کسان نہ تو معاشرے پر بوجھ ہیں اور نہ حکومتوں پر، نہ کسی کو ان کو نوکری دینے کی فکر ہوتی ہے اور نہ ہی یہ مانگ کرتے ہیں۔ اپنی زمین پر محنت کرتے ہیں اور اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ ملک کو بھی وافر اناج مہیا کرتے ہیں۔
دوسری طرف نوکری یافتہ طبقہ ہے جو شہریوں کے ٹیکس سے تنخواہ لیتے ہیں، حکومت پر ان کو مراعات دینے کا بوجھ ہوتا ہے اور بےروزگاری کی صورت میں بھی یہ معاشرے اور حکومت سے مدد کے منتظر رہتے ہیں۔
تیسرا ہمارا نظام تعلیم ہے جس میں خاص طور پر سرکاری یونیورسٹیز ہیں جن کی پالیسیاں بھی یہی سرکاری ملازم بناتے ہیں اور پالیسی بھی ایسی بنائی جاتی ہے جس سے سرکاری ملازمین کو ہی فائدہ ہو۔ آپ سوچ رہے ہوں گے گے یونیورسٹیز سے ملازمین کو کیا فائدہ وہاں تو سب برابر ہیں مگر میں آپ کو بتاؤں ایسا نہیں ہے۔
یونیورسٹی میں جب داخلے کا وقت آتا ہے تو اس میں فائدہ سرکاری ملازمین کو دیا جاتا ہے۔ جو سرکار کو فائدہ دیتے ہیں اور سرکار پر ان کا کوئی بوجھ نہیں ان کو مکمل نظر انداز کیا جاتا ہے۔
داخلے کے وقت میرٹ سے ہٹ کر بھی کچھ سیٹس کا کوٹہ رکھا جاتا ہے جس پر میرٹ پر نہ آنے والے اور جن کے نمبر بننے والے میرٹ سے کم ہوں ان کو داخلے کا چانس دیا جاتا ہے۔ مگر ان کوٹہ سیٹس کی تقسیم کس طرح ہوتی ہے یہ قابل ذکر بات ہے۔
نمبر1 اس یونیورسٹی کے ملازمین کے بچے
نمبر2 ریٹائرڈ یا حاضر سروس آرمی آفیسرز کے بچے
نمبر3 ایسے پاکستانی جو دوسرے ملکوں کی شہریت بھی رکھتے ہیں ان کے بچے
پہلی دو گیٹگری میں دیکھیں تو پہلی دو سرکار سے تنخواہ لیتی ہیں ان کو یہ سپیشل سہولت کیوں دی جا رہی ہے، تیسری میں جو بیرون ملک ہیں وہ ان کی آمدن بھی اچھی ہوتی ہے اور وہ اپنے بچے پرائیویٹ اداروں میں بھی پڑھا سکتے ہیں اگر وہ میرٹ پر نہیں آتے تو ان کو میرٹ میں رعایت کیوں دی جاتی ہے؟
اب اگر اس طبقے کو دیکھیں جس کے بچے محنت کر کے سرکاری ادروں میں پڑھ کر اور کھیتوں میں ساتھ کام بھی کرتے ہیں تاکہ ملک پر بوجھ بننے کی بجائے اپنا کمائیں اور ملک کی اناج کی ضرورت بھی پوری کریں تو ایسے بچوں کے لیے کوئی رعایت نہیں، کسان جسے ملک کا ہیرو مانا جانا چاہیے اس کے بچوں کے لیے نہ کوئی کوٹہ ہے اور نہ ہی فیس میں رعایت۔ چاہے اسے قرض لے کر بچے پڑھانے پڑھیں اس سے فیس پوری وصول کی جاتی ہے۔
ظلم یہ کہ زرعی یونیورسٹی اور زراعت سے متعلقہ ڈگریوں میں بھی کسان کے بچوں کے لیے کوئی کوٹہ یا رعایت نہیں یہاں بھی دوسرے طبقوں کو سہولت ملتی ہے۔
یا تو یہ کوٹہ سسٹم ملک سے مکمل ختم کیا جائے یا اس میں کسانوں کو بھی شامل کیا جائے تاکہ ان ک بھی بچے سہولت سے فائدہ لیں۔ چھوٹے کسانوں کو جن کے پاس دس ایکڑ یا اس سے کم رقبہ ہے ان کے بچوں کے لیے بھی کوٹہ میں سیٹس رکھی جائیں۔ تمام زرعی یونیورسٹیز کے زراعت کے متعلقہ پروگرامز میں تو کسانوں کے بچوں کے لیے کوٹہ لازمی ہونا چاہیے۔
صرف سرکار کا اپنے ملازمین کو ہی فائدہ دینا انصاف کا تقاضہ نہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...