کیا ترکی ایک ملحد ریاست ہے؟ یہ سوال اس لیے اٹھایا ہے کہ ہمارے ہاں تین چار دہائیوں نے رجعت پسند دانشوروں اور سیاسی رہنمائوں نے جب بھی سیکولرازم کا ذکر کیا، کسی فرد یا سیکولر نظام کے حوالے سے تو کہا کہ ’’وہ سیکولر ملحد ہے یا سیکولرازم ملحدانہ نظام ہے۔‘‘ سیکولرازم کی اس تشریح کو پاکستان کے ایک بڑے طبقے نے اسی تناظر میں دیکھناشروع کردیا ہے۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ چند ایک سالوںسے جب سے ہمارے ان ناکام رجعتی حلقوں کو جوافغانستان میں اسلامی انقلاب، پاکستان میں اسلامی نظام اور دنیا بھر میں اسلامی انقلاب کے داعی بنے پھرتے تھے، اب ترکی پر فخر کرتے تھکتے نہیں۔ ترکی اسلامی دنیا کا واحد ملک ہے جس نے فوجی میدانوں میں استعماری طاقتوں کے خلاف اپنے بانی مصطفیٰ کمال پاشا کی قیادت میں جنگ آزادی لڑی اور ایک مٹتی قوم کو نئی جِلا بخشی۔ اور یوں 1923ء میں نئی ترک ریاست کی بنیاد رکھی گئی جسے جمہوریہ (Republic) قرار دیا گیا اور سیکولرازم اس نئی ریاست کا سب سے بڑا ستون تھا۔ وہ ناکام رجعتی جو کبھی یہاں اور کبھی وہاں اسلامی انقلاب کے داعی تھے، اب اُن عناصر نے ترکی کو ایک کامیاب ریاست اور شان دار معیشت دیکھتے ہوئے اس کو اپنی جھولی میں ڈال کر سر فخر سے بلند کرنا شروع کردئیے ہیں۔ میں مولانا مودودی مرحوم کا نہایت احترام کرتاہوں اور اسی طرح مدرسہ دیوبند اور اس مدرسے کے جید علمائے کرام کا، لیکن کیا ہم یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ترکی ’’فکر ِمودودی‘‘ دیوبند یااخوان المسلمون کا کارنامہ ہے؟ ہرگز نہیں۔ آج تک، قلم سے تحریر کرنے تک، موجودہ ترکی فکرِ اتاترک کا کارنامہ ہے۔ اس میں آلِ سعود، حتیٰ کہ فکرِ خمینی کا بھی کوئی عمل دخل نہیں۔ یہ سوال اگر اسی انداز میں ترکی کے کسی کالم میں اٹھایا جائے تو ترک قوم نہ صرف مذاق اڑائے گی بلکہ اسے ناپسند کرے گی۔ وہ اپنے ترک ہونے،یعنی اپنی قوم پرستی اور سیکولر ریاست ہونے پر نازاں ہیں۔ اگر سیکولر ازم ملحدانہ نظام ہے تو پھر ترکی ملحد ریاست تو نہ ہوا۔ پاکستان کے تمام رجعتی جو سیکولرازم کی ملحدانہ تناظر میں تشریح کرتے ہیں، ان کے سامنے اب میرا سوال ہے کہ اگر سیکولرازم ملحدانہ نظام ہے تو پھر وہ کس طرح ترکیہ جمہوریہ (Republic of Turkey) پر فخر کرتے ہیں۔ ترکی بحیثیت ریاست ایک مکمل سیکولر ریاست ہے اور اس کی کامیابی اسی ایک ستون پر کھڑی ہے۔ اس کا اگر کوئی دوسرا ستون ہے تو وہ ترک قوم پرستی Turkish Nationalism ہے۔
