ٹھٹھرتی ہوئی سردی میں تیس سے زاید کسان ہلاک ہو چکے ہیں۔ ایک نے خودکشی کی ۔ لیکن امبانی ادانی حکومت کو خوش کرنے کے لئے مودی قانون واپس لینے کے لئے تیار نہیں۔ یہ میں نہیں، کسان کہہ رہے ہیں کہ ہندوستان میں اب مودی کی جگہ ادانی امبانی کی حکومت ہے۔ اس لئے انکے تمام پروڈکٹ کی خریداری سے بچنا ہوگا۔ کسان تحریک میں مسلمان بھی نشانہ بنے۔ پہلے پاکستان پھر خالصتان پھر دہشت گرد آ گئے۔ یہ بھولنا نہیں چاہیے کہ تحریک میں شامل کسانوں کی ہندو آبادی ٩٨ فی صد ہے۔ اور مودی ملک کی ٩٨ فیصد ہندو آبادی کے خلاف جا رہے ہیں۔ اب کسان تحریک کو لے کر ١٩٦٢ کی جنگ کو حوالہ بنایا گیا ہے۔ وزیر زراعت مسٹر تومر نے بتایا کہ کس طرح ایک نظریہ کے لوگ مختلف امور پر مدتوں سے معاشرے میں عدم اطمینان اور انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں اور آج بھی وہ یہی کام کر رہے ہیں۔ اس تحریک کے پیچھے چھپی ہوئی سازش کو محسوس کرتے ہوئے ہوئے ، انہوں نے کسانوں سے اپیل کی کہ تمام کسان اس نظریہ کی نیت کو تسلیم کریں جس نے 62 کی جنگ میں ملک کا ساتھ نہیں دیا۔ آخر وہ کون تھے جنہوں نے ١٩٦٢ کی جنگ میں ملک کا ساتھ نہیں دیا؟ کسان ؟ مسلمان یا کانگریس ؟ انگریزوں کی وفادار تنظیم آر ایس ایس اور مودی حکومت نے اب باسٹھ کی جنگ کا راگ الاپا ہے اور بھول گئے کہ آزادی کی جنگ میں آر ایس ایس فرنگیوں کے ساتھ تھی۔ یہ تاریخی حقیقت ہے۔ 1962 کی جنگ کو ہندوستانی، فوجی شکست اور سیاسی تباہی کے مجموعے کے طور پر دیکھتےہیں ۔۔یہ بھی کہا گیا کہ ہندوستان نے اختیارات پر غور کرنے کی بجائے ، امریکی مشورے کے تحت چینی فوجیوں کو واپس بھیجنے کے لئے فضائیہ کا استعمال نہیں کیا۔ چین کے ساتھ دیرینہ امن قائم کرنے کی ہندوستان کی کوشش ناکام رہی۔ نہرو کے "ہندی چینی بھائی ، بھائی" کی اصطلاح کے استعمال پر بھی سوالات کھڑے ہوئے۔ جنگ نے نہرو کی امیدوں کو ختم کردیا کہ ہندوستان اور چین ایک مضبوط ایشین قطب تشکیل دے سکتے ہیں جو سرد جنگ گروپ کے سپر پاوروں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا ردعمل ہے۔ظاہر ہے ، اس وقت کی صورتحال مختلف تھی۔ ہندوستان کو جنگ کا اندیشہ نہیں تھا اور نہرو آخر تک ہندی چینی بھایی بھایی کا نعرہ لگاتے رہے لیکن بعد میں ہندوستان چین کے رویہ کو سمجھ گیا۔ لیکن ١٩١٤ میں ملی کامیابی کے بعد یہی کام مودی حکومت کرتی رہی ۔ چین حملے کرتا رہا، اراضی کو ہڑپتا رہا، اور مودی کہتے رہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہے۔ جو حکومت چین سے گلے ملتی رہی ہے، وہی حکومت اب ١٩٦٢ کی جنگ کو یاد کر رہی ہے ۔
مجھے کسان تحریک کو لے کر پہلے دن سے مہاتما گاندھی کے قریبی ونوبا بھاوے کی یاد آتی رہی ہے ۔ اس وقت جب ونوبا نے اراضی کی تحریک شروع کی تو ہندوستان اور ہندوستان کے تمام کسان انکے ساتھ کھڑے تھے۔ بھودان تحریک ایک رضاکارانہ طور پر زمینی اصلاحات کی تحریک تھی جو سنت ونوبا بھایو نے 1951 میں شروع کی تھی۔ ان کی کوشش یہ تھی کہ اراضی کی تقسیم کا کام صرف حکومتی قوانین کے ذریعہ نہیں ہونا چاہئے ، بلکہ عوامی شرکت کے ذریعہ کامیابی کے ساتھ آزمایا جانا چاہئے۔ 1951 میں، وہ آندھرا پردیش (موجودہ تلنگانہ) کے پُرتشدد علاقے کے دورے پر تھے۔ 18 اپریل 1951 کو پوچامپلی گاؤں کے ہریجنوں نے ان سے ملاقات کی۔ ہریجنوں نے ونوبا بھاوے پر زور دیا کہ وہ تقریبا 80- 80 ایکڑ اراضی فراہم کرے تاکہ وہ زندگی گزار سکیں۔ ونوبا بھاوے گاؤں کے زمینداروں سے آگے گئے اور اپیل کی کہ وہ اپنی زمین کا عطیہ کریں اور ہریجنوں کو بچائیں۔ان کی اپیل کا اثر ایک زمیندار پر پڑا جس نے اپنی سرزمین سب کو حیرت میں دینے کا تجویز کیا۔ اس واقعے نے ہندوستان کی تاریخ ترک اور عدم تشدد کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ یہیں سے ہی آچاریہ ونوبا بھاوے کی بھودان تحریک شروع ہوئی۔ یہ تحریک 13 سال تک جاری رہی۔ اس دوران ، ونوبا نے ملک کے کونے کونے کا دورہ کیا۔اس تحریک کے ذریعے، وہ چندہ کی شکل میں غریبوں کے لئے 44 لاکھ ایکڑ اراضی حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ ان اراضی میں سے 13 لاکھ ایکڑ زمین کسانوں میں تقسیم کی گئی تھی۔ایک وہ زمانہ تھا اور یہ زمانہ بہت حد تک ٢٠١٤ سے پہلے بھی رہا ۔اب مودی یاد دلا رہے ہیں کہ قانون بنانے کی تجویز بائیس برس پرانی ہے ۔ انیس سو چودہ سے قبل یہ ملک ادانی امبانی کا نہیں تھا ۔ اور اراضی پر قبضہ کا حق ادانی امبانی کو دیا بھی نہیں جا سکتا تھا ۔ ملک فروخت کرنے کا فلسفہ تو دو ہزار چودہ کے بعد آیا۔
اب ہندوستان سرمایہ داروں کا ملک ہے۔ امبانی ادانی کی حکومت ہے۔ کسان ٹھٹھرتی سردی میں اپنی جان لٹا رہے ہیں اور حکومت کے بے شرم نمائندے اور میڈیا کسانوں کو دہشتگرد ٹھہرا رہا ہے۔ کسان جا چکے ہیں کہ زمینی حقیقت کیا ہے، اس لئے وہ آنے والی نسل کو بچانے کے لئے اب جان دینے پر آمادہ ہیں۔ مودی کے تیور یہی رہے تو وہ دن بھی دور نہیں جب بغاوت گھر گھر پھیل جائے گی اور اس وقت مودی کے لئے اپنی حکومت کو بچا پانا مشکل ہو جائے گا۔