کشور ناہید کا کالم اور اصل حقائق
ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کے حوالے سے
اپنی کتاب ہمارا ادبی منظر نامہ کے اختتامیہ میں ادبی دنیا کی عمومی صورتِ حال کا ذکر کرتے ہوئے میں نے کشور ناہید کے بارے میں جوکچھ لکھا تھا،یہاں پیش کررہا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کشور ناہید کی قلمی کاری گری بھی اپنی جگہ کمال کی ہے۔ایک ہی کالم کے تیر سے ایک طرف انتظار حسین کی خبر لیتی ہیں کہ وہ صرف گوپی چند نارنگ کی ہی تعریف و توصیف کیے جا رہے ہیں تو دوسری طرف گوپی چند نارنگ کے سابقہ احسانات فراموش کرکے ان پر بھی کچھ ان الفاظ میں حملہ زن ہوجاتی ہیں
نام پڑ گیا ہر جگہ نارنگ صاحب کا۔مانا وہ بہت گنی آدمی ہیں۔جس کو چاہتے ہیں آج بھی انعام دلوا دیتے ہیں۔دعوت نامہ بھیج دیتے ہیں۔اور جس کو کاٹنا ہو بس اس کی شامت۔خیر بہت کام کرتے ہیں دنیا بھر میں۔
محبت اور کام کرنے میں ان کی بیوی منورما بھی کسی سے کم نہیں ۔مگر برا ہو شاہد بھنڈاری جیسے لکھنے والوں کاکہ سب کچھ جو کہیں سے لیا ہے،وہ صاف بتا دیتا ہے کہ یہ مستعار کہاں کہاں سے ہے۔
(کشور ناہید کا کالم’’جستجو کیا ہے‘‘۔مطبوعہ روزنامہ جنگ۔۱۸ نومبر۲۰۱۱ء)
جب نارنگ صاحب کے ساتھیوں کے ساتھ گھمسان کا رن پڑا ہوا تھا،کشور ناہید جیسے لکھنے والے سب اپنے اپنے مفادات کی فصلیں کاٹ رہے تھے۔بلکہ تب کشور ناہید نے ایک کالم میں ناحق طور پر شمس الرحمن فاروقی صاحب کو بھی ان معاملات کا ذمہ دار قرار دے دیا تھا۔تو اب یکایک انہیں نارنگ صاحب کی مستعار تحریروں کا خیال کیسے آگیا؟اس کالم سے پہلے کا کچھ عرصہ چیک کر لیں۔انڈیا کی ادبی تقریبات میں جہاں نارنگ صاحب کا عمل دخل تھا وہاں کشور ناہید کے دورے رُک گئے تھے۔اور اس کالم کے بعد کا ریکارڈ دیکھ لیں کہ وہ دورے پھر بحال ہو گئے تھے۔تو اخباری کالموں کے سہارے زندہ رہنے والے ہمارے ادیبوں،دانشوروں کی ساری حق گوئی و بے باکی کا حدود اربعہ بس اتنے سے مفادات میں گھرا ہواجزیرہ ہے۔‘‘
(ہمارا ادبی منظر نامہ۔ص ۹۷۷۔۹۷۸)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے کشور ناہید کی حق گوئی و بے باکی کو دعوت ناموں کے مفادات میں گھرا ہوا جزیرہ قرار دیا تھا۔اس کی مزید تصدیق ان کے ایک نئے کالم کے ذریعے ہو رہی ہے۔حالیہ دنوں میں انہیں نہ صرف انڈیا جانے کا موقعہ ملا بلکہ کئی شہروں کی تقریبات میں شرکت کا اعزاز حاصل ہوا۔چونکہ یہ سب کچھ درحقیقت ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کی نظرِ عنایت کے باعث ہوا تھا،اس لیے انہوں نے حق الخدمت کے طور پر ایک کالم لکھا،جس کا عنوان ہی بڑا دھانسو قسم کا ہے ’’اردو ادب کے مہادیو۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ‘‘۔ یہ کالم روزنامہ جنگ لاہور۔ ۳؍اپریل ۲۰۱۵ء میں شائع ہوا ہے۔اگر کشور ناہید نارنگ صاحب کی جائز و ناجائز تعریف و توصیف تک محدود رہ کراپنا پبلک ریلشننگ کا سلسلہ جاری رکھتیں تو مجھے اس کا نوٹس لینے کی ضرورت نہیں تھی۔آخر ایک دنیا اسی کاروبار میں مصروف ہے اور ہر ایک کے پاس اس کا جوازبھی موجودہے۔لیکن اس کالم میں ان کی بیان کردہ دو باتوں کی وجہ سے مجھے اس کا نوٹس لینا پڑ گیا ہے۔ان کی دو باتیں ان کے اپنے الفاظ میں یہ ہیں۔
۱۔
کوئی دشمن بھنڈر کی طرح ان کے علمی تجربہ پر وار کرے تووہ ایرے غیرے سے جواب نہیں دلواتے بلکہ خود تحقیق کے ترازو میں تول کر جواب دیتے ہیں
۲۔
حریفوں نے جب بھی انہیں اُڑانے کی کوشش کی وہ خود پس غبار میں گئے
جب کشور ناہید کو گوپی چند نارنگ صاحب انڈیا کے ادبی دورے نہیں کرا رہے تھے،تب ان کے بقول
برا ہو شاہد بھنڈاری جیسے لکھنے والوں کاکہ سب کچھ جو کہیں سے لیا ہے،وہ صاف بتا دیتا ہے کہ یہ مستعار کہاں کہاں سے ہے۔
۔۔۔اور ایک ہی دعوت نامہ کے نتیجہ میں کئی شہروں کی تقریبات بھگتا کر آئیں تواسی بھنڈرکویوں زد پر رکھ رہی ہیں:
کوئی دشمن بھنڈر کی طرح ان کے علمی تجربہ پر وار کرے تووہ ایرے غیرے سے جواب نہیں دلواتے بلکہ خود تحقیق کے ترازو میں تول کر جواب دیتے ہیں ۔
بہتر ہو کہ محترمہ خود بتائیں کہ انہوں نے پہلے جھوٹ لکھا تھا یا اب جھوٹ لکھ رہی ہیں؟
کشور ناہید کے مفاداتی تضاد سے قطع نظر واقعاتی طور پر بھی انہوں نے غلط بیانی سے کام لیا ہے۔جب نارنگ صاحب پر ترجمہ بلا حوالہ کا الزام آیا تھا،تب انہوں نے ایروں غیروں سے ہی جواب دلائے تھے اور ابھی تک انہوں نے خود اس الزام کا کوئی مدلل تو کیا غیر مدلل جواب بھی نہیں دیا۔حالانکہ وہ اس موضوع پر بھنڈر کے پہلے مضمون کے جواب میں کچھ لکھ دیتے تو یہ معاملہ شدت اختیار نہ کرتا۔اس سلسلہ میں میری یہ تحریر ریکارڈ پر موجود ہے۔
ایک بار پھر واضح کر رہا ہوں کہ جہاں تک ترجمہ بلا حوالہ کے الزام کا تعلق ہے،عمران بھنڈر اس معاملہ میں اصل الزام کی حد سے آگے تک نکل گیا تھااور اپنی اوقات سے باہر ہو گیا تھالیکن یہ الزام یکسر غلط ہر گز نہیں تھا۔اگرنارنگ صاحب شروع میں ہی دانشمندانہ طریق سے اس پر ردِ عمل ظاہر کردیتے تو بات پہلے مضمون کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی ۔لیکن جیسے جیسے ان کا دفاع کرنے والے غیر ادبی طریق سے حملہ آور ہوتے چلے گئے ویسے ویسے ان کا تماشہ بنتا چلا گیا۔
مضمون ۔مار دھاڑ سے ادبی حقیقتِ حال تک۔
