کردار کا علم ، دانش اور پیسے سے کوئی تعلق نہیں ۔
بلکہ دونوں کافی حد تک تضاد میں ہیں ۔ انگریزی کی کہاوت ہے ‘to be selfish is to be sensible ‘ اسی لیے باکردار لوگوں کو عجیب عجیب القابات سے نوازا جاتا ہے ، پیچ ہے ، ہل گیا ہے، اکثر کو تو پاگل خانے ڈال دیا جاتا ہے ۔ آج کل تو جناب کیا کردار ؟ کونسی اخلاقیات ؟ بس پیسہ اور عہدہ چاہیے جناب سب سیلوٹ ماریں گے ، دنیا آپ کے پاؤں نیچے ۔
سلمان اکرم راجہ ۲۰۰۹ میں جب میں چیرمین لیکیویڈیشن بورڈ تھا ایک بینک کے کیس میں پیش ہوئے ۔ میں فون پر کسی سے ادب پر گفتگو کر رہا تھا فرمانے لگے بہت کم افسر ادب سے شغف رکھتے ہیں میں آپ سے متاثر ہوا ہوں ۔ میں نے کہا بس کتابیں پڑھنے کا شوق ہے کوئ خاص نہیں ۔ دراصل میں نے ان کو ایک کیس میں بلایا تھا جس میں وہ اس سے پہلے جونیر بھیج کر بینک کو ٹر کا دیتے تھے ۔ معاملہ یہ تھا کہ میرے سے سابقہ چیرمین بینک کے کھاتہ داروں کے خلاف بہت غلط فیصلہ کر گئے تھے اور میں بینک کے شئیر ہولڈرز کو وہ حق واپس دلوانا چاہتا تھا ۔ راجہ صاحب نے فیس لے لی ہوئ تھی اب کوئ پرواہ نہیں تھی ۔ ایک اور کمپنی Tricon کے کیس کا پوچھنے لگے میں نے پوچھا کیوں ؟ کہنے لگے شاید میں وہ کیس لوں ۔ میں نے کہا پھر میں کچھ بھی بتانے کا اخلاقی اور قانونی طور پر پابند نہیں ۔ ناراض ہو گئے ۔ Julius caesar پر بحث ادھوری چھوڑ کر چلے گئے ۔
ٹھیک ایک ہفتہ بعد چیف منسٹر ہاؤس نے مجھے اسی کیس میں بلایا ، یوسف رضا گیلانی کے پارٹنر خلیل اور سلمان اکرم موجود ۔ میں نے سلمان کا ادھر ہونے پر احتجاج کیا موجودہ سیکریٹری لائیو سٹاک نسیم صادق جو اس وقت ادھر ڈپٹی تھے میٹنگ کے انچارج تھے میرا بھرپور ساتھ دیا اور نشست سلمان کی مرضی کے برخلاف ختم ہوئ ۔ عامر متین صاحب کا تو کل ان جیسے دانشور پر سے ایمان اٹھا میرا کبھی رہا ہی نہیں ان بدمعاشوں پر ۔
عین جب ۹/۱۱ کے حملے ہو رہے تھے تو شام کا وقت تھا پاکستان میں ، اور میں حامد میر کے بھائ عامر میر کے ساتھ اس کے ایجرٹن روڈ کے دفتر میں اسے ایک دوست کے اصرار پر اسٹوری دینے کے لیے بیٹھا تھا ۔ عامر کو ایک سیٹھ نے weekly independent بنا کے دیا تھا۔ میں عامر کی Newsline میں جسٹس قیوم کی اسٹوری پر اس سے زرا impress تھا. اور اسے حامد سے زیادہ جرات مند اور قابل اور ایماندار سمجھتا تھا ۔ اسٹوری چوہدریوں اور اتفاق گروپ کے کواپریٹو میں لُوٹ مار پر تھی ۔ عامر نے اسٹوری تو چھاپ دی لیکن ساری عمر چوہدریوں سے معافیاں مانگتا رہا ۔ دونوں بھائ ادبی طور پر بھی زیرو اور انتہا کے مطلب پرست اور گھٹیا۔
