شمو کی درمیانی انگلی کی پہلی پور سے خون رس رہا تھا اور سلو کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ اس خون کو روکنے کے لیے کیا کرے۔ اس سے اور تو کچھ نہ ہوا، بس شمو کی انگلی اپنے منہ میں ڈال لی اور خون چوسنے لگا۔ انگلی جس پر اوپلوں کے داغ لگے ہوئے تھے، مٹی کی سوندھی خوشبو بسی ہوئی تھی لیکن سلو کو اس وقت سوائے اس تکلیف کے اور کچھ محسوس نہیں ہو رہا تھا جو اسے شمو کی آنکھوں میں آنسوؤں کی صورت نظر آرہی تھی۔ اس کے چہرے پر کرب تھا۔ اگرچہ چھوٹا سا کانٹا ہی چبھا تھا لیکن شمو کو اپنی عمر کے انیس سالوں میں کبھی ماں باپ کی طرف سے ہلکی سی ڈانٹ بھی نہیں پڑی تھی تو تکلیف کیا ہوتی ہے، اسے کیا معلوم تھا۔ وہ یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ تکلیف اگر شروع ہو تو اس کا کوئی اختتام بھی ہوتا ہے؟
*******
سلمان عرف سلو اپنی این جی او کی طرف سے ایک ٹیم کے ساتھ شمو کے گاؤں میں بھگالاں آیا تھا۔ ان کی این جی او کو حکومت کی طرف سے یہ ذمہ داری تفویض کی گئی تھی کہ اس گاؤں کو مستقل بنیادوں پر ایک تو پانی مہیا کرنا ہے اور دوسرا قریبی قصبے سے اس گاؤں تک سڑک بچھانے کی راہ متعین کرنی ہے ۔ ان کاموں کے لیے فنڈ مہیا کرنے میں حکومت اور این جی کا مشترکہ تعاون تھا۔
ایک ماہ تک تو سلمان اور اس کی ٹیم جس میں تین اور افراد شامل تھے، صرف اپنے کام کی طرف دھیان میں لگے رہے۔ پورے گاؤں، جو تقریباً سولہ مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل تھا، کی آبادی تین ہزار موجود نفوس تھی۔ ان دو کاموں کے لیے وہاں کے نومنتخب عوامی نمائندے نے حکومت سے درخواست کی تھی۔
سلمان گاؤں اور اس کے قریب بہنے والے دریا کا سروے کر چکا تھا۔ اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر اس نے ایک منصوبہ بنایا تھا جس کی مدد سے وہ دریا کے پانی کو باقاعدہ فلٹر صورت میں گاؤں کے ہر گھر تک پہنچا سکتا تھا۔ فزیبلٹی رپورٹ اس نے تیار کر لی تھی اور اب اس کو اختتامی مراحل سے گزار رہا تھا کہ اس میں کوئی بھی کمی نہ رہ جائے اور وہ پہلی بار میں ہی منظوری کے مرحلے سے گزر جائے۔ اسے اپنی ٹیم کی محنت کے نتیجے میں کامیابی کا یقین تھا۔
“سلو او سلو! ادھر آ، نی ادھر مر۔” سلمان ایک نیم پختہ گھر کے سامنے سے اپنے لیے مختص گھر کی. طرف جا رہا تھا کہ اس کو گھر کے اندر سے آواز سنائی۔
پہلے تو وہ ٹھٹکا کہ اسے یہاں کس خاتون نے پکارا ہے کیوں کہ اسے گھر میں سب پیار سے سلو ہی کہتے تھے۔ پھر وہ مسکراتا ہوا آگے بڑھ گیا کہ دنیا میں اور سلو بھی تو ہو سکتے ہیں۔
“چلتے جا رہے ہو۔ گر جاؤ گے۔ تمھیں یہ پتھرنظر نہیں آرہے۔” سلمان نے پھر آواز سنی۔
اس نے اپنے پاؤں کی جانب دیکھا تو اسے زمین سے ابھرے ہوئے پتھر نظر آئے جو اس پوری گلی میں جگہ جگہ نکلے ہوئے تھے۔ کچھ نوکیلے اور کچھ گول مول۔ اس سے پہلے وہ کچھ اور سوچتا، اسے اس آواز کے جواب میں” ماں” کا لفظ ایک چھوٹے سے بچے کی آواز میں سنائی دیا۔ اسے یوں لگا جیسے بچہ ساتھ مسکرایا بھی ہو۔ وہ بھی مسکرا
