہوتی ہیں، جب کسی قوم میں انقلاب کی روح بیدار ہوتی ہے تو وہ ایسی وقتی ہیجانی کیفیت ہی ہوتی ہے جیسے کسی جھیل کی اوپری سطح پانی پر طوفان کا اثر ہوتا ہے جبکہ نچلی سطح والے پانی میں کوئی تغیر و تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ زمانہ انقلاب میں شاید وہ قوم ایسے عوامل پیش کرے جو وہم و گماں بھی نہ ہوں لیکن جیسے ہی انقلابی ہیجان کا اثر زائل ہوتا ہے تو وہی قوم اپنی پرانی اساس پے واپس آجاتی ہے۔ ڈاکٹر لیبان کے مطابق اخلاقی اوصاف کے لحاظ سے قوموں کو چار قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے،
1۔ابتدائی قومیں۔ جو تعلیم و تربیت سے بلکل بے بہرہ ہوں اور انکی زندگی جانوروں سے مشابہہ ہو، انسانی زندگی کا یہ دور ہمارے آباو اجداد پر گزر چکا ہے،
2۔ غیر متمدن قومیں۔ ان کی اخلاقی حد بھی ابتدائی قوموں سے ملی جلی ہوتی جن میں تمدن و تہذیب کی جھلک ضرور نظر آتی لیکن صرف جھلک کی حد تک ہی، انھوں نے وحشیانہ تمدن سے باہر کبھی قدم نہیں رکھا مثلا حبشی لوگ وغیرہ
3۔ اقوام متوسطہ۔ مثلا چینی، جاپانی، ترک، عرب اور یہودی وغیرہ ان قوموں نے اتنی تمدنی ترقی کی کہ متمدن قوموں کے سوا کوئی ان سے آگے نہ بڑھ سکا،
4۔ متمدن اقوام۔ ڈاکٹر لیبان متمدن اقوام میں صرف امریکہ و یورپین اقوام کو شمار کرتا ہے، صرف یہی قومیں ہیں جنہوں نے اختراع و ایجاد، صنعت و حرفت اور علوم و فنون میں کمال حاصل کیا ہے، زمانہ قدیم میں یونان اور روما بھی متمدن اقوام تھیں,
اگر کوئی شخص اخلاق کا مفہوم صرف دوسروں سے برتاو کے رویے کو ہی خیال کرتا ہے تو اس کا نقطہ نظر انتہائی محدود ہے، ڈاکٹر لیبان جب اخلاق کی بات کرتا ہے تو اس کا مقصد ایک قوم کا مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں دین و دنیا کے رسم و رواج، رہن سہن، علم و حرفت، وغیرہ شامل ہے،درحقیقت کسی بھی قوم کا اخلاقی معیار پرکھنے کیلیئے صحیح طریقہ یہ کہ اس قوم کو اپنے جذبات و خیالات پر قابو رکھنے کی کس قدر قدرت حاصل ہے، ابتدائی و غیر متمدن قوموں میں غور و خوض اور عقل کا مادہ کم ہوتا ہے، عقلی درماندگی کی وجہ سے جلد ہی ہر بات کی تصدیق کر لیتی ہیں ان میں تحقیق و تنقید اور دور رس نتائج کا اندازہ نہیں ہوتا اور ان کے اخلاقیات متغیر و متزلزل رہتے ہیں، جبکہ متوسط اقوام میں علم و تحقیق کا عنصر موجود ہوتا ہے لیکن ہمیشہ اپنے نفس کی پسند و ناپسند پے نتائج اخذ کرتے ہیں اور کبھی بھی اپنے ذاتی عقائد و اعتقادات سے مبراء ہو کر نتائج اخذ نہیں کر سکتے۔ اور متمدن اقوام کے اوصاف میں سے سب سے اہم یہ ہے کہ وہ ہمیشہ حقائق کو قبول کرتے ہیں چاہے یہ حقائق انکی ذات و عقائد کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں، اور کوئی بھی نتیجہ اخذ کرتے وقت تحقیق و تنقید سے خوب کام لیتے ہیں، اپنے نفس اور ذات کو نتائج پے اثر انداز نہیں ہونے دیتے، گزشتہ زمانے میں رومن اور موجودہ زمانے میں انگریزوں اور امریکن لوگوں کو جزبات پے قابو رکھنے میں فطری ملکہ حاصل ہے اور اسی وجہ سے عظیم الشان تمدنی درجہ پے فائز ہیں۔ ڈاکٹر لیبان اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھاتے ہیں کہ تعلیم کبھی بھی کسی قوم کے اخلاقی وصف کو تبدیل نہیں کر سکتی، تعلیم صرف عقلی ترقی کا باعث بن سکتی ہے جو ہمیشہ تغیر پذیر رہتی ہے، لیبان یہ بھی کہتا ہے کہ اگر کوئی غیر متمدن قوم کا باشندہ متمدن قوم میں آکر آباد ہو جائے تو بھی وہ کبھی متمدن قوم کا فرد نہیں بن سکتا، اگر کوئی افریقی، چینی یا عرب انگلینڈ و امریکہ میں جا کے ان کے تمام علوم حاصل کر بھی لے تو بھی وہ کبھی انگریز یا امریکن اخلاقی وصف نہیں حاصل کر سکتا کیونکہ وہ اپنے قومی اخلاقی وصف سے جان نہیں چھڑا سکتا، اور اگر متمدن و غیر متمدن قوموں کے اختلاط سے افزائش نسل کی جائے تو پیدا ہونے والی نسل بمثل آدھا تیتر آدھا بٹیر کی مانند ہو گی، وہ نسل اپنے والدین کی قوموں کے اخلاقی اوصاف کے انخطاط کا باعث ہو گی اور جغرافیائی عناصر کے زیر اثر طویل وقت کے بعد اپنے نئے قومی اخلاقی اوصاف پیدا کر لے گی۔ کسی بھی گزشتہ قوم کے عقلی و اخلاقی اوصاف کا منہ بولتا ثبوت اس قوم کا فنون لطیفہ ہوتا ہے، مثلا مصریوں کو فن تعمیر اور بت تراشی میں ملکہ حاصل تھی، یونانیوں کو فلسفہ و ادب میں رومن کو نظام فوج اور نظام جمہوری حکومت میں ید طولا حاصل تھا۔کسی بھی متمدن قوم کے نابود ہونے میں جنگ و جدل کا حصہ بہت ہی کم ہے، قوم اس وقت انحطاط کا شکار ہوتی ہے جب دوسری غیر متمدن قومیں اس متمدن قوم کے ساتھ افزائش نسل کے روابط بڑھاتی ہیں،اور یوں انتہائی آہستہ مگر یقینی طور پر وہ متمدن قوم روبہ زوال ہو جاتی ہے۔ ماضی کی متمدن سلطنت روم کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا، غیر متمدن قوموں کے ساتھ افزائش نسل کی وجہ سے ایک ایسی نئی قوم پیدا ہو گئی جس نے اصل رومی قوم کی شناخت تک کو نابودکر دیا۔ صرف وہی متمدن قوم تا دیر محفوظ رہ سکتی ہے جو اصل قومی نسل کو محفوظ رکھے اور غیر متمدن قوموں کے ساتھ سلسلہ ازدواج کی سختی سے بیخ کنی کرے۔ کسی بھی قوم کے اخلاقی اوصاف اتنے گہرے ہوتے ہیں کہ انکا تبدیل ہونا تقریبا ناممکن ہوتا ہے۔ ماضی قریب کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ متمدن انگریز قوم برصغیر پر ایک صدی سے زیادہ حکمران رہی، لیکن برصغیر کے قومی اخلاقی اوصاف کو زرہ برابر بھی تبدیل نہ کر سکی، یہ انگریز قوم کے اخلاقی اوصاف ہی ہیں کہ ان سے آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی برصغیر کے لوگوں کے لیئے آج بھی انگریز قوم ہی باعث تقلید ہے۔ لیکن اسکے برعکس یہ بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ صرف وضع قطع میں کسی متمدن قوم کی نقل کر لینے سے اس قوم جیسے اخلاقی اوصاف نہیں پیدا ہو سکتے، مثال کے طور پر لاکھوں کروڑوں تارکین وطن ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں صدیوں سے رہ رہے ہیں لیکن وہ آج بھی اصل امریکی قوم کے اوصاف اپنے اندر نہیں پیدا کر سکے کیونکہ وہ لوگ آج تک اپنی اصل اقوام یعنی اپنے آباو اجداد کے اخلاقی اوصاف سے جان نہیں چھڑا سکے۔ کوئی بھی قوم اس وقت صفحہ ہستی سے مٹتی ہے جب وہ اپنے اخلاقی اوصاف کھو بیٹھتی ہے۔
تمھارے نام آخری خط
آج سے تقریباً پندرہ سال قبل یعنی جون 2008میں شمس الرحمٰن فاروقی صاحب نے ’اثبات‘ کااجرا کرتے ہوئے اپنے خطبے...