کل پاکستان سے ایک خاتون نے لکھا کے اس کی بیٹی اس سے اکثر یہ سوال پوچھتی ہے کہ “اماں کیا صبح روز ہوتی ہے “۔ اس کی والدہ نے تو یہی کہا کے روز ہوتی ہے لیکن بچی مانتی نہیں ۔ میرا فورا بہت سیدھا سادھا جواب تھا کے دراصل “روز” ہی انسان کی بنائ ہوئ کوئ جعلی کیفیت ہے لہٰزا سوال کا جواب یہی ہے کے نہ کوئ صبح ہے اور نہ ہی کوئ روز ۔ اس خاتون میرے جواب پر مسکرا تے ہوئے کہا کے وہ سوچ رہی تھی کے اپنی بچی کو کسی نفسیاتی معالج کو دکھاؤں لیکن اس جواب سے اسے حوصلہ ہوا کے بہت سارے ایسے پاگل دنیا میں موجود ہیں جو ایسے ہی سوال و جواب کرتے کرتے منزل اور مقصد پا لیتے ہیں ۔
ایکہارٹ ٹولے جس کا میں اکثر تزکرہ کرتا ہوں ، اس نے یہی سمجھایا تھا کے سب کچھ Now میں ہے ۔ “حال “ہی “ میں ہم سب کا کائنات سمیت وجود ہے ۔ باقی سب دھوکہ اور فراڈ ہے ۔ اس وقت جہاں سے میں یہ بلاگ لکھ رہا ہوں باہر بہت شدید بارش ہو رہی ہے ۔ زوردار آوازیں درختوں کی ، آندھی کی ، ایک رقص کائنات کا عجیب انداز میں برپا ہے ۔ محفل سجی ہوئ ہے ، ہر کوئ اپنے من میں مست ۔ اس وقت میں کہ سکتا ہوں کے بارش ہی تو صرف ہوتی ہے اور تو کچھ نہیں ۔ اگر مجھے کھڑکی سے بارش ہوتی نظر نہ آئے تو میں یہ بھی کہ سکتا ہوں کے باہر آگ لگی ہوئ ہے ، اگر میرا اندر جل رہا ہے ، تو میں یقیناً یہی کہوں گا ۔ آپکی روحانی کیفیت کے ہزاروں رنگ ہیں بلکل اسی طرح جیسے قدرت کے ۔ روح کو جس طرح رقص میں بار بار اپنی اصل چال میں آنا پڑتا ہے اسی طرح شادمانی میں پلک جھپکنے کی بھی ضرورت نہیں رہتی ۔
اس کے علاوہ سب مصنوعی ہے ، انسانی اختراع ہے ۔ انسان کا اپنا انسانوں پر کنٹرول کا دھندہ ، قدرت سے لڑائ اور ماحول کی تباہی ۔ ہر سوال ادھر ہی آ کر ختم ہوتا ہے جہاں سے شروع “میں کون ہوں؟“۔
اس وقت تو میں آزاد انسان ، کائنات کا ایک لازمی جُزو ، اس کی روح اور خدائ ، سب کچھ میرے ہی اندر ، لیکن باہر کاغزوں پر ایک animated film جس کا عنوان جیسے ہو “ٹرمپ پاگل ہے”۔ میری والدہ اکثر کہتی تھیں کے کیا ان لوگوں کو یہ نہیں پتہ کے ایک دن انہوں نے مر جانا ہے ؟ کیوں ایسی ظالمانہ حرکتیں کرتے ہیں ۔ میں ہمیشہ کہتا تھا ، “نہیں ، انہیں نہیں پتہ “۔ وہ پھر کہتی انہوں نے لوگوں کو مرتے نہیں دیکھا ، میں پھر کہتا کے
جی لیکن “خود کو تو مرتے نہیں دیکھا” ۔ حضور والا ! یہ ہے ، سارا سیاپا اور رونا دھونا اس دنیا کا ۔ کراچی ، پاکستان سے ایک خاتون پر اس وقت موت طاری ہو گئ جب ، نہ کے اس کے خاوند نے اسے چھوڑ دیا بلکہ یہ ماننے سے بھی انکار کر دیا کے اس کی کوکھ میں جو بچہ ہے ، وہ بھی اس شادی سے ہے ۔ یہ موت اس جوان لڑکی اور اس کے ہونے والے بچے کو زندگی کا مطلب سمجھا گئ ۔ آج وہ بہت خوش ہے ،مطمئن ہے اور قدرت کے رقص میں ، نالے بلبل کے سن رہی ہے اور ہمہ تن گوش ہے ۔ سمندر کا سا سکون اور طوفانوں کی دہل دونوں کو ایک ساتھ مٹھی میں سمیٹ کر رواں دواں ۔
کل رات میرے ساتھ ٹرین پر بیٹھی ایک خاتون نے اپنی ایک دوست کو کہا کے ہم سب بونے پیدا کر رہے ہیں ۔ میں نے کہا جی ، اور اس پر بہت خوش ، دھمال چوکیاں ڈال رہے ہیں ۔ ہر کوئ لائکس اور شئیرز گننے کے چکر میں پڑا ہوا ہے ۔ زندگی کا تو ایک اپنا حُسن ہے ، ہمارا ایک اپنا مقام ۔ ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ضرور لیکن کسی قسم کا رتی بھر بھی انحصار نہیں ۔ اگلے دن ہی ایک پاکستانی شخص نے یہاں امریکہ میں کہا کے اسے تو ٹرمپ جانتا ہے ، میں نے کہا ، اوہ پھر تو تم بہت بد قسمت ہو ، اس پر انحصار کا ہر وقت سوچتے ہو گے ۔ ہم تو بادشاہ ٹھہرے ۔ قدرت کے نزدیک اور اصل طاقت میں تو ہم ٹرمپ سے بہت زیادہ طاقتور ہیں ، اس کی طاقت کو تو ایک اور روحانی ماسٹر گیری زوکاو authentic power مانتا ہی نہیں ۔ وہ بیچارہ تو پچھلے تیس دن سے جزوی شٹ ڈاؤن سے لاکھوں لوگوں کی گالیاں سن رہا ہے ۔ اس کی تو بس اب
Damn if you do and damn if you don’t
والی صورتحال ہے ۔ ایک طرف اس کا وہ ریڈ نیک ووٹر جس نے اسے جتایا اور دوسری طرف جمہوریت پسند قوتیں ۔
میری دعا اور خواہش ہے کے آپ سب اپنی زندگیاں جیئیں ، قدرت کے سنگ ۔ یہ مشینوں اور سیاست والی زندگیوں سے پرہیز کریں ، یہ نہ صرف ہزاروں بیماریاں لگوائیں گیں بلکہ جیتے جی آپ کو مار دیں گیں ۔ بہت خوش رہیں ۔ اللہ تعالی آپ سب کا حامی و ناصر ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...