تہذیبیں بنتی اور بگڑتی رہتی ہیں مگر وہ اپنے فنکارانہ نمونے کے سبب ہر دور میں ذندہ رہتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ یہ نمونے کسی نہ کسی طور پر جمالیاتی فنکارانہ یا فکری بہت کا حوالہ بنتے ہوئے ہر آنے والے دور میں نئی بہت کا سبب بن جاتے ہیں۔ خاص کر قدما کے اشعار اور مصوری اگلے زمانے کی طرف چلتی ہوئے اپنی اہمیت کی اس طور پر اجاگری کرتی ہیں۔ اور یوں لگتا ہے جیسے ماضی، حال اور مستقبل کسی نہ کسی طور پر مختلف فنکارانہ روشنیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر سہیل بخاری مرحوم نے اپنے ایک مقالے ’’اردو زبان کے آغاز اور ارتقاء‘‘ میں راجپوتانہ کی ریاست کشن گڑھ کا ذکر کرتے ہوئے مہاتما ناگری داس کے راجا بلبھ نییھ کے سوگوار رنچھوداس کے چیلے اور کرشن جی کے بھگت کا ذکر کیا ہے۔ یہی ناگری داس جی سنسکرت اور فارسی کے علاوہ کھڑی بولی ’’ڈنگل‘‘ کے بھی عالم تھے۔ (ملاحظہ ہو ماہنامہ 88 ادب لطیف سالنامہ 88ء صحفہ 53)
پہلے ہم یہاں مکتبہ کشن گڑھ کی مصوری اور شاعری کا مختصر جائزہ لینے سے قبل کش گڑھی کی تہذیبی اور تاریخی اہمیت پر گفتگو کر لیں۔ کش گڑھ کی قدیم اور جدید شاعری کو پڑھتے ہوئے یہ احساس نہایت شدت کے ساتھ ہوتا ہے کہ یہاں کے تمام شعر اور مصور ادھا کش کی اساطیر اور رومانی دنیا سے اپنی شعری اور فنکارانہ دنیا کو آج تک آزاد نہ کر سکے۔ کشن گڑھ کے مہاراجوں میں مہاراجہ روپ سنگھ (1658–1695( جو مذہب کے بہت زیادہ پرستار تھے۔ انہوں نے سری کلیان رائے جی کے 1650 میں اس مذہبی ساخت کو رواج دیتے ہوئے کشن گڑھ کے بہت سے راج گھرانوں میں ذاتی دیوتاؤں کو پروان چڑھایا جو بہر حال اس علاقے کی فنکارانہ زندگی میں نئی فنکارانہ حیثیت کا سبب بھی بنی۔
شاہ جہان روپ سنگھ کے مغلوں کے دربار سے خصوصی تعلقات بھی رہے۔ ایک دفعہ روپ سنگھ شاہ جہان کی چتر شالا (مصوری کا نگار خانہ) سے مہاپرو بوبالاوباوا چاریہ کی مصوری کو کش گڑھ لائے یہ مصور کا اعلیٰ نمونہ آج بھی کشن گڑھ کے قلعے کے مندر میں موجود ہے۔ (اگر جے پور سے قومی شاہرای نمر 8 پر اجمیر کی طرف آیا جائے تو اجمیر سے 27 کلو میٹر دور کشن گڑھ کا قصبہ ہے۔ آج کل اس کی آبادی کوئی ایک لاکھ کے قریب ہے۔ یہ انیسویں شاہی ریاست تھی۔ اس کی بنیادیں 1609ء میں پڑیں۔) یہ وہ دور تھا جب ریاست کشن گڑھ میں مال و دولت کی فروانی تھی۔ اگر اس دور میں ایک مصور نے اس فن کو موضوع بناتے ہوئے اس کو مغل فن سے ملا دیا رو دوسرے مصور نے اس مصوری کو ہندو دھرم سے ملا کر اپنی فنکارانہ حست کی تطہیر کی۔ یوں اس شروع کے زمانے میں مصوری نے مغل فن کو ہندو دھرم کی آمیزش سے ایک نئے فکری اور فنکارانہ مکتب کو تشکیل کیا جو اب کشن گڑھ کا مکتبہ مصوری کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مگر بنیادی طور پر یہاں کی مصوری میں رادھا کشن کے تصور کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ یہاں پر یہ بات ذہن میں رہے کہ روپ نگر یہاں کا دارالخلافہ تھا۔ مگر اس سے قبل مہاراجہ کشن سنگھ کے نام سے اس کا کشن گڑھ بھی رہ چکا ہے۔ جو آج بھی رائج ہے۔ سردار سنگھ تک اس شہر کا نام روپ نگر تھا۔ مگر بہادر سنگھ نے 1755ء میں اس کو دوبارہ کشن گڑھ کا نام دیا۔43–1613ء تک کشن گڑھ راج دہانی تھی۔ اس کے بعد راج دہانی تبدیل ہو گئی اس کی وجہ یہ تھی کہ کشن جی کے چھوٹے بیٹے (تیسرے بیٹے) بھارمل کو راج کے شمال میں جاگیر عطا کی جس کا اصل نام ’’برویرا‘‘ تھا، کشن سنگھ کے مرنے کے بعد اس کے تینوں بیٹے سیس مل (18–1615ء) جگ مال(29–1618ء) ہری سنگھ (43-1629ء) تخت نشین رہے۔ بھار مل تخت حاصل نہ کر سکے۔ ان کا انتقال ’’برریرا‘‘ میں ہو گیا۔ ان کے بیٹے روپ سنگھ تھے مندرجہ بالا تینوں راجاؤں کے یہاں اولاد نہ ہوئی۔ جب تیسرے راجا ہر سنگھ کے انتقال کے بعد روپ سنگھ تخت پر بیٹھے وہ ’’برایرا‘‘ میں پیدا ہوئے۔ ان کے بچپن کا زیادہ تر حصہ اسی قصبے میں گزرا وہ 1643ء تک یہاں ہی قیام پذیر رہے اور انہوں نے کشن گڑھ کی بجائے ’’بویرہ‘‘ کو اپنا پایہ تخت بنا لیا اور اس کا نام تبدیل کر کے ’’روپ نگر‘‘ رکھا اور روپ نگر کو ہی کشن گڑھ مصوری کا جنم استھان کہا گیا۔ اور روپ سنگھ کو اس کا جنم داتا تسلیم کرنا مناسب ہو گا، روپ سنگھ نے نہ صرف اپنے علاقے میں دلچسپی لی بلکہ راجھستان سے نکل کر عظیم مغل سلطنت کی سیاست میں عملی طور پر دلچسپی لی یہ وہ زمانہ تھا۔ جب وارا اور اورنگ زیب تخت کے حصول کی کشمکش میں اس دوسرے سے دست و گزبان تھے۔ روپ سنگھ کو اورنگ زیب کی حکمت عملیوں میں ہمیشہ شدید اختلاف رہا۔ بھائیوں کی اس اقتدار کی رسہ کشی میں روپ سنگھ نے کھل کر وارا کا ساتھ دیا۔ یہی نہیں بلکہ روپ سنگھ نے وارا کے حق میں اورنگ زیب کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کیا۔
کشن گڑھ مصوری کی ترویج روپ سنگھ کے صاحبزادے مان سنگھ (1658ء–1606ء) سے ہوئی، انہیں اس فن کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنے نگار خانے میں کچھ ایسی تصویریں بنوائیں جو قطعی طور پر مغل آرٹ سے متاثر تھیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ دہلی سے چند مصور کشن گڑھ بھی آتے ہوں گے۔ اس دور میں کشن گڑھ میں پائے کے نامی گرامی مصور نہ ہونے کے برابر تھے۔ ویسے اس وقت کا شاہی خاندان اس طور پر مصوری کی سرپرستی نہ کر سکا جو اسے کرنا چاہتی تھی۔ کیونکہ خاندنی چپقلش، کاروبار سلطنت کے دیگر امور نے شاہی خاندان کو اپنے دوسرے کاموں میں الجھائے رکھا، لٰہذا اس زمانے میں مصوری کو کوئی خاص بڑھاوا نہیں ملا۔ مگر کشن گڑھ کے راجا ماں سنگھ کے بیٹے راج سنگھ نے یہاں کی مصوری کو خاص ترقی دی۔ راج سنگھ نے اپنے والد کی زندگی میں ہی اس علاقے میں مصوری کی گہما گہمی دیکھی تھی۔ اور انہیں کسی حد تک مصوری کی مبادیات اور تکنیک سے واقفیت تھی، یوں انہوں نے کشن گڑھ کی مصوری کو نیا روپ دیا۔