بحوالہ :ہمارا ادبی منظر نامہ۔ص ۔۷۸۱
نارنگ صاحب نے ترجمہ بلاحوالہ کے الزام کاخود کوئی معقول جواب دینے کی بجائے اپنے’’ایروں غیروں‘‘سے کام چلانے کی کوشش کی،یوں’’ترجمہ بلا حوالہ‘‘کا الزام اُن کے کارندوں کی مار دھاڑکے ردِ عمل میں سرقہ،چوری اور ادبی ڈاکہ سے موسوم ہوتا چلا گیا۔نقصان ان کا اپنا ہی ہوا۔کشور ناہید کے خوشامدانہ کالم کی غلط بیانی نے ایک بار پھر حقیقت کو ظاہر کر دیا ہے۔اگر نارنگ صاحب نے ترجمہ بلا حوالہ کے الزام کا کوئی معقول جواب کبھی دیا تھا توکشور ناہید پر لازم ہے کہ ان کی اس تحریر کو سامنے لائیں۔نارنگ صاحب کا ایسا کوئی وضاحتی مضمون پیش نہیں کیا جا سکے گا۔
بھنڈر کے بعض حوالہ جات نظر ثانی کا تقاضا ضرور کرتے ہیں،لیکن ان کے پیش کردہ بیشترحوالے فکرمند کرنے والے ہیں۔بھنڈر نے تہذیب،شائستگی اور ادبی سلیقے کے ساتھ اپنا کیس پیش کیا ہوتاتو بعد میں اس کی وہ عبرت ناک حالت نہ ہوتی جو اَب ادب کی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ایک مقبول روزنامہ میں پیہم لکھنے کی مشقت کرنے کے باوجوداس کی کوئی ادبی تو کیا صحافیانہ حیثیت بھی نہیں بن سکی۔اس کا یہ انجام نارنگ صاحب کی کسی کرامت کا نتیجہ نہیں بلکہ بھنڈر کی اپنی بدزبانی کا نتیجہ ہے۔مجھے بھنڈر کے غیر مہذب لب و لہجہ سے اختلاف تھا اوراختلاف ہے۔لیکن اس کے باوجود نارنگ صاحب پر ترجمہ بلا حوالہ کا الزام یکسر غلط نہیں ہے۔ تہذیب،شائستگی اور ادبی سلیقے کے ساتھ یہ بات نارنگ صاحب کے نیازمند اور معروف نقادڈاکٹر ناصر عباس نیر نے بھی نہ صرف تسلیم کی ہے بلکہ اسے اپنے تحقیقی مقالہ کا حصہ بنایا ہے۔میں اپنے مضمون ’’مار دھاڑ سے ادبی حقیقتِ حال تک‘‘میں ناصر عباس نیر کا ایک اقتباس انگریزی اور اردو متن کے ساتھ پیش کرچکا ہوں۔یہاں اسی اقتباس کے بعد کی عبارت بطور ثبوت پیش کر رہا ہوں۔اسے کسی مخالف کی نہیں بلکہ گھر کے اندر کی گواہی شمار کیا جا سکتا ہے ۔
(ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات، ص . ۳۱)
اور
(Catherine Belsey, Critical Practice, P 4)
کا اقتباس پہلو بہ پہلو دینے کے بعد ناصر عباس نیر لکھتے ہیں۔
یہ مثال اس کتاب سے لی گئی ہے، جسے اردو میں ساختیات اور پس ساختیات کی بائبل کا درجہ دیا گیا ہے۔(۸) ہرچند مصنف نے کتابیات میں ان کتابوں کو ستارے کے نشان سے ممیز کیا ہے اور حاشیے میں لکھا ہے کہ ان کتابوں سے بہ طور خاص استفادہ کیا گیا ہے، مگر مذکورہ مثال کی روشنی میں، یہ استفادہ نہیں راست ترجمہ ہے۔ استفادے اور ترجمے کے مطالب بین ہیں، لہٰذا ان پر مزید روشنی ڈالنے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ جن کتابوں سے ترجمہ کیا گیا ہے، ان کا حوالہ اس متن میں موجود نہیں، جو ترجمہ ہے۔ اس طرح ان ترجمہ شدہ حصوں کو مصنف نے اپنے خیالات بنا کر پیش کیا ہے۔ یہ عمل علمی دیانت داری کے مسلمہ اصولوں سے قطعاً ہم آہنگ نہیں ہے۔
ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات، کے بیش تر مندرجات جن کتابوں سے ترجمہ ہیں یا جن کی تسہیل کی گئی ہے، وہ ساختیات اور پس ساختیات کے بنیادی ماخذ نہیں ہیں۔
(اردو تنقید پر مغربی تنقید کے اثرات۔ڈاکٹر ناصر عباس نیر۔ باب ۷۔ ص۲۵۱ ۔)
ڈاکٹر ناصر عباس نیر حوالہ(۸) کے تحت حاشیہ میں لکھتے ہیں
حواشی:۸۔ اس کتاب کے بیش تر مقالات بعض انگریزی کتابوں سے براہ راست ترجمہ ہیں، مثلاً باب اوّل کا پہلا حصہ کیتھرین بیلسی کی مذکورہ کتاب، باب اوّل کا حصہ تنقیدی دبستان اور ساختیات، رامن سیلڈن اور پیٹرو ڈوسن کی کتاب
Contemporary Literary Theory
کے صفحات ۳ تا ۶ کا ترجمہ ہیں۔ دوسرے باب کے آخری صفحات جوناتھن کلّر کی کتاب
Structuralist Poetics
کے صفحات ۶ تا ۷ کا ترجمہ ہیں۔ کتاب ۲ کا پہلاباب "رولاں بارت، پس ساختیات کا پیش رو" کے صفحات ۱۶۱ تا ۱۶۴، جان سٹروک کی کتاب
Structuralism and Since
کے صفحات ۵۳ تا ۶۰ کا ترجمہ ہیں۔(اردو تنقید پر مغربی تنقید کے اثرات از ڈاکٹر ناصر عباس نیر۔باب ۷۔ص ۲۸۳)
ڈاکٹر ناصر عباس نیر کا ایک اور بیان بھی دیکھ لیں۔کیتھرین بیلسی نے آلیتھوسے کے حوالے سے جولکھا ہے۔ انگریزی حوالے کے بعدناصر عباس نیر لکھتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔
اس طور نئی تھیوری میں آئیڈیالوجی کو
(i)
فرد کا اختیاری نہیں، لازمی و غیراختیاری معاملہ قرار دیا گیا ہے
فرد کے حقیقی تجربے سے جوڑا گیا ہے۔ (ii)
(iii)
مانوس اور تشکیک سے مبرا ’’سچائی‘‘ سمجھا گیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ آئیڈیالوجی زبان کے اندر لکھی ہوئی ہے۔ زبان کو وسیلہ اظہار بناتے ہوئے آئیڈیالوجی فرد کے شعور اور ادراک میں، قطعاً غیر محسوس انداز میں شامل ہو جاتی ہے۔ گوپی چند نارنگ نے آئیڈیالوجی کی اسی تھیوری کو قبول کیا اور اپنی تحریروں میں جابجا اسے اپنے موقف کے طور پر پیش کیا ہے۔
(اردو تنقید پر مغربی تنقید کے اثرات۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر۔ باب ۷۔ ص۲۷۶)
سو اب بھنڈر کی بدتہذیبی اور بد زبانی کو ایک طرف بھی کر دیں تو ترجمہ بلا حوالہ کاجو الزام نارنگ صاحب پر لگا ہوا ہے،وہ ان کے اپنے گھر کے اندرکی گواہی کے مطابق بھی ختم نہیں ہوتا۔اس لیے مناسب یہی ہے کہ اس بارے میں نارنگ صاحب خود ہی اپنا موقف بیان کر دیں۔ورنہ سب کچھ ادب کی تاریخ میں محفوظ ہو چکا ہے۔تھوڑا عرصہ گزرنے کے بعد جب کوئی دعوت نامہ دینے والا اور دعوت نامہ لینے والانہیں ہوگا،تب دستیاب شواہد اور حقائق کی بنیاد پر وقت خود اپنا فیصلہ سنائے گا۔