“کمال ہے۔ پتھر تو ادھر بھی ہیں لیکن میں ماں کہہ کر مسکرا نہیں سکتا۔” وہ اپنے آپ سے مخاطب ہوا۔
اس کے چہرے پر ایک دم سے تاسف کا اظہار ابھرا۔
“سلو۔ بیٹھ ادھر۔ یہ لے بسکٹ کھا۔ تیرا ابا تیرے لیے لاتا ہے اور تو کھاتا کم، ضائع زیادہ کرتا ہے۔” بسکٹ کے کاف پر پیش تھی۔
باہر رکا ہوا سلمان اب مسکرا دیا۔ کیونکہ اس کی اماں بھی بسکٹ اسی طرح کہتی تھی اور وہ اسی طرح ضائع کرتا تھا۔ اس نے قدم آگے بڑھائے۔
“سلو ہی رہے گا۔ کوئی فرق نہیں ہے۔ حرکتیں بھی ویسے ہی ہیں۔” اسے یہ آواز ماضی سے سنائی دی۔
اچانک اسے بچے کی رونے کی آواز سنائی دی۔ آواز میں اذیت تھی۔
” کر دی نا انگلی زخمی۔” باہر کے سلو کو لگا زخمی انگلی اس کے منہ میں خون کا ذائقہ بکھیر رہی ہے۔
اس کے قدم جام ہو گئے۔
اسے ایک طاقتور لہر ماضی میں لے گئی۔
***********
“بہت درد ہو رہا ہے؟” سلو نے خون چوس چوس کر روک دیا اور پوچھا۔
انگلی کو پکڑے وہ سہلا بھی رہا تھا اور شمو کو اداس اداس بھی دیکھ رہا تھا ۔
“ہاں سلو۔ بہت درد ہو رہا ہے۔ یوں لگ رہا ہے جیسے کسی نے انگلی کو چیرتے ہوئے دل تک زخم لگا دیا ہو اور دماغ مسکرا رہا ہو۔” شمو نے روہانسی ہوتے ہوئے کہا۔
“دماغ کیوں مسکرا رہا ہے؟ کیا خراب ہو گیا ہے؟” سلو حیران تھا۔
“کہتا ہے کہ دل کی لگی میں دل پر بہت کچھ لگتا ہے۔ بہت کچھ چبھتا ہے۔ پھر لہو اگلتا ہے۔ جب سب ہے تو اداسی کیسی؟” شمو سر جھکا کر بولی۔
اس نے سلو سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا تھا اور اب اپنے دوپٹے کے ایک پلو سے انگلی کو دبا رہی تھی۔
*********
“ماں تیتل تا تانتا۔” بچے کی آواز آئی۔
“سلو۔ کیکر ہمیشہ تکلیف دیتا ہے۔ تمھیں کس نے کہا تھا اسے پکڑو۔” آواز میں تکلیف تھی، درد تھا، ایک لہر تھی کہ جو گھر کی دیواروں کو چیرتی ہوئی باہر آئی تھی اور سیدھی سلمان کی سماعتوں سے ہوتے ہوئے سیدھی اس کے دل میں اتری تھی۔ لیکن اس کا دماغ مسکرایا تھا۔
“ہاں! کیکر واقعی تکلیف دیتا ہے۔ ایسی تکلیف، ایسا درد جس کا اختتام نہیں ہے۔” سلو کو یاد تھا۔
“نہ چبھتا تمھیں کیکر کا کانٹا، نہ ہوتا وہاں کیکر کا یہ درخت، نہ ہوتا کانٹا، اور نہ درد کا فسوں سحر پھیلاتا۔”
“ہاں شمو تم درست کہتی ہو۔ دماغ واقعی مسکراتا ہے۔” سلمان ساکت جامد سوچے جا رہا تھا۔
“چل تجھے ہلدی لگا دوں۔ خبردار جو یہ پٹی اتاری۔ بہت ماروں گی۔” اسے آواز سنائی دی۔ آواز میں آنسو ٹپکتے محسوس ہو رہے تھے۔
“کوئی بیٹیوں کو اس طرح مارتا ہے؟ باپ ہو یا جلاد۔” سلمان کا ہاتھ باپ کے ہاتھ میں رکاوٹ بنا لیکن تب تک تین تھپڑ شمو کے چہرے اور کندھے پر پڑ چکے تھے۔
“جو بیٹی منہ کالا کرے، ایک اجنبی کو تنہائی ممیں لے اس کے لیے جلاد بننا بھی کم ہے۔” علم دین کے لہجے میں دکھ اور درد کی کاٹ تھی۔
