کتاب ہمیشہ سے جہاں علم و ہنر کے حصول کا بہترین ذریعہ رہی ہے وہاں کتاب نے انسانی تہذیب و تمدن کے ارتقا اور شعور کوبیدار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں سوشل میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی نے بہت ساری چیزوں کی اہمیت کو ختم کر کے رکھ دیا ہے اور موجودہ دور کی تیز رفتار ترقی کے مطابق دنیا جہان کی ہر طرح کی معلومات اور علم کو انگلی کےصرف ایک ٹچ پر مہیا کر دیا ہے لیکن اس تمام تر جدت اور ترقی کے باوجود کتاب کی اہمیت کم نہیں ہو سکی۔ کتاب آج بھی علم دوست افراد کی بہترین ساتھی اور علم کے حصول کا سب سے مستند ذریعہ ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ سوشل میڈیا اور سمارٹ فونز کی نت نئی دلچسپیوں کے باعث بہت سے لوگوں کے پاس اب کتاب پڑھنے کے لئے وقت نہیں رہا۔
کتاب اور علم دوستی کے واقعات سے تو تاریخ بھری پڑی ہے اور ہر دور میں علم کے متلاشی افراد کتابیں لکھتے بھی رہے اور پڑھتےبھی رہے۔ کئی علم دوست حکمران بھی گزرے جن کے ادوار میں ان کی قوموں نے ہر طرح کے علوم و فنون میں ترقی کی نئی منازل طے کیں اور اپنی تعلیم اور ہنر کے ذریعے نوح انسانی کے لئے بے شمار آسانیاں پیدا کیں۔ موجودہ دور کی تیز رفتار ترقی بھی ایسے ہی کتاب دوست اور علم دوست افراد کی مرہون منت ہے۔ ایک طرف جہاں تاریخ انسانی ایسے علم دوست افراد سے بھری پڑی ہے جنہوں نے کتابوں میں موجود علم کے خزانوں کو پھیلانے اور محفوظ کرنے کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتیں وقف کئے رکھیں وہیں ایسے حملہ آوروں کا ذکر بھی ملتا ہے جنہوں نے کسی ملک کو فتح کرنے بعد نہ صرف وہاں لوٹ مار اور ظلم و تشدد کے بازارسرگرم کئے رکھے بلکہ مفتوح قوم کی نسلوں کو جہالت کی اندھیروں میں گم کرنے کے لئے ان کے علم کے خزانوں یعنی کتب سےبھری لائبریریوں کو جلا کر راکھ دیا۔ بغداد شہر کسی زمانے میں علم و ادب کا گہوارہ سمجھا جاتا تھا، اس زمانے میں بغداد شہر کتب خانوں، پبلشرز اور کتابوں سے بھرا پڑا تھا۔ اس وقت کے مشہور مسلمان سائنسدان ان کتب خانوں سے وابستہ رہے۔ ان کتب خانوں کے علاوہ بغداد کے ہر گھر میں ایک لائبریری موجود تھی۔ کہا جاتا ہے کہ جب منگولوں نے بغداد پر قبضہ کیا تو ان سب کتب خانوں کو بھی تاراج کر دیا اور تمام کتابیں اٹھا کر دریائے دجلہ میں پھینک دیں۔ دریا میں پھینکی جانے والی ان کتابوں کی روشنائی سےتین دن تک دریا کا پانی سیاہ رنگ میں بہتا رہا۔ اس طرح کتابوں میں موجود علم کا ایک خزانہ تھا جو ضائع کردیا گیا۔