راج سنگھ کو اس زمانے میں منی ایچر مصوری کے لیے فنکاروں کی بھی ضرورت محسوس ہوئی۔ آخر کار کشن گڑھ کی مصوری میں اصل موضوع رام یہلاؤں کا تھا۔ ان یہلاؤں کے موضوعات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کشن گڑھ کے مکتب مصوری میں نئی فنکارانہ روایت کو پروان چڑھایا گیا۔ اور بھوانی داس نامی مصور کو کشن گڑھ راج میں لایا گیا۔ یوں کشن گڑھ کی مصوری کی بنیادوں میں راج سنگھ کے خوابوں اور سوچوں کو کینوس پر حقیقی شکل میں منتقل کیا گیا۔
کشن گڑھ کی مصوری پر یہاں کے شاعر ناگری داس جی کی شاعری کا بہت گہرا اثر ہے۔ ناگری داس جی کی تخلیقات میں منودھت منجری رشکار تناولی اور دی ہرچند ریکھا بہت اہم ہیں۔ ناگری داس جی کی فنکارانہ حیثیت بنیادی طور پر مذہبی اساطیر کے بنتے ہیں۔ جو کشن گڑھ کی مصوری کے موضوع بھی بن جاتے ہیں۔ سری نگری رس ’’دراصل‘‘ بھگتی رس سے مشابہ دکھائی دیتی ہے۔ مگر ناگری داس جی کی شاعری میں زیادہ حوالے رادھا کشن کی تھیم ہے۔ مگر یہاں ناگری داس جی غیر مذہبی سوعناعات کی اپنی شاعری میں جگہ دیتے ہیں۔ تو ان کی شاعری مختلف شعری جمالیتاے کا روپ دھار لیتی ہے۔ ان کے اشعار میں جگہ جگہ ذلف، چشم، پجاری، عشق بازی جیسے واضح عاشقانہ اشارے ملتے ہیں۔ خاص کر ایک داسی بنی ٹھنی کا نسوانی کردار بہت اہم ہے۔ یہ شاعرانہ تخیل نہیں بلکہ ناگری داس جی کے ہیں گوشت پوست کی حقیقی عورت ہے۔ جس سے ناگری داس جی کو عشق تھا یا یوں کہہ لیں ’’بنی ٹھنی‘‘ سے ان کا افلاطونی عشق تھا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ناگری داس جی کو ’’بنی ٹھنی‘‘ سے صرف جمالیاتی اور شاعرانہ عشق تھا جبکہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ’’بنی ٹھنی‘‘ سے ناگری داس جی کے جسمانی تعلقات تھے۔ مگر فی الحال ابھی تک کوئی بات حتمی طور پر سامنے نہیں آئی۔
ناگری داس جی 1700ء میں پیدا ہوئے۔ 1748ء میں تخت نشین ہوئے مگر گھریلو جھگڑوں کے سب وہ برنداون میں خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے۔ ناگری داس جی نے مہاراجہ کے فرزند ہونے کے باوجود اپنی زندگی فقیرانہ رکھی۔ ان کے باپ نے ان کی قابلیت کو دیکھتے ہوئے ان کو اہم امور سلطنت بھی سونپے مگر ان کو کاروبار سلطنت سے کبھی دلچسپی نہیں رہی۔ ناگری داس جی کو ان کے باپ مہاراجہ راج سنگھ نے اپنے ایک خط میں لکھا۔
ہم نے تم کو صاحب اختیار کیا اور تم ایسی سادگی سے رہو! دنیا کے لوگ ظاہر پرست ہیں۔