اگر ترکی فکرِ مودودی، فکرِ اخوان المسلمون، فکرِ دیوبند اور آلِ سعود اور فکرِ خمینی سمیت کسی مذہبی سیاسی فکر پر نہیں کھڑا تو وہ کس طرح اس کے ’’مامے‘‘ بنے پھرتے ہیں۔ ترکی 1923ء سے آج تک بننے والے تمام آئین کے مطابق مکمل سیکولر ریاست ہے اور وہاں مذہب کی بنیاد پر سیاست کرنا سنگین جرم ہے۔ اگر وہاں کوئی خوب صورت تلاوت قرآن پاک کرتا ہے تو اس کاسیکولرازم سے کوئی تصادم نہیں۔ اس لیے کہ ترک سیکولرازم تمام مذاہب وعقائد کے ماننے والوں کے حقوق کا مکمل تحفظ کرتا ہے۔ مگر کسی کو مذہبی پوپائیت قائم کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ جدید ترکی اس کے بانی مصطفی کمال پاشا اتاترک کے چھے اہم سیاسی فکری ستونوں پر قائم کیا گیا۔
-1 Republicanism
-2 Populism
-3 Secularism
-4 Reformism
-5 Nationalism
-6 Statism
ترک ریاست کے یہ چھے سیاسی فکری ستون، اس کے بانی مصطفی کمال پاشا اتاترک کی تمام عمر کی فکری جدوجہد اور عملی سیاسی جدوجہد کا نچوڑ ہیں۔ اور یوں ان چھے اہم فکری ستونوں پر جدید ترک ریاست کی بنیاد رکھی گئی اور آج تک لاگو آئین انہی ستونوں پر کھڑا ہے۔ اور اسے ہی کمال ازم کہا جاتا ہے۔ ان چھے فکری ستونوں کی موجودہ ترکی جوکہ مسلم دنیا کی کامیاب ترین ریاست ہے، کو بنیادی سیاسی فکر قرار دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں کے رجعت پسند عناصر جو زیادہ تر آلِ سعود کی فکر سے متاثر ہیں اور وہ جدیدیت اور مغربیت کو شعوری طور پر گڈمڈ کرکے پیش کرتے ہیں۔ وہ Modernization اور Europeanization کے مابین ایک بڑی حدِتقسیم کو ہی نہیں سمجھ پائے۔ ترکی میںکمالسٹ ایک ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو بیرونی طاقتوں، استعماری، صیہونی اور توسیع پسند طاقتوں کا مخالف ہو۔ اسی طرح ایک کمالسٹ جدیدیت کا علمبردار ہوتا ہے مگر یورپین بالادستی، روسی بالادستی، امریکی بالادستی کا سخت مخالف۔ افسوس کہ پاکستان میں سیکولرازم سمیت لاتعداد جدید سیاسی فکر کو ان رجعتی عناصر نے مغالطوں اور مبالغوں پر کھڑا کیا ہے۔
علامہ ا قبال ؒ اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ اپنے وقت میں برصغیر میں موجود تمام مسلمان رہنمائوں اور مفکروں کے مقابلے میں جدیدیت کے علمبردار تھے اور اُن کے مخالف تمام کے تمام رجعت پسند دانشور اور سیاسی رہبر پسماندہ اور مغالطوں پر کھڑے اپنی قوم کی رہنمائی کرنے کے درپے تھے۔ اب میں یہاں کمال ازم کے ان چھے ستونوں کی مختصر تشریح عرض کرنا چاہوں گا جس پر موجودہ ترک ریاست کھڑی ہے اور جو دنیائے اسلام کی سب سے کامیاب ریاست اور شان دار معیشت ہے۔
-1 Republicanism یعنی بادشاہت، نام نہاد خلافت جو ایک خاندان کی حکمرانی پر قائم تھی، کے مقابلے میں Rule of Law ، یا Popular Sovereignty کی بنیاد پر ایک ایسی ریاست قائم کرنا مقصود تھی جو کسی فرد، خاندان کے قانون یا حکم کے تحت ہونے کی بجائے عوام کے منظورشدہ آئین کے تحت قائم ہو۔ اسی لیے ترکی کا آئینی نام Republic of Turkey ہے جسے وہ ترک زبان میں ترکیہ جمہوریہ کہتے ہیں۔ ری پبلک یعنی عوام کی خواہشات، تقاضوں اور ضروریات کی تابع ریاست۔