لاہور میں مال روڈ پر کتابوں کی ایک بہت بڑی دوکان فیروز سنز کے نام سے ہوا کرتی تھی جہاں سے ہر طرح کی کتاب مل جایا کرتی تھی جبکہ بہت ساری ایسی کتب بھی وہاں موجود تھیں جو آوٹ آف سٹاک ہو کر مارکیٹ سے غائب ہو چکی تھیں۔ کچھ سال پہلے شارٹ سرکٹ سے لگنے والی آگ نے نہایت نادر اور قیمتی کتب کے اس خزانے کو جلا کر راکھ کر دیا۔ فیروز سنز کے جلنے کا اسکے مالکوں کو شائد اتنا دکھ نہ ہوا ہو جتنا لاہور کے علمی، ادبی اور کتاب دوست حلقوں کو ہوا۔ لاہور میں انارکلی بازار کے شروع میں زمین پر کپڑا بچھا کر اور اس کے اوپر پرانی کتابیں رکھ کر بیچنے والوں کے پاس سے بھی بعض اوقات بڑی نادر کتب مل جایا کرتی تھیں۔ سننے میں آیا ہے کہ اب لاہور میں کبھی کبھار کسی جگہ پر کتاب میلے بھی لگتے ہیں اور وہاں سے بھی اچھی کتابیں مل جایا کرتی ہیں۔
گوروں میں کتابیں پڑھنے کا رحجان بہت زیادہ ہے۔ وہ کتاب خریدتے ہیں اور اسے پڑھنے کے بعد اکثر کسی لائبریری یا دوست کو عطیہ کر دیتے ہیں تاکہ دوسرے بھی اس کتاب سے مستفید ہو سکیں۔ میرے آفس میں بھی ایک کارنر اسی مقصد کے لئے مختص ہے جہاں لوگ پرانی کتابیں لا کر رکھ دیتے ہیں اور جس کو جو کتاب پسند آئے وہ لے جاتا ہے۔ اسی طرح کئی سڑکوں کے کونوں پر بھی میں نے ڈبہ نما لائبریریاں دیکھی ہیں جہاں لوگ اپنی زائد کتب لا کر رکھ دیتے ہیں اور جس کا جی چاہے وہ اپنی پسند کی کتاب لے کرجا سکتا ہے۔ میرے پاس بھی ایسی کچھ کتابیں موجود ہیں جو مجھے اسی طرح کی پبلک سروس لائبریریوں سے ملی ہیں۔
پاکستان میں بھی ایسے کئی کتاب دوست لوگ موجود ہیں جو نہ صرف خود کتاب پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں بلکہ علم کی روشنی کو دوسروں تک پھیلانے میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں میں کراچی سے ہمارے دوست سنجے راجہ بھی شامل ہیں جو پیشے کے اعتبارسے تو انجنئیر ہیں لیکن اپنے پروفیشن کے ساتھ ساتھ علم کے بے بہا خزانوں کو کتب کی صورت میں کتاب دوست اور علم کےمتلاشی افراد تک بغیر کسی معاوضے کے پہنچانے کے لئے اپنے تمام وسائل بروئے کار لا رہے ہیں۔ پچھلے سال جب کرونا کا آغاز ہوااور لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگ گھروں میں مقید ہو گئے تو سنجے راجہ نے لوگوں کے گھروں تک کتابیں پہنچانا شروع کردیں۔ سنجےراجہ اب تک پانچ سو سے زائد کتب مختلف لائبریریوں اور افراد کو مہیا کر چکے ہیں۔ شہید باز محمد کاکڑ لائبریری کوئٹہ کو دو سو کتب دے چکے ہیں جبکہ تین سو سے زائد کتب پورے ملک کے مختلف شہروں میں موجود افراد کو ارسال کر چکے ہیں۔ سنجے راجہ اپنی اس کاوش سے اب تک بلوچستان کی چار لائبریریوں اور سندھ کی پانچ لائبریریوں جبکہ سکولوں میں سندھ کے تین اور اسلام آباد کے ایک سکول کو کتابیں دے چکے ہیں۔ سنجے راجہ یہ تمام تر خدمات اپنی علمی اور ادبی دلچسپی اور کتاب دوستی کی بنا پر بغیر کسی معاوضے کےاپنے ذاتی وسائل سے سرانجام دے رہے ہیں۔
اگر کسی دوست کو کوئی کتاب درکار ہو یا کسی کتاب کے سلسلے میں کوئی معلومات درکار ہوں تو وہ سنجے راجہ کے ٹوئیٹر ہینڈل EngrSrd@ پر ان سے رابطہ کر سکتا ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...