اب ذرا غور سے دیکھیں تو احساس ہوتا ہے کہ یہ الفاظ ریختہ کے ہیں۔ ان کے خاندان کے مغل بادشاہوں سے قریبی تعلقات تھے۔ ناگری داس جی نا صرف فارسی کے عالم تھے بلکہ ریختہ لکھنے میں بھی کمال رکھتے تھے۔ کہا تو یہاں تک گیا کہ وہ اپنی روز مرہ بول چال میں ریختہ ہی استعمال کیا کرتے تھے۔ ان کی کتاب کا نام ’’عشق چمن‘‘ ہے۔ ان کے کچھ ذومے ملاحظہ ہوں۔
سرخ چشم محبوب نے خنجر کے سنوار
نکلے لاہور سے رنگے عاشق پنجر یار
(نوٹ تخیل اور استفادہ قابل دید ہیں۔)
زر بازی بن خلق کے کام نہ سنوریں کوئے
ایک عشق بازی ارے جانبازی سو ہوئے
کوئی نہ پہنچا اوہاں تلک آسک (عاشق) نام انیک
اسک (عشق) چمن کے بیچ میں مجنوں ایک
خلق کیا خالق اوت بننے ہی کو کھوب
ہنسنے کو اسک کیا مارن کو محبوب
اسک اسی کی جھلک ہے مہمون سوچ کی دھوپ
جہاں اسک تہاں آب ہے قادر نادر روپ
اے طبیب اٹھ جاؤ گھر عبث چھوئے کیا ہاتھ
چڑھی اسک کی کیفیت یہ اترے سر کے ساتھ
دیو ناگری داس جی کی ایک غزل دیکھیں جو انہوں نے ریختہ میں کہی
اس حسن کے تقابل کرنا بیان کیا ہے
پھر چشم بن پجاری شاعر زبان کیا ہے
مہتاب مکھ کو دیکھے بیتاب ہوتا دل ہے
اس آگوں کس کے من کا رہنا سیاں کیا ہے
ہر روز و اہم کی مجھے مارتیں ادائیں
اس طرز بے تکلف جی کا جہان کیا ہے
ناگراگر گرفتے در راست تیخ خونی
اب عشق کھیت اسکوں لینا میاں کیا ہے
بیسویں صدی کے تقریباً وسط میں کشن گڑھ کا مصورانہ اور شاعرانہ فن محلوں سے نکل کر عوام کے ہاتھوں میں آ گیا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے انگریزی کے پروفیسر ایرک ڈکنس (جو بعد میں گورنمنٹ کالج لاہور سے بھی منسلک رہے) نے کشن گڑھ کی مصوری میں دلچسپی لیتے ہوئے 1951ء 1942ء تک کشن گڑھ کی گم گشتہ مصوری کو دوبارہ زندہ کیا کیونکہ شارول سنگھ (1900ء۔ 1880ء) کے زمانے سے کشن گڑھ کی مصوری کا فن اپنی روایت سے منقطع ہو گیا تھا۔
دہلی کی لیلت کلا اکادمی نے کشن گڑھ کے فن پر کچھ تحریریں میں شایع کیں۔ ایرک ڈکنس کے بعد ہندی سنسکرت، فارسی، اردو، اور انگریزی کے عالم ڈاکٹر فیاض علی خان نے اس مکتبہ مصوری کو بڑھاوا دیا انہوں نے یہاں کی مصوری پر عمومی اور ناگر داس جی کی شاعری کے فنکارانہ پہلو پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے کانڈا والا کے ساتھ ملکر ناگری داس جی کے اشعار پر مبنی چند اہم تصاویر پر بھی کام کیا۔ یوں محلوں اور شاہی نگار خانوں میں ہونے والی شاعری اور مصوری کے نقاد اور محقق عوام سے نکل کر آئے۔ کشن گڑھ کے فنکار شہزاد علی شیرانی نے ناگری داس جی کے اشعار کو بنیاد بناتے ہوئے لاتعداد تصاویر بنائیں۔ شہزاد علی شیرانی نے اپنی مصوری کی تعلیم پال سنگھ سخاوت سے حاصل کی۔ افسوس یہ مجرو ذہن کشن گڑھ کی مصور کے آسمان پر تنہا ستارہ ہی دکھائی دے ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