“چل کلموہی گھر چل۔ تیرا بندو بست کرتا ہوں۔” علم دین نے شمو کا ہاتھ پکڑا اور اسے کھینچنے لگا۔
جھٹکے سے وہ گرنے لگی تو غیر ارادی طور پر اس نے ایک لٹکتی شاخ پر ہاتھ ڈالا۔ اب کے پانچوں انگلیاں اور ہتھیلی سب چھل گئے۔ لہو ٹپ ٹپ کرکے گرنے لگا۔ لیکن شمو کو کوئی احساس نہیں تھا کہ تکلیف کیا ہوتی ہے۔ بس درد کی صورت اس کی آنکھیں آنسو بہارہی تھیں اور اس کا بدن ہولے ہولے لرز رہا تھا۔
“چاچا! اس کا ہاتھ زخمی ہو گیا ہے۔ پٹی تو باندھ لو۔” سلمان تڑپ اٹھا۔
“جس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہو، اس کو اور پٹیوں کی کیا ضرورت۔” علم دین ایک پل کو رک کر بولا اور پھر شمو کو کھینچتا ہوا چل پڑا۔
سلمان کا دل تو چاہ رہا تھا کہ علم دین کا سر پھاڑ دے اور شمو کو اس کی تکلیف سے کسی بھی طرح نجات دے لیکن اس کا بس نہیں چل رہا تھا۔ وہ وہی کھڑا دیکھتا رہا اور شمو اس کی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ اسے اپنے حلق میں نمکین ذائقہ اور ساتھ ہی گرم سیال اپنے گالوں بھی محسوس ہوا ۔ اس نے نمکین گھونٹ حلق سے باہر نکال کر تھوکا اور ہاتھ سے اپنے چہرے کو صاف کیا۔
“تو نے اچھا نہیں کیا۔ اس کا نازک ہاتھ چھلنی ہو گیا ہے اور تمھیں پروا ہی نہیں۔ خدا کسی کو ایسا باپ نہ دے جو بیٹیوں کو دکھ پہنچائے۔” اپنے آپ سے باتیں کرتا وہ بھی اپنے ٹھکانے کی طرف چل دیا تھا۔
**************
آج دو ہفتے بعد شہر سے وہ واپس آیا تھا۔ اپنے دفتر میں اس نے فزیبلٹی رپورٹ جمع کروانی تھی اور کچھ دیگر دفتری اور گھریلو معاملات بھی دیکھنے تھے۔ اب اس نے دفتر سے ایک ہفتے کی چھٹی لی تھی اور واپس بھگالاں آیا تھا۔ وہ دو ہفتے اس نے شمو کی سوچ کے ساتھ ہی گزاراے تھے۔ اب وہ شمو کے باپ علم دین سے قطعی فیصلہ کرنے کے ارادے سے گاؤں آیا تھا۔ گاؤں قبرستان گاوں کے آغاز میں ہی تھا۔ جب وہ اس کے پاس سے گزرنے لگا تو اس نے علم دین کو ایک قبر کے سرہانے کھڑے دیکھا۔
“علم دین کا تو کوئی رشتہ دار اس قبرستان میں دفن نہیں ہے۔ پھر یہ کس کی قبر ہے؟” سلمان گاڑی روک کر علم دین کو دیکھ کر سوچنے لگا۔
“دیکھ لیتے ہیں، جس کی بھی ہوئی، فاتحہ پڑھ کر چاچا کو گھر بھی پہنچا دوں گا۔” سلمان گاڑی ایک طرف کھڑی کرکے اترا اور علم دین کی طرف بڑھا۔
علم دین کی بھی اس پر نظر پڑ گئی تھی۔ اس نے اپنے ہاتھ منہ پر پھیرے اور جلدی سے قبرستان کی دوسرینجانب سے باہر نکل گیا۔ اس کی چال میں صدیوں کی تھکاوٹ اور بڑھاپا واضح تھا۔
سلمان ایک لمحے کو کھٹکا لیکن پھر اسی قبر کی طرف بڑھا۔ اس کی نگاہ کتبے پر پڑی تو وہ انہی قدموں پر جم گیا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ اب اسے علم دین کی چال میں تھکاوٹ کی اصل وجہ سمجھ آئی تھی۔ قبر کی طرف بڑھتے ہوئے اس کی اپنی ٹانگیں بھی کانپنے لگیں۔
