ہلاک ہونے والوں کا ذرا بھی احساس ہوتا تو وفاقی وزراءاس ہولناک حادثے پر سیاسی بیان بازی نہ کرتے۔ غلط کہا ہے خاتون وزیر نے کہ آج ناظمین ہوتے تو وہ غیر قانونی کاروبار نہ کرنے دیتے۔ اور وزیر صاحب کا یہ مطالبہ دیکھئے کہ میڈیا غیر قانونی فیکٹریاں منظر عام پر لاتا رہے! تو پھر ریاست کہاں ہے؟ کیا وفاقی وزیر یہ اعتراف کرنا چاہتے ہیں کہ ریاستی ادارے ختم ہو چکے؟
خدا کی پناہ! آج اس ملک میں انسان سے زیادہ بے وقعت کوئی چیز نہیں! لوگ اس طرح مر رہے ہیں اور مارے جا رہے ہیں جیسے طاعون کی وبا میں چوہے مرتے ہیں یا جیسے گاجر مولی کاٹی جاتی ہیں۔ بدقسمتی دیکھئے کہ میاں نوازشریف سے لے کر الطاف حسین تک اور عمران خان سے لے کر چودھری شجاعت حسین اور مولانا فضل الرحمن تک، ہر کوئی افسوس کر رہا ہے لیکن یہ کوئی نہیں کہتا کہ مجرموں کو پکڑو۔ یہی وہ ذہنی ساخت ہے جس نے آج ہمیں ہلاکت کے گڑھے کے کنارے پر لاکھڑا کیا ہے۔ جب بھی بے گناہ لوگ موت کے گھاٹ اتاریں‘ صرف اس وجہ سے کہ اداروں نے اپنے فرائض سرانجام نہیں دیے تو جانی نقصان پر اظہار افسوس کر دیا جائے اور چیختے چلاتے پس ماندگان سے ہمدردی جتا دی جائے۔ اٹھارہ محکمے اپنی جیب میں رکھنے والے وزیراعلیٰ نے فی کس مالی امداد کا اعلان کیا ہے اور
واقعہ کی ”تحقیقات“ کے لئے خصوصی ٹیم تشکیل دے دی ہے۔ وزیراعلیٰ کے مصاحبوں میں کوئی رجلِ رشید ہوتا تو مشورہ دیتا کہ پہلے ذمہ دار محکموں کے سربراہوں کو جیل میں ڈالیے اور اس کے بعد انہیں کہئے کہ بے گناہی ثابت کریں۔ کیا چین میں پہلی اور آخری شاہراہ ناقص تعمیر کرنے کے جرم میں، چو این لائی کے زمانے میں، ٹھیکیدار اور متعلقہ افسر کو پھانسی نہیں دی گئی تھی؟ کیا خلد آشیانی شاہ عبدالعزیز نے روٹی کا وزن کم کرنے والے نانبائی کو اُسی کے تنور میں نہیں جھونک دیا تھا؟ حج کے موقع پر چالیس لاکھ انسانوں کی آمد کے باوجود‘ چائے کی پیالی اور شربت کی بوتل کا نرخ ایک ریال سے اوپر نہیں جاتا تو کیا یہ بغیر کسی وجہ کے ہے؟ سمرنا کے قاضی اور قرطبہ کے کوتوال کے رومانی قصے لہک لہک کر پڑھنے اور پڑھانے والوں کو اتنی توفیق ارزانی کب ہوگی کہ رمضان میں دام بڑھانے والوں کی کمر کی کھال اتار کر ان کے کندھوں پر لٹکا دیں۔ یہی برصغیر تھا جہاں علاﺅ الدین خلجی کم تولنے والے کے جسم سے اتنے ہی وزن کے برابر گوشت کاٹ لیا کرتا تھا۔ اس کے پورے عہدِ اقتدار میں گندم سے لے کر سبزی تک اور کپڑے سے لے کر دوا تک کسی
شے کا نرخ، سرکاری قیمت سے زیادہ نہ بڑھا۔
جوتے بنانے والے کارخانے میں 25 افراد جل کر مر گئے۔ زخمیوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ ”ڈی سی او لاہور نے وزیراعلیٰ پنجاب کو اعتماد میں لے کر رہائشی علاقوں میں قائم فیکٹریوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔“ آمریت اسی کو کہتے ہیں۔ سسٹم ہو تو کام خود بخود ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب فیکٹریاں غیر قانونی ہیں تو ان کے خلاف کارروائی کرنے سے پہلے وزیراعلیٰ کو اعتماد میں لینا کس قانون کا تقاضا ہے؟ دو ہزار پانچ سو فیکٹریاں غیر قانونی طور پر کام کر رہی ہیں۔ اخبارات نے صاف صاف لکھا ہے کہ مختلف صوبائی محکموں نے خود رہائشی علاقوں میں کارخانے لگوائے۔ بلڈنگ بائی لاز کی دن دہاڑے دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ جس فیکٹری میں آگ لگی ہے اور دو درجن سے زیادہ انسان ہلاک ہو گئے ہیں، اس فیکٹری کو لیبر کے محکمے نے چیک کرنا تھا۔ نہیں کیا۔ صنعت کے صوبائی محکمے نے اس کا معائنہ کرنا تھا۔ نہیں کیا۔ بجلی نہیں دینا چاہئے تھی۔ دی گئی۔ پانی کا کنکشن نہیں ملنا چاہئے تھا، ملا۔ کوئی قانون کی حکمرانی والا ملک ہوتا تو ان تمام محکموں کے سربراہ حادثے کے بعد پہلی رات ہی گرفتار کر لئے جاتے۔ ان پر قتل کے مقدمے قائم ہوتے۔ اگر پھانسیاں نہ بھی دی جاتیں، طویل عرصہ کے لئے حوالہ ¿ زنداں کئے جاتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ غیر قانونی فیکٹری تو دور کی بات ہے محکموں کے نئے سربراہ ارادہ کرنے والے کی بھی کھال اتار دیتے۔ آپ اس ملک میں قانون کی تضحیک اور تذلیل کا اندازہ اس سے لگایئے کہ دو درجن بے گناہوں کی موت پر، وہیں کھڑے ہو کر، صنعت کے محکمے کا ضلعی سربراہ یہ قیمتی اطلاع بہم پہنچاتا ہے کہ فیکٹری غیر قانونی طور پر قائم کی گئی تھی۔ سبحان اللہ! کیا احسان فرما رہے ہیں آپ قوم پر ‘یہ انکشاف کر کے۔ خادمِ اعلیٰ کو چاہئے کہ ایسے سارے اہلکاروں کو دانش سکولوں میں تعلیم دیں اور اس کے بعد یہ کرم فرمائی کریں کہ غیر قانونی کام کو روکنے اور جرم کا سدباب کرنے سے پہلے ”اعتماد“ میں لینے کی شرط منسوخ فرما دیں۔ فیکٹری میں حفظِ ماتقدم کے لحاظ سے کوئی ایک اقدام بھی نہیں اٹھایا گیا تھا۔ ایمرجنسی میں باہر نکلنے کا راستہ بنایا ہی نہیں گیا تھا۔ بجلی کے تار ناقص تھے اور باہر نکلنے والے راستے کے عین درمیان میں خطرناک آتش گیر مادے کے ڈرم پڑے تھے۔ آگ بھڑکی تو سب سے پہلے راستہ بند ہوا۔ کیا ان قاتلانہ غفلتوں کے بعد بھی کوئی نہ پکڑا جائے گا؟
مغلوں کے زوال کا زمانہ تھا۔ شہر کے انتظام کی ذمہ داری انگریز ریذیڈنٹ کی تھی۔ شاہی قلعے میں فقط مشاعرے ہوتے تھے یا آرام! اسی زمانے کا ذکر ہے کہ ایک شہزادہ پیدائش سے لے کر بلوغت تک زنان خانے ہی میں رہا۔ عادات و اطوار پر اور طرزِ گفتگو پر نسائیت غالب آ گئی۔ ایک بار زنان خانے میں سانپ نکل آیا۔ عورتیں جمع ہو گئیں اور چلّانے لگیں کہ کسی مرد کو بلاﺅ۔ شہزادہ بھی چیخ چیخ کر کہنے لگا ”کسی مرد کو بلاﺅ‘ کسی مرد کو بلاﺅ“۔ اب یہ تحقیق آپ خود کیجئے کہ لاہور میں اس دلدوز سانحے کے بعد، میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یہ کس نے کہا ہے کہ غیر قانونی فیکٹریاں ہمارے لئے باعثِ تشویش ہیں۔ ان کے خلاف آہنی ہاتھوں سے کارروائی کی جائے! جون ایلیا یاد آ گیا۔
کون سا قافلہ ہے یہ جس کے جرس کا ہے یہ شور
میں تو نڈھال ہو گیا، ہم تو نڈھال ہوگئے