ان سے اوپر کے درجے کے صحافیوں پر آ جائیں ، انہیں دنوں چیف منسٹر کی طرف سے پٹرول پمپ لیز کا مسئلہ میرے زمے لگا مجیب الرحمان شامی کی جان نکل گئ لبرٹی کے پٹرول پمپ سے مزے لگے ہو ئے تھے ۔
میں نے بہت سارے قابل سے قابل وکیل اور صحافی اپنی آنکھوں کے سامنے چند ٹکوں کی خاطر بکتے دیکھے ۔ عطاءالحق قاسمی کتنا زلیل ہو رہا ہے ۔ نزیر ناجی ماضی میں ہوتا رہا ۔ اعتزاز احسن ہو رہا ہے ۔ حامد خان ، اشتر اوصاف ، سلمان بٹ ، ایک سے ایک بڑھ کر ڈاکو ۔
سیاستدان تو ماشا ء اللہ پیدا ہی گند کے لیے ہوئے تھے ۔ گُرو رجنیش نے ان کو شیطان کی اولاد کہا ۔ ان کا تو کوئ منہ ماتھا ہی نہیں لوٹے کے لوٹے ۔
میں محمد خان جونیجو کو بھٹو سے زیادہ عزت دیتا ہوں ۔ اس کی ایمانداری پر اس کے کردار پر حالانکہ مرید تھا پگاڑا کا ۔ اس کے علاوہ سارے بکاؤ اور لوٹے ۔ اقتدار کے بھوکے ۔
یہاں امریکہ میں بھی intellectual سارا بکا ہوا ہے ۔ منٹ نہیں لگاتا پیسے پکڑ کر کچھ بھی کہنے سے ۔ آجکل ہاورڈ سے ایک تائیوانی جو پاکستان کے صوفیا پر پی ایچ ڈی کر رہی ہے ۔ بھٹ شاہ ، پاکستان میں اپنے دنبورہ کے استاد کو کمرہ ڈال کے دیا اور اس کی فیملی کے ساتھ وہاں رہ رہی ہے ۔ آج مجھے کہ رہی تھی کہ یہاں اخباروں پر میرا اسلام لانا اور فاطمہ نام رکھنا مجھے بہت پریشان کرتا ہے ۔ ان کو اور کوئ کام نہیں اس کے سوا؟ بخش دیں مجھے ؟
مجھے jean Paul Sartre کا وہ قول یاد آ گیا کہ میرے بچپن کے پاگل پن نے مجھے rich and famous سے دور رکھا ۔ میں پاکستان میں کبھی بھی کسی کلب کا ممبر نہیں بنا ۔ شدید نفرت ہے rich and famous سے ۔ آئنسٹائن کو یورپ کی ملکہ نے مدعو کیا اسٹیشن پر پروٹوکول کے لیے لوگ بھیجے جب ان کو ٹرین میں نہ پایا پریشان ہوئے ، دیکھا کہ آئنسٹائن پیدل اپنا وائلن بجاتے ہوئے محل کی طرف رواں دواں تھے ۔ ملکہ کو کہا میں موسم ، لوگ اور نظارے دیکھنا چاہتا تھا ۔
یہ ہے جناب زندگی ، جس کا درس ہمارے پیارے نبی ص نے بھی دیا ۔ اس راستے پر آ جائیں بہت مزہ آئے گا سارے ڈیپریشن اور بیماریاں دور ہو جائیں گیں ۔ جیتے رہیں ہمیشہ ہمیشہ ۔ اس انگریزی کی کہاوت میں بہت جان ہے کہ ۔ If character is lost every thing is lost . قدرت کا یہی انصاف مجھے پسند ہے کیونکہ یہ ہر ایک کے بس میں ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