**********
“اس شاخ پر جما خون گواہی دے گا کہ کیکر ہمیشہ بے ثمر ہی ہوتا ہے۔ وہ درد تو دے سکتا ہے، پھل نہیں۔ بھلے اس پر پیلے پھول اگتے ہوں تو وہ بھی بے وفائی کی علامت ہوتے ہیں اور کانٹے اس بے وفائی کو مہمیز کرنے میں اپنا سارا زور لگاتے ہیں۔ شمسہ شمو تو بن گئی لیکن زندگی میں سورج کی طرح روشنی نہ پھیلا سکی۔” سلمان کو یہ تحریر ایک کاغذ پر لکھی ملی تھی جو اسے ایک فائل میں ملا تھا، جس پر پرسنل لکھا ہوا تھا۔
سلمان اس کاغذ کو پکڑے یک ٹک دیکھے جا رہا تھا۔ وی قبرستان میں دعا کرکے اپنے لیے مختص رہائش پر پہنچا تھا۔ اسے اپنے کمرے میں فائل چارپائی پر پڑی دکھائی دی تھی جس پر ہلکی ہلکی دھول جمی تھی ۔ فائل پر ہی کیا موقوف تھا، پورا کمرہ ہی مٹی دھول تھا۔ اس کمرے کو وہ تالا لگا کر گیا تھا اس لیے کوئی صفائی نہیں سکا تھا۔
“میرا انتظار تو کر لیتیں۔ تمھیں مجھ پر یقین نہیں تھا، اعتماد نہیں تھا ۔ ہونا بھی نہیں چاہیے تھا جب میں تمھیں تمھارے باپ کے تھپڑوں سے نہیں بچا سکا تھا تو زمانے کے گرم و سرد سے کیسے بچا سکتا تھا ۔ جب کہ یہاں تو ایک پوری برادری آڑے آنے کو تیار کھڑی تھی۔” کاغذ کو دیکھ وہ بولے جا رہا تھا ۔
باہر دروازے پر دستک ہوئی اور پھر کسی کے اندر آنے کی آواز سنائی دی۔ سلمان نے جلدی جلدی کاغذ فائل میں رکھا اور فائل سرہانے کے دوسری طرف رکھ کر کمرے سے باہر لپکا۔
“اب کیا لینے آئے ہو؟ تمھارے لیے تو سورج کب کا غروب ہو چکا ہے۔” علم دین برآمدے میں کھڑا گویا سلمان کو للکار رہا تھا۔
“چاچا!۔۔۔ آپ۔۔۔” سلمان نے کہنا شروع کیا کہ علم دین نے ہاتھ اٹھا کر اسے مزید کچھ کہنے سے روک دیا۔
“اس سے پہلے کہ بھگالاں کی ہوا زہریلی ہو کر تمھیں کوئی نقصان پہنچا دے، گاؤں کی حد سے نکل جاؤ۔ اسی میں تمھارا فائدہ ہے۔” علم دین نے کہا اور مڑ کر تیز تیز قدموں سے دہلیز پار کر گیا۔
سلمان کچھ بھی نہ کہہ سکا ۔ اس کے پاس تھا ہی نہیں کچھ کہنے کو یا پھر بہت کچھ تھا لیکن بے ربط تھا۔ جب تک لفظوں کو ترتیب دیتا، چاچا گلی کا موڑ مڑ کر غائب ہیں چکا تھا۔
***********
سلو کے سامنے خون آلود شاخ لٹک رہی تھی۔ خون جم کر سیاہ ہو چکا تھا۔ شدید باس آرہی تھی۔ لیکن سلو اس شاخ کو تھامے کھڑا گھورے جا رہا تھا۔
“دیکھ سلو! یہ ہے کیکر کا بڑا درخت۔ گھر میں چھوٹا سا ہے۔ اس پر کانٹے بھی چھوٹے سے ہیں۔ اور ادھر دیکھو، کانٹوں سے بھرا ہوا ہے۔ ان کانٹوں سے درد بھی بہت ہوتا ہے۔ تیری ماں کو بھی بہت درد ہوا تھا۔”
سلمان کے کانوں میں آواز پڑی اور اس نے تڑپ کر پلٹ کر دیکھا۔
اس سے چند قدم دور ایک فربہ خاتون پینتیس چالیس سال کے پیٹے میں کھڑی اپنے ساتھ موجود سات سالہ بچے کو اشارے سے بتا رہی تھی اور سلمان اس بچے کو دیکھے جا رہا تھا جس کے چہرے میں اسے ماضی کی جھلک دکھائی دے رہی تھی۔
**ختم شد**
***************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...