-2 Populism اسے ترک زبان میں ’’خلق چلک ‘‘ کہا جاتا ہے، یعنی لوگوں/عوام کا نظام، اشرافیہ، جاگیرداروں، تھیوکریسی (پوپائیت) اور قبائلی سرداروں کی حاکمیت کی بجائے اجتماعی یا عوام کی سیاسی طاقت، یعنی سیاسی طاقت کا مرکز ان روایتی مراکز کی بجائے عوام کو تسلیم کرنا۔ اس حوالے سے مصطفی کمال نے متعدد بار اپنی تقاریر میں کہا کہ ہم درج بالا حکمران طبقات کو طاقت کا مرکز سمجھنے کی بجائے کسانوں، مزدوروں، محنت کشوں اور عام شہریوں کو سیاسی طاقت کا مرکز تسلیم کرتے ہیں۔ اتاترک نے اس فکری ستون کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ وہ کلونیل ازم، امپیریل ازم، فاشزم، مذہبی اور نسلی تعصب کی بجائے Peoples' Sovereignty پر یقین رکھتے ہیں۔ اُن کا ایک مشہور جملہ اس فکر کے حوالے سے ہے۔
’’اقتدارِاعلیٰ کا سرچشمہ عوام/ملت ہیںاور اس پر ہمارا کامل یقین ہے اور اس پر کوئی مفاہمت نہیں۔‘‘
-3 Secularism، اسے ترک زبان میں Laiklik کہتے ہیں اور یہ جدید ترکی کا اہم ترین ستون ہے۔ جدید ترک ریاست اور سماج آج بھی اس ستون کی طاقت پر کھڑا ہے۔ مصطفی کمال پاشا کی قیادت میں Laiklikیا سیکولرازم درحقیقت اتاترک سے پہلے عثمانی دور کی ایک اہم اصلاحات سے تعلق رکھتا ہے اور اتاترک کی قیادت میں ان اصلاحات کو مقبول عوامی پذیرائی ملی۔ ان اصلاحات کو جسے ترک تاریخ میں ’’تنظیمات‘‘ کہا جاتا ہے، عثمانی دور میں متعارف ہونے والے پہلے آئین کے بطن سے ہوئی۔ عثمانی دور میں سیکولرازم 1839ء سے 1876ء میں متعارف ہوا۔ درحقیقت یہی اصلاحات ہیں جس کو بعد میں مصطفی کمال پاشا اتاترک نے عوامی انقلاب کے ذریعے متعارف کروایا۔ جی ہاں، عثمانی دور میں جدیدیت کی اصلاحات جس میں Laiklikیعنی سیکولرازم متعارف ہوا۔ 1924ء میں جدید ترک ریاست نے سیکولر اصلاحات کرتے ہوئے شیخ الاسلام کا ادارہ ختم کردیا اور اس کی جگہ ایک نیا ادارہ قائم کیا جسے ’’دینیات‘‘ کہتے ہیں۔ آج بھی یہ ادارہ قائم ہے اور اسی کے تحت ملک بھر میں مساجد اور دیگر مذہبی ادارے حکومت کی سرپرستی میں قائم ہیں۔ اتاترک ذاتی طور پر اُن ترک دانشوروں کی فکری جدوجہد سے متاثر تھے جو فرانس کے انقلاب اور فرانسیسی طرز میں ریاست کے عقیدے کے مخالف تھے۔ ترک عوام نے جدیدترک ریاست Laiklik (سیکولرازم) کا ستون قائم کرکے ریاست پوپائیت سے نکال باہر کیا اور ہر فرقے، عقیدے کے لوگوں کو اس کے مذہبی حقوق کی نہ صرف آزادی دے دی بلکہ لوگوں کو اپنے عقائد کے فروغ کے مواقع دئیے اور تحفظ بھی فراہم کیا اور یوں ایک ایسی ریاست جہاں مسلمان اکثریت میں تھے،اسلام مزید پھلا پھولا۔ ریاست کو مذہبیت سے نکالا، یہی آج کی ترک ریاست کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ترکی مسلم دنیا کا فخر ہے۔ ذرا غور کریں کہ ایک سیکولر ریاست دیگر مسلمان قوموں کا فخر ہے۔
-4 Reformism ترک زبان میں اسے انقلاب چلک یعنی انقلابیت قرار دیا گیا، یعنی صدیوں پرانے ریاستی اداروں کو توڑ کر ریاست میں انقلابی اداروں کو قائم کرنا۔ بوسیدہ نظام کی جگہ جدید نظام متعارف کروانا، اسے انگریزی میں ترک دانشور Revolutionism بھی ترجمہ کرتے ہیں یعنی ایک جدید ریاستی ڈھانچا، نام نہاد خلافت جو جاگیرداروں اور قبائلی سرداروں کی بوسیدہ ریاست پر کھڑا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جدیدیت Modernization کے اس سارے عمل میں انہوں نے ترک ثقافت وروایات ہی کو بنیاد بنایا۔ قبائلی جاگیردار روایات پر کھڑے ترک ریاستی ڈھانچے کی بجائے جدید ترک ریاستی ڈھانچے کو وہ انقلاب قرار دیتے ہیں۔ ترک ثقافتی وسماجی قدروں کو مدنظر رکھ کر ریاست وسماج میں مکمل انقلاب۔
-5 Nationalism ترک زبان میں ’’ملت چلک‘‘ یعنی ترک قوم پرستی۔ وہ ترک روایات، عقائد، ثقافت وزبان سمیت دیگر ترک قدروں کے امتزاج کو ترک قوم پرستی قرار دیتے ہیں۔ فرد، خاندان اور سماج کے تمام گروہوں کے باہم اتحاد کو ترک قوم پرستی کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ ترک قوم پرستی ہی درحقیقت 1923ء کے انقلاب کی کامیابی کا سبب ہے اور اس سے پہلے 1915ء سے 1923ء مسلسل غیرملکی حملہ آوروں کے خلاف جنگ آزادی جس کی قیادت مصطفی کمال پاشا اتاترک نے کی، اس ترک قوم پرستی کو جِلا بخش گئی۔ آج کا نوجوان ترک بھی 1915ء سے 1923ء تک کی جنگِ آزادی کو اپنا سب سے بڑا فخر سمجھتا ہے کہ جس نے برطانیہ، فرانس، اٹلی، یونان، نیوزی لینڈ اور دیگر طاقتوں کی مسلط کردہ جنگوں کو اپنے راہبر اتاترک کی قیادت میں شکست فاش دی۔ جدید ترک قوم پرستی کا ایک بڑا ماخذ درحقیقت یہی جنگِ آزادی ہے۔ اس جنگِ آزادی کے بطن ہی سے جدید ترک ریاست کا بھی جنم ہوا جو ترک قوم پرستی پر قائم ہے۔ جدید ترکی کے ساتھ ساتھ دنیا کے دیگر خطوں میں بسنے والے ترکوں کی قیادت کرنا اپنی قومی ذمہ داری تصور کرتی ہے۔ ترکی میں بسنے والے چھے کروڑ کے قریب سنّی اور دوکروڑ سے زائد علوی اسی ترک قوم پرستی کے ستون پر ایک طاقتور اتحاد کیے ہوئے ہیں۔ کسی بھی ترک کا سب سے پہلا اور بڑا فخر اس کا ترک ہونا ہے۔ اور اس فخر کے پیچھے 1915ء سے 1923ء تک کی جنگِ آزادی کے ساتھ ساتھ تاریخ میں اس کا عثمانی اور سلجوقی ہونا بھی ہے۔ آپ اگر کسی ترک کو اس کے ترک ہونے پر توہین کریں تو اس کا ردِعمل آپ کو ورطۂ حیرت میں ڈال دے گا۔
