اس حال میں بھی میرزا صاحب نے خاندانی وقار کا سودا نہیں کیا۔ پھٹی ہوئی قمیض‘ مفلر اور جرابیں سوراخوں سے اٹی ہوئی‘ لیکن ہمیشہ شیروانی اور چوڑی دار پاجامے میں ملبوس ہوتے۔ مسکرا کر سلام کا جواب دیتے اور بیٹھک میں اگرچہ صرف تین چار پرانی وضع کی کرسیاں تھیں لیکن جو بھی آتا‘ چائے کی پیالی پئے بغیر جانے نہ دیتے۔
تنگدستی روایتی شیروانی ہی کے نیچے نہ تھی‘ گھر میں بھی یہی حال تھا۔ کھانے میں اکثر دال اور چٹنی ہوتی‘ کبھی وہ بھی نہ ہوتی۔ کئی بار بجلی کا کنکشن بل نہ ادا کرنے کی وجہ سے کٹ گیا اور میرزا صاحب اور ان کے اہل خانہ اندھیرے میں راتیں گزارتے رہے لیکن کبھی کسی سے ذکر نہ کیا۔ وہ اپنی اُس خاندانی روایت کو نبھاتے چلے جا رہے تھے کہ مہمان کھانا کھانے لگے تو کسی نہ کسی بہانے چراغ بجھا دو تاکہ اسے معلوم نہ ہو گھر والے صرف منہ ہلا رہے ہیں۔ زرعی زمین کا آخری ٹکڑا انہوں نے بیٹی کی شادی پر فروخت کر دیا۔ کسی سے کبھی قرض مانگا نہ اپنی حالتِ زار سے پردہ اٹھایا۔ وہ اس خاندان سے تھے جس کے بڑے میر اور میرزا کہلواتے تھے۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب دروازے پر ہاتھی جھومتے تھے اور نوبت بجتی تھی‘ خادماؤں اور ملازموں کے پورے پورے دستے حویلی کے طول و غرض میں پھیلے ہوئے ہوتے۔ یہ لوگ وادی فرغانہ کے شہر نمنگان سے چلے اور پٹنہ پہنچے۔ بہادری کے جوہر دکھائے‘ بادشاہوں سے خلعتیں اور جاگیریں پائیں۔ نجابت اس قدر کہ مقروض کو آتا دیکھ کر راستہ بدل لیتے کہ وہ شرمندہ نہ ہو‘ دستر خوان پر درجنوں کیا بیسیوں مہمان ہوتے اور جو رخصت ہوتا‘ تحفہ بھی لے کر جاتا۔ میرزا صاحب اس گئی گزری خاندانی شان و شوکت کو غربت میں برقرار رکھے ہوئے تھے …؎
بہت جی خوش ہوا اے ہم نشیں! کل جوش سے مل کر
ابھی اگلی شرافت کے نمونے پائے جاتے ہیں
افسوس! صد افسوس! ہیہات! آج پاکستان کی حالت بھی میرزا صاحب جیسی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ کرہ ارض پر سب سے بڑی مسلمان ریاست تھی۔ کراچی سے لے کر چٹاگانگ تک پھیلا ہوا یہ ملک جنت کا قطعہ تھا۔ اس میں مسجدوں کا شہر ڈھاکہ تھا۔‘ سلہٹ تھا جہاں بابا جلال کا مزار تھا۔ برما کی سرحد پر کاکسس بازار تھا جہاں عورتیں شہزادیوں سے زیادہ خوبصورت تھیں۔ کراچی امن کا گہوارہ تھا رات کے دو بجے چائے خانے اور کباب گھر کھلے ہوتے۔ کیا مجال کہ سوئی بھی کسی کی گم ہو جائے یا راہ چلتے کسی کو دھکا لگ جائے! اور پشاور ۔؟ پشاور کی کیا بات تھی۔ حُسن اور روایت کا ایسا امتزاج کہ وسط ایشیا اور خراسان بیک وقت اس میں سمائے ہوئے ہوتے۔ پشاور کے گلی کوچوں میں امن اور عافیت راہ چلتے ہوؤں کی بلائیں لیتی تھی۔ کھانے پینے کی افراط تھی۔ گندم تھی کہ چینی‘ پٹرول تھا کہ ڈیزل‘ کسی شے کی کمی نہ تھی۔ چہار دانگِ عام میں عزت تھی۔ پاکستان کے سرکاری ملازم نیلے رنگ کا سرکاری پاسپورٹ دکھاتے تو دنیا کے تین چوتھائی ممالک ویزے کے بغیر خوش آمدید کہتے لیکن آج ۔۔ میرزا صاحب کے جسم پر صرف شیروانی ہے جس میں سوراخ نہیں۔ امن و امان کا یہ عالم ہے کہ موت دروازوں پر دستک دے رہی ہے اور لاشوں کی گنتی ممکن ہی نہیں‘ جو گھر سے نکلتا ہے گھر والوں کو گلے مل کر اور وصیت لکھوا کر نکلتا ہے۔
لوگ فاقے کر رہے ہیں۔ پٹرول‘ ڈیزل‘ سی این جی زندگی سے زیادہ مہنگے ہو گئے ہیں‘ چینی غیرت کی طرح نایاب ہو گئی ہے اور آٹا حمیت کی طرح غائب ہے۔ شرفا دو وقت کی روٹی مشکل سے جوڑتے ہیں اور کونوں کھدروں میں منہ چھپائے دنیا سے اٹھ جانے کا انتظار کر رہے ہیں لیکن دوسری طرف سیاست دان‘ ریٹائرڈ جرنیل ‘ بیورو کریٹ‘ جاگیردار‘ سردار اور بڑی بڑی توندوں والے نام نہاد ’’عالم‘‘ ریشم و کمخواب میں لپٹے ہیں‘ محلات میں رہتے ہیں اور ان کے پالتو جانور‘ انسانوں سے بہتر خوراک کھاتے ہیں!
’’عزت‘‘ کا یہ عالم ہے کہ پاکستانی پاسپورٹ اور پاکستانی روپیہ چیتھڑوں سے بھی ارزاں تر ہیں گذشتہ تین چار سالوں میں بے شمار ملکوں نے نیلے رنگ کے سرکاری پاسپورٹ کیلئے ویزا لازمی قرار دے دیا ہے۔ ہمارے جگر کے ٹکڑے اونٹوں کی دوڑ میں گوشت کی بوٹیوں کی طرح استعمال ہو رہے ہیں۔ جن قیمتی پرندوں کا شکار پاکستانیوں کے لئے منع ہے۔ انہیں پکڑنے کیلئے مشرق وسطیٰ کے بادشاہ اور شہزادے اس طرح آتے ہیں جیسے یہ ملک ان کی جاگیر ہو۔ دو دن گزرے ایک معتبر اخبار نے خبر دی ہے کہ اپنی پسند کی شکار گاہ نہ میسر آنے پر گذشتہ سال ایک ’’برادر اسلامی‘‘ ملک نے ہماری یہ التماس قبول کرنے سے معذرت کی کہ تیل ادھار دیا جائے! ہم اتنے ’’غیرتمند‘‘ ہو چکے ہیں کہ پچھلی حکومت نے اسلام آباد کی قیمتی زمین سے چار (یا شاید آٹھ) کنال کا پلاٹ ایک دوست ملک کے سفیر کو بن مانگے پیش کیا۔ وہ تو اس سفیر کی شائستگی اور اصول پسندی تھی کہ اس نے یہ پیشکش قبول کرنے سے انکار کر دیا! کیا دنیا کے کسی اور ملک میں بھی ایسا ہوا ہے؟
بڑے بڑے قرضے ہڑپ کرنے والے‘ زنخوں کی طرح چھپ رہے ہیں۔ ایسے میں شور مچا کہ کسی مرد کو بلاؤ‘ آخری چارہ کار کے طور پر خواجہ سراؤں کی انجمن کی صدر الماس بوبی مرد بن کر نکلی ہے۔ اس نے ٹیلی ویژن پر آ کر ملک کی دولت لوٹنے والے مگر مچھوں کو غیرت کا طعنہ دیا ہے۔ اقبالؒ نے کہا تھا … ع
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں
لیکن موجود ہی نہ ہو تو پھر۔؟