آج کچھ ادبی ورق گردانی کرتے ہوئے کشور ناہید کے تین مختلف کالموں کے ایسے اقتباس ہاتھ لگے ہیں جن کے مطالعہ سے ایک پرانے گانے”حال کیسا ہے جناب کا” کے اس بول کا دھیان آتا ہے۔۔۔کبھی کچھ کہتی ہے،کبھی کچھ کہتی ہے۔۔۔۔ان بدلتے رنگوں کے عقب میں ایک حقیقت موجود ہے ۔کسی نے دلچسپی لی تو وہ بھی بتا دوں گا ۔سرِ دست کشور ناہید کے بدلتے رنگوں کے کے تین اقتباس پیشِ خدمت ہیں ۔
’’نام پڑ گیا ہر جگہ نارنگ صاحب کا۔مانا وہ بہت گنی آدمی ہیں۔جس کو چاہتے ہیں آج بھی انعام دلوا دیتے ہیں۔دعوت نامہ بھیج دیتے ہیں۔اور جس کو کاٹنا ہو بس اس کی شامت۔خیر بہت کام کرتے ہیں دنیا بھر میں۔محبت اور کام کرنے میں ان کی بیوی منورما بھی کسی سے کم نہیں ۔مگر برا ہو شاہد بھنڈاری جیسے لکھنے والوں کاکہ سب کچھ جو کہیں سے ہے،وہ صاف بتا دیتا ہے کہ یہ مستعار کہاں کہاں سے ہے۔‘‘
(کشور ناہید کا کالم’’جستجو کیا ہے‘‘۔مطبوعہ روزنامہ جنگ۔۱۸ نومبر۲۰۱۱ء)
’’کوئی دشمن بھنڈر کی طرح ان کے علمی تجربہ پر وار کرے تووہ ایرے غیرے سے جواب نہیں دلواتے بلکہ خود تحقیق کے ترازو میں تول کر جواب دیتے ہیں‘‘ ۔
’’اردو ادب کے مہادیو۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ‘‘۔ کشور ناہید کا کالم روزنامہ جنگ لاہور۔ ۳؍اپریل ۲۰۱۵ء
” آج کل ڈاکٹر نارنگ سے لیکر ڈاکٹر ناصر عباس نیر تک نے تنقید میں جن مبادیات تنقید کے پہلوئوں کو اجاگر کیا ہے۔ میرے نوجوان دوست الیاس نے بتایا کہ یہ سب کچھ پیٹر بیری کی کتاب میں وضاحت سے موجود ہے اور الیاس نے پوری کتاب کا اردو ترجمہ کیا ہے۔ ”
کشور ناہید کا کالم۔
روزنامہ جنگ۔۔۔۔۔۔۔15 جون 2018
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...