ہمارے ہاں 1923ء میں جدید ترکی کے قیام کے بعد وہاں Language Reforms پر تنقید کرنے ولاے رجعت پسند یا تو مکمل طور پر نابلد ہیں اور یا وہ شعوری طور پر اپنے لوگوں کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں۔ ترکی میں اتاترک کی قیادت میں ترک زبان کی اصلاحات کے پیچھے تقریباً ڈیڑھ سو سال کی ترک دانشوروں کی فکری جدوجہد ہے۔ عثمانی دور کے آخری سالوں (دوصدیوں) میں ترک اشرافیہ (عثمانی) پر ایرانی وعربی تہذیب، تمدن، زبان (عربی وفارسی)، موسیقی، شاعری اور دیگر فارسی وعربی اثرات غالب آگئے تھے۔ زوال کے اِن سالوں میں عثمانی خطوں میں ’’ترک‘‘ کا مطلب ہوتا تھا، جاہل، اجڈ، دیہاتی۔ تقریباً ڈیڑھ سو سال ترک دانشوروں نے فارس وعرب کے تہذیب وتمدن کے خلاف جو جدوجہد کی،اس کے بطن سے ترک نیشنل ازم نے جنم لیا اور بعد میں ترک زبان کی اصلاحات کی گئیں اور یوں ترک زبان کو عربی وفارسی کے غلبے سے آزاد کیا گیا۔ جسے ہمارے رجعتی ، اسے اتاترک کی اسلام کے خلاف سازش قرار دیتے ہیں۔
آج کا کامیاب ترکی ایک تعلیم یافتہ، سائنس وٹیکنالوجی حتیٰ کہ مذہبی (اسلامی) علوم کے حوالے سے اسی لیے عرب وفارس سے آگے ہے کہ انہوں نے عربی وفارسی کے غلبے سے نجات حاصل کی اور زیادہ سے زیادہ ترک زبان کو فروغ دیا۔ ایک دلچسپ معلومات، ہمارے ہاں مولانا روم کو ترکی کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ ترکی میں صرف میولانا (مولانا) کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ عام ترکوں میں اُن کی مقبولیت اسی دور کے عظیم ترک شاعر یونس ایمرے (1238-1320) سے کہیں کم ہے۔ ذرا غور کریں لاہور میں ترکی نے اپنا پہلا کلچرل سینٹر دوسال قبل کھولا، اس کا نام رومی کلچرل سینٹر نہیں بلکہ یونس ایمرے کلچرل سینٹر ہے۔ مولانا رومی کو افغان مولانا بلخی کہتے ہیں کہ وہ بلخ کی سرزمین سے تھے اور وہ ترک زبان نہیں بلکہ فارسی کے شاعر تھے۔
ترک قوم پرستی موجودہ ترکی اور ترکوں کے ماتھے کا جھومر ہے۔ یہ ترک نیشنل ازم ہی تھا جس نے مغرب کی استعماری طاقتوں کو 1915ء سے 1923ء مختلف جنگوں کے میدانوں میں شکست دی۔
-6 Statism ترک زبان میں اسے ’’دولت چلک‘‘ کہتے ہیں یعنی ترک ریاست کا معیشت میں کردار۔ یہ دنیا کا واحد سرمایہ داری نظام تھا جس میں ترک ریاست نے اپنی مداخلت کا حق قائم رکھا۔ اتاترک نے واضح الفاظ میں ’’دولت چلک‘‘ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ہم جدیدیت کے اس سفر میں سرمایہ داری کو کھلی چھٹی نہیں دیں گے۔ Statism نے ہی ترک معیشت کی طاقتور بنیادیں قائم کیں، جس نے ترکی کو ایک طاقتور معیشت میں بدل دیا۔ ترکی نے ریاستی سطح پر کارسازی سے لے کر روٹی کی صنعت کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ جدید ترکی کے اسی کردار نے ترکی کو جلد ہی سیاسی جدیدیت کے ساتھ ساتھ صنعتی جدیدیت یا ترقی کی راہ پر ڈال دیا۔ آج کا صنعتی ترکی، کمال ازم کے اس معاشی ستون کے سبب آگے بڑھنے میں کامیاب ہوا۔ اتاترک نے 1923ء میں جدید ترکیہ جمہوریہ کی بنیاد رکھتے ہوئے باربار واضح کیا کہ ’’ترکی کسانوں کا ہے۔‘‘ اسی لیے جاگیردارانہ نظام لپیٹا گیا۔ اتاترک نے ترکی کو جمہوریہ (Republic) قرار دیتے ہوئے سیکولرازم اور جمہوریت کی بنیاد رکھی جس نے ترکی کو ایک کامیاب قوم میں بدل دیا۔ ترکی تیسری دنیا کی واحد جمہوریت ہے جہاں جمہوریت کسی کلونیل طاقت کی Legacy نہیں۔ جیسے بھارت، پاکستان یا کسی افریقی ملک میں موجود جمہوریت برطانیہ یا فرانس کی Legacy ہو۔ اس حوالے سے ترکی وہ واحد ملک ہے جس نے ابھرتی استعماری طاقتوں برطانیہ اور فرانس کو شکست دے کر جمہوریت قائم کی اور جس کے اپنے ہاں عثمانی Legacyتھی جو جاگیردارانہ وقبائلی اداروں پر کھڑا تھا۔ اتاترک کے حوالے سے ترکی کے عظیم رہبر بلند ایجوت مرحوم نے ایک دلچسپ نکتہ بیان کیا کہ ہٹلر ایک سویلین تھا لیکن عوامی اجتماعات میں فوجی یونیفارم پہن کر جاتا تھا، مسولینی بھی سویلین تھا اور وہ بھی عوامی اجتماعات میں فوجی یونیفارم میں جاتا تھا اور اسی طرح سٹالن بھی۔ جبکہ اتاترک عثمانی دور کے ایک کمیشنڈ افسر تھے، بعد میں جرنیل اور فوجی کمانڈر بنے اور پھر لاتعداد جنگوں کے فاتح اور ایک عوامی انقلاب کے بانی، لیکن وہ جب بھی عوامی اجتماعات میں جاتے تو فوجی یونیفارم نہیں پہنتے تھے۔ ذرا غور کریں اس Line of Demarcation پر۔ میں نے ترکی کے انقلاب کے حوالے سے ایک نکتہ بار بار اپنی تحریروں اور تقریروں میں پیش کیا کہ لینن کا انقلاب 1917ء میں برپا ہوا، ختم ہوگیا، مشرقی یورپ میں سوشلسٹ ریاستیں دوسری جنگ عظیم کے بعد قائم ہوئیں، تحلیل ہوگئیں۔ اتاترک کا انقلاب 1923ء میں مکمل ہوا اور ابھی تک جاری ہے اور 2023ء میں ترک قوم، ریاست اور حکومت اس انقلاب کے سوسال منانے جارہی ہے۔ یہ انقلاب کیوں ناکام نہیں ہوا۔ اس کا جواب درج بالا اتاترک کے چھے فکری ستونوں میں ہے۔ ترک ریاست میں اہم ترین ستون سیکولرازم ہے۔ صدر اردوآن کی جماعت AKP سمیت تمام جماعتیں سیکولرازم اور ترک نیشنل ازم کو اپنی منزل قرار دیتی ہیں۔ پاکستان کے رجعتی نہ جانے کس طرح سیکولرازم کو ملحدانہ نظام قرار دیتے ہیں کہ ایسا سیکولر سماج جہاں پاکستان سے زیادہ مذہبی آزادیاں ہیں اور قوم خوش حال، یعنی خوشحال مسلمان، تعلیم یافتہ ترک (مسلمان) تو پھر سیکولر ازم ملحدانہ نظام کیسے؟
کاش ہم مغالطوں میں رہنے اور خواہشات کوتحقیق کہنا چھوڑ دیں تو دنیا کی معلومات اور علم کے دروازے ہم پر کھل جائیں۔ ترک ریاست سیکولر، سماج سیکولر، نظام سیکولر، اور ایک مسلمان اکثریتی قوم، تو پھر ملحدانہ نظام کیسے؟
“