کشورناہیدکادوسرابیان بجائے خود کنفیوژن کا شکار ہے۔لکھتی ہیں۔
حریفوں نے جب بھی انہیں اُڑانے کی کوشش کی وہ خود پس غبار میں گئے۔
غالباَ محترمہ یہ فرما رہی ہیں کہ جب بھی کسی نے نارنگ صاحب پر کوئی الزام لگایانارنگ صاحب کا کچھ نہیں بگڑاالبتہ الزام لگانے والے اپنی مخالفت کے غبار میں خود ہی گم ہو کر رہ گئے۔
اگر یہ بیان خود کشور ناہید صاحبہ کی پہلی مخالفت والی بات (’’جستجو کیا ہے‘‘۔مطبوعہ روزنامہ جنگ۔۱۸ نومبر۲۰۱۱ء) کے تناظر میں ہے تو بالکل درست ہے۔وہ ایک دعوت نامہ کی طلب میں نارنگ صاحب کی مخالفت میں جہاں چلی گئی تھیں وہاں سے انہیں غائب ہونا پڑا۔یعنی اپنے ہی غبار میں گم ہو گئیں۔لیکن جن لوگوں نے ترجمہ بلا حوالہ کے مسئلہ کو علمی و ادبی رنگ میں بیان کیا ،اُن میں سے کوئی بھی کسی غبار میں گم نہیں ہوا۔ناصر عباس نیر مطلع ادب پر موجود ہیں۔میں اپنی 992 صفحات کی کتاب ہمارا ادبی منظر نامہ کے ساتھ پورے شواہد اور حقائق کے ساتھ کتابی صورت میں بھی اور انٹرنیٹ پربھی موجود ہوں۔کسی مار دھاڑ کے بغیر علمی وادبی زبان میں مکالمہ کے لیے ہمہ وقت حاضر ہوں۔ (جیسے اب حاضر ہو گیا ہوں)۔البتہ جب سے اس جھگڑے میں نارنگ صاحب کے ’’ایرے غیرے ‘‘ ٹائپ کارندوں نے گرد اُڑائی تھی،تب سے نارنگ صاحب اپنی مجلسی زندگی سے غائب سے ہو کر رہ گئے ہیں۔کینیڈا سے کراچی تک کی بعض تقریبات میں انہیں بار بار ترجمہ بلا حوالہ کے الزام کا سامنا کرنا پڑاتھا،نتیجہ یہ نکلا کہ بے حد احتیاط کے ساتھ منعقد کی جانے والی تقریبات سے بھی نارنگ صاحب غائب ہونے لگے۔اسی پس منظر میں نارنگ صاحب کے عزیز دوست ظفر اقبال نے مزاحیہ انداز سے ان کا کتبہ ان الفاظ میں شائع کیاتھا۔
گوپی چند نارنگ
حضرات حیدر قریشی اور عمران شاہد بھنڈرکی طرف سے مغربی مصنفین کی تحریروں سے سرقے کے جھوٹے سچے تابڑ توڑ الزامات کے بعد ایسے دل گرفتہ ہوئے کہ تارک الدنیا ہو گئے۔یارلوگوں نے ڈھونڈ تو نکالااور دوبارہ دنیا داری کی طرف مائل کرنے کی کوشش بھی کی لیکن جو روگ دل کو لگا بیٹھے تھے آخر جان لیوا ثابت ہوا۔آخری رسوم میں شمولیت کے لیے پاکستان سے ڈاکٹر ناصر عباس نیر سیدھے شمشان گھاٹ پہنچے اور ارتھی کے کنارے کھڑے ہو کر حاضرین کے سامنے اپنا معرکتہ الآراء مضمون ’’مابعدجدیدیت‘‘پڑھا جو سورگباشی کے علاوہ کسی کی سمجھ میں نہ آیا۔’’خبر نامۂ شب خون‘‘کی طرف سے بھجوائے گئے پیغامِ تعزیت میں کہا گیا کہ ایسی ہستیاں روز روز پیدا نہیں ہوتیں۔کیونکہ ایک آدمی کے لیے روز روز پیدا ہونا کوئی معمولی کام نہیں ہے۔حکومت کی طرف سے ساہتیہ اکیڈمی کا نام تبدیل کرکے نارنگ ساہتیہ اکیڈمی رکھ دیا گیا۔
تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
اُڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا
(دال دلیا از ظفر اقبال۔روزنامہ دنیا لاہور۔۲۰؍اگست ۲۰۱۴ء)
صرف یہی نہیں،خود کشور ناہید جس حالیہ ہند یاترا پر گئی تھیں،اس دوران ایک تقریب ہندی،اردو ساہتیہ ایوارڈاکیڈمی لکھنؤ کے زیر اہتمام لکھنؤ میں بھی ہوئی تھی۔یہ تقریب ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کی ادبی خدمات کے اعتراف میں تھی لیکن اس تقریب میں بھی ڈاکٹر نارنگ صاحب دکھائی نہیں دئیے۔حالانکہ وہاں تو سب ان کے اپنے ہی لوگ تھے۔
سو پس غبار ہوجانے والی بات کہیں اورجا رہی ہے۔رہے نام اللہ کا
کشور ناہید کاکالم’’جستجو کیا ہے؟‘‘دراصل انتظار حسین کی خود نوشت پر تبصرہ تھا۔تبصرہ کیا تھا غم و غصہ کا اظہار تھا۔مختلف لوگوں کے نام لے لے کر لکھا کہ انتظار حسین نے ان کا ذکر نہیں کیا یا بہت کم کیا ہے،جبکہ اس مخالفانہ کالم کا اصل غم یہ تھا کہ انتظار حسین نے کشور ناہید کو ایک طرح سے نظر انداز کر دیا تھا۔سو کالم نگاری کی دھونس جما کر جہاں کشور ناہید دعوت نامے حاصل کر لیتی ہیں، وہیں اس انداز میں بھڑاس نکال کراپنا دل کا بوجھ بھی کم کر لیتی ہیں۔
ہند یاترا کے بعدنارنگ صاحب کی شان میں اتنا توصیفی کالم لکھنے کے دوران کشور ناہیدنے بڑے اچھے پیرائے میں نارنگ صاحب سے ایک فرمائش بھی کرڈالی ہے۔یعنی صرف دعوت نامے کافی نہیں ہیں،کچھ اور بھی چاہئے۔
یہ ’’کچھ اور‘‘ کیا ہے؟ کشور ناہید کے اپنے الفاظ میں دیکھ لیں۔
میری جیسی لکھنے والیاں جنہوں نے اپنے سفید بالوں کو کالا کیا ہوا ہے،وہ بھی نارنگ صاحب کی تاریخیت میں اپنا حوالہ چاہتی ہیں کہ ان میں بھی انسانی تجربے کی صدیاں سمٹی ہوئی ہیں۔
کشور ناہید کی اس ’’خود شناسی‘‘ پر انہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں اور نارنگ صاحب اور کشور ناہید کے مشترکہ دوست ظفر اقبال کے ایک جملہ پر بات مکمل کرتا ہوں۔ان کے کالم میں یہ جملہ کسی اور پس منظر کے ساتھ کشور ناہید کے لیے لکھا گیا تھا۔موجودہ پس منظر میں بھی یہ جملہ کشور ناہید کے لیے بے حد مناسب ہے۔
شعروادب میں رعائتی نمبر نہیں ہوتے اورجولوگ یہ نمبر دیتے ہیں وہ خود بھی رعائتی نمبروں کے محتاج ہوتے ہیں۔
(دال دلیا از ظفر اقبال۔روزنامہ دنیا لاہور۔۶؍مارچ ۲۰۱